شامی سیاست اور اسرائیلی چال بازیاں

سیاسی اور فوجی مفادات کی خاطر شام میں انتشار برپا کیا گیا ہے

تحریر و ترتیب: فیض الحق
ترجمہ:  سلیم الہندی، حیدرآباد

  اقتدار کے حصول کے لیے سیاست دانوں کی رسہ کشی نہ صرف بھارت میں بلکہ دیگر ممالک میں بھی ہمہ وقت جاری رہتی ہے۔ عالمی منظر نامے کے مطابق اگر ملک شام کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں صدر بشارالاسد کے لیے حزب مخالف کی جانب سے متحدہ طور پر اٹھائے جانے والے چند نہایت ٹھوس اور انتہائی مضبوط سیاسی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے تمام راستے دن بہ دن محدود اور تنگ ہوتے جارہے ہیں۔ بالخصوص درعہ اور دیرالزور کے علاقوں کے علاوہ اب تک، بشارالاسد کی تائید کرنے والے اور غیر جانب دار کہلانے جانے والے علاقے اسویدہ   بشمول بطاکیہ اور طرطوس اب حزب مخالف کے متحدہ محاذ کے ساتھ شریک ہونے کا اعلان کرچکے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ وہ اہم مقامات ہیں جہاں سے بشارالاسد ٹولے کا نکالا جانا ضروری ہے۔ اس حکمت عملی پر عمل درآمد کرنے کے لیے عوامی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج شام کے عوام میں شعور بیدار ہو رہا ہے اور وہ مانتے ہیں کہ ملک کے موجودہ بدترین حالات کو پیدا کرنے اور علاقے میں شدید بحران لانے میں بشارالاسد ٹولہ ہی حقیقی ذمہ دار ہے۔ بدقسمتی سے شام میں بحران اور نام نہاد عوامی انقلاب سے پہلے، اسد ٹولہ، مقامی عوام اور سیاست دانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ آج حالات پوری طرح بدل چکے ہیں، عوام کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے، ان کے خیالات میں تبدیلی آچکی ہے۔ چنانچہ آج خود سیاست دان‘ عوام اور تمام فرقے، یہ سوچنے لگے ہیں کہ اب انہیں ان مسلکی اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا اور متحدہ طاقت کے بل بوتے پر موجودہ حکومت کوبے دخل کرنے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسی میں ساری قوم کا مفاد پوشیدہ ہے۔
آج شام کے عوام شدید غربت بھوک و افلاس اور عدم تحفظ کا شکار ہیں، معصوم بچے اور  نوجوان تعلیم سے محروم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں خوش حالی کے قیام اورسماج میں امن و امان کے استحکام کے لیے وہ متحد ہوں گے۔ اس افراتفری کے دوران حکومت عوام کو اس غلط فہمی میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ بشارالاسد ٹولے کی حکومت ہی مستحکم اور پائیدار ہے جو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ اس نے عوام کو یہ بھی باور کروانے کی کوشش کی کہ اب ملک میں کوئی سیاسی یا عوامی مسئلہ باقی نہیں رہا اس لیے کسی سیاسی حل کی ضرورت بھی نہیں رہی۔
سچ تو یہ ہے کہ اس وقت شامی عوام کے لیے حزب اختلاف کے زیر اثر علاقوں میں ایک قابل عمل ،مثالی، سیاسی اور تمام طبقات کے لیے قابل قبول حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ملک میں انتشار کو اتنی طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی اسد حکومت نے عمداً اس کو حل کرنے کے لیے کوئی پہل نہیں کی، عوام کی بہبود کی خاطر کوئی مناسب قابل عمل اور قابل قبول حل تلاش نہیں کیا۔ آج عوام خود چاہتے ہیں کہ کوئی متفقہ سیاسی قیادت تشکیل پائے جو موجودہ حکومت سے کھلے دماغ، وسیع القلبی اور نیک نیتی کے ساتھ کوئی  فیصلہ کن بات چیت کرسکے ۔
اسی طرح شام میں اسرائیلی مفادات کا بھی ایک پس منظر ہے۔ اسرائیل نے اپنے سیاسی اور فوجی مفادات کے تحفظ اور اپنی سرحدوں کی وسعت کی خاطر ملک شام میں انتشار، بد امنی، خلفشار اور عام بے چینی پھیلا کر اسے فوجی، معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ فوجی اور سفارتی سطح پر اسرائیل سے مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ 2021 میں اقتصادی طور پر شام کو کمزور کرنے کے بعد اسرائیل نے شام کی جانب سے اسرائیل کے نہایت حساس علاقوں پر متوقع حملے کے خدشے کے پیش نظر، تین مطالبات پیش کیے تھے۔
پہلا: ’’شام کا جنوبی علاقہ۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ وہ بشارالاسد حکومت کی کمزوریوں کے علاوہ شام پر ایران اور روس کے درمیان، بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے ناجائز فائدہ اٹھائے تاکہ وہ اپنے قدیم دشمن ایران پر آسانی سے حملہ کر سکے، اسی بنیاد پر اسرائیل نے بشارالاسد حکومت کے مخالفین کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں۔
دوسرا: شام کا شمال مشرقی علاقہ۔ اسرائیل   نے اس علاقے میں اپنا ایک مستقل اور مضبوط فوجی اڈہ قائم کرنے کے لیے کرد   باغیوں کے ساتھ مل کر انہیں فوجی اور اقتصادی امداد مہیا کرکے انہیں اپنا حامی اور ہمنوا بنالیا اور اپنا فوجی اڈہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ علاقہ صنعتی اور زرعی اعتبار سے ترقی یافتہ ہے لیکن اس خطے میں ایران کا بہت زیادہ اثر ہے چنانچہ کسی بھی صورت میں اسرائیل کو شام کے اس علاقے میں ایران کی برتری قابل برداشت نہیں۔
تیسرا:  شام اور لبنان کا سرحدی علاقہ۔ یعنی   شام اور لبنان کی سرحد کے درمیان، ایک نیم فوجی تنظیم حزب اللہ کے کنٹرول کو اسرائیل، دراصل اپنی فوجی حکمت عملی کی کمزوری سمجھتا تھا۔ اس کے لیے اسرائیل کو اس بات کا مشورہ دیا گیا کہ شام اور لبنان   کے اس سرحدی علاقے میں اپنی فوجی سرگرمیاں تیز تر کرے تاکہ بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے میں دیگر ہم خیال عالمی طاقتوں کو بھی تقویت پہنچے۔  حالات اس بات کے گواہ ہیں کہ گزشتہ بارہ سال کے دوران اسرائیل کی خارجہ پالیسیاں متعدد بار تبدیل کی گئیں۔ سب سے پہلے شام   پر کسی بھی جگہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی گئی اور طویل فاصلے تک وار کرنے والے میزائلوں کی تیاری پر بھی امتناع عائد کردیا گیا۔ اس ضمن میں اسرائیل نے جو سب سے اہم کامیابی حاصل کی وہ یہ ہے کہ عرب اسرائیل تنازعے سے شام اور ایران کو علیحدہ کر دیا گیا۔ ایران کے ہتھیار سے لیس جنگجو قبائل کو اس مسئلے سے خاص طور پر دور رکھا گیا۔ اس طرح ایران کے اثر ورسوخ کو زائل کرنے میں اسرائیل نے قابل لحاظ کامیابی حاصل کی۔  اس علاقے میں اسرائیل کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ شام کی مشہور گولان   پہاڑیوں پر اسرائیل نے جبراً قبضہ کرلیا اور وہ اس ناجائز قبضے کو اسرائیل کا ایک حصہ قرار دینے میں کامیاب بھی ہوگیا۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ شام کے مضافات میں موجود کھنڈرات میں قائم چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کی الگ الگ ریاستیں قائم کی گئیں جو بشارالاسد کی جابرانہ حکومت کی تائید کرتے تھے۔ اب یہی قبائل، بشارالاسد کی حکومت کے خلاف عوام کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ لہذا یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔
(بشکریہ :بمرکز حرمون للدراسات المعاصرۃ)
***

 

***

 آج شام کے عوام میں شعور بیدار ہو رہا ہے اور وہ مانتے ہیں کہ ملک کے موجودہ بدترین حالات کو پیدا کرنے اور علاقے میں شدید بحران لانے میں بشارالاسد ٹولہ ہی حقیقی ذمہ دار ہے۔ بدقسمتی سے شام میں بحران اور نام نہاد عوامی انقلاب سے پہلے، اسد ٹولہ، مقامی عوام اور سیاست دانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ آج حالات پوری طرح بدل چکے ہیں، عوام کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے، ان کے خیالات میں تبدیلی آچکی ہے۔ چنانچہ آج خود سیاست دان‘ عوام اور تمام فرقے، یہ سوچنے لگے ہیں کہ اب انہیں ان مسلکی اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا اور متحدہ طاقت کے بل بوتے پر موجودہ حکومت کوبے دخل کرنے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسی میں ساری قوم کا مفاد پوشیدہ ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023