اداریہ

مہاراشٹر میں “لوک شاہی” پر عتاب ناکام

حالیہ دنوں دنیا بھر میں حکومتوں اور میڈیا کے رشتوں پر کافی مباحثے ہوئے ہیں۔یوں تو دنیا کے بیشتر ممالک میں میڈیاکا کردار شک وشبہ کے دائرے میں آچکا ہے لیکن اس معاملے میں ہمارے ملک کی صورت حال نہایت ہی تشویشناک ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب عوام اور میڈیا دونوں کے ذہنوں سے یہ بات بڑی حد تک محو ہوگئی ہے کہ ایک جمہوری سماج میں میڈیا محافظ کا کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا کے بیشتر ادارے، چند ایک کو چھوڑ کر، حکومت اور حکمراں جماعت کے ترجمان اور اس کے شعبہ تشہیرعامہ کی طرح کام کرنے لگے ہیں اور ان پر ایسے ہی پروگرام ومباحث ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں جن کافائدہ راست یا بالواسطہ طور پر حکومت اور حکمراں جماعت کو پہنچتا ہے۔ ان میں ہندومسلم منافرت کا فروغ سب سے اہم موضوع ہوتا ہے، اس کے علاوہ حکومت کے ہر اقدام کی بجا و بے جا تائید اور و کالت ان ادارں کا شیوہ بن چکا ہے۔اسی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد انڈیا الائنس نے اپنے ایک پریس نوٹ کے ذریعے یہ اعلان کیا کہ نو نیوز چینلوں کے 14 اینکروں کے پروگراموں میں انڈیا الائنس میں شامل پارٹیوں کا کوئی بھی رہنما شریک نہیں ہوگا۔ ان اینکروں کے بائیکاٹ کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ ان کے مباحث کی وجہ سے ملک کے مختلف طبقات کے درمیان فرقہ ورانہ منافرت بھڑکائی جاتی ہے اور ملک کا ماحول ایک مخصوص جماعت کے لیے سازگار بنایا جاتا ہے۔ اخلاقی لحاظ سے بائیکاٹ کا یہ فیصلہ درست ہے یا نہیں اس پر ماہرین کی الگ الگ رائے ہے لیکن یہ بات صدفیصد درست ہے کہ ان اینکروں اور ان کے نیوز چینلوں نے پچھلے دس بارہ برسوں کے دوران انسانوں کے درمیان منافرت کو بڑھانے میں نہایت ہی گھناونا کردار ادا کیا ہے اور ملک میں بسنے والے طبقات کے درمیان ایسی خلیج پیدا کردی ہے جس کو پاٹنے کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوگی۔
اس کے برعکس ذرائع ابلاغ کے جو ادارے حکومت پر تنقید کرتے ہیں ، حکومت کی غلطیوں کو عوام کے سامنے واشگاف کرتے ہیں اور حقائق کوسامنے لاتے ہیں حکومت مختلف طریقوں سے ان کا دائرہ تنگ کرتی جاتی ہے۔بی جے پی نے اسی وجہ سے برسوں تک این ڈی ٹی وی کے ایک مخصوص اینکر کے پروگرام میں اپنے سرکاری ترجمان بھیجنے بند کردیے تھے۔چینل کے دفاتر پر ای ڈی کے چھاپے مارے گئے، پروگرام کے دوران اس کی نشریات کو زیادہ ناظرین تک پہنچنے سے روکنے کی سازش کی گئی۔ اور ہر طرح سے اس کو گھیرنے کی کوشش کی گئی۔کیرالا میں ملیالم زبان کے نیوز چینل میڈیا ون کے ساتھ بھی یہی رویہ رہا اور ایک مرحلے میں حکومت نےاس چینل کی تجدید نامنظور کرکے نشریات کو روک دیا تھا۔ ایک طویل عدالتی لڑائی کے بعد میڈیا ون چینل کی نشریات بحال ہوئیں۔ حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا چینلوں کے ساتھ حکومت کا یہ طرز عمل اب بھی جاری ہے۔ گزشتہ دنوں وزارت اطلاعات و نشریات نے مہاراشٹرا کے ایک مراٹھی نیوز چینل لوک شاہی کی نشریات پر تین دنوں کے لیے پابندی عائد کردی تھی۔ چینل پر الزام ہے کہ اس نے ایک ناشائشتہ ویڈیو سے متعلق تحقیقی رپورٹ نشر کی تھی جس میں بی جے پی لیڈر کیریٹ سومیا کو ملوث بتایا گیا تھا۔اس سے قبل ممبئی پولیس نے چینل کے چیف ایڈیٹر کملیش سوتار اور ایک یوٹیوبر کے خلاف اسی ویڈیو کو نشرکرنے کے سبب ایف آئی آر درج کی تھی۔ دہلی ہائی کورٹ نے وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے عائد کردہ اس پابندی پر روک لگادی ہے، اب وہ پھر اپنے پروگرام اور خبریں نشر کرنے لگا ہے۔
بی جے پی مہاراشٹر کے اس قد آور لیڈر سومیا کو گجراتی حلقوں میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے جو آئے دن اول فول بلکہ اکثر بے سر پیر کے الزامات عاید کر کے پریس کے سامنے آر ایس ایس اور بی جے پی مخالف افراد کو بدنام کرنے کے لئے مشہور ہے۔ انھیں کی ایک فحش ویڈیو منظر عام پر آگئی۔ لوک شاہی چینل نے اس واقعے کو تمام تر اخلاقی حدود اور پیشہ ورانہ پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نشر کیا۔ جہاں دیگر بکاؤ میڈیا “اپنوں” کے کالے کرتوت کی پردہ پوشی کرنا چاہتا ہے وہاں اس چینل کے ذریعےاس کو ایک “خبر” کی شکل میں عوام کے سامنے پیش کرنا بھی اقتدار کو گوارا نہ ہوا۔ اور وہ عتاب کا شکار ہوا۔ بھلا ہوا جو ایک ہی دن کے اندر ہائی کورٹ نے میڈیا اور انصاف دونوں کی لاج رکھ لی۔ واضح ہو کہ لوک شاہی مراٹھی افق پر ایک نیا، بے باک اور پیشہ ور میڈیا بن کر ابھر رہا ہے۔
مہاراشٹر کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے مرکزی حکومت کے اس طرز عمل پر شدید تنقید کی ہے اور اسے غیر معلنہ ایمرجنسی سے تعبیر کیا ہےجس میں میڈیا و صحافت کو صرف اسی وقت بولنے کی اجازت دی جارہی ہے جب وہ حکومت کی تائید کریں ، اس کی خامیوں اور کمیوں پر اپنا منہ بند رکھیں اور اس کے غلط و صحیح ہرقسم کے اقدامات کی توجیہہ کرتے رہیں۔اور اپنے پروگراموں کے ذریعے ایسا ماحول تیار کریں کہ حکم راں جماعت کے لیے انتخابات میں کامیابی آسان ہوجائے۔کیوں کہ حکم راں طبقے کا اصل مقصد تو یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح آنے والے انتخابات میں اپنے اقتدار کو برقرار رکھ سکیں۔
لیکن ان پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے وہ کچھ عرصے تک تو اپنے اقتدار کو بچاسکتے ہیں لیکن جب ان کے فریب کا پردہ چاک ہوتا ہے تو یہ ساری کوششیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور جس اقتدار کے بل پر وہ عوام، میڈیا اور مختلف اداروں کو اپنے اشاروں پر چلارہے ہیں وہی اقتدار منہ کے بل گرجاتا ہے۔