شاہین باغ تحریک : سی اے اے کے خلاف احتجاج کا ایک ’لینڈ مارک‘
افروز عالم ساحل
ہڈیوں تک کو گلا دنیے والی ٹھنڈ اور بارش میں جب نبض تک جمنے لگتی ہے، ایسے میں بھی اگر حوصلے گرم اور زندہ باد رہتے ہیں تو کہا جا سکتا ہے ابھی ہندوستان میں کافی دم خم باقی ہے۔ ان ہی بلند حوصلوں کی بدولت شاہین باغ اب دارالحکومت دہلی کے جامعہ نگر سے باہر نکل کر پورے ہندوستان سمیت ساری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ شاہین باغ کی خواتین کی یہ تحریک ایک انقلاب علامت کی طرح بن گئی ہے، جس کی اب پورے ملک میں نقل کی جارہی ہے۔
بہار کے نوادہ ضلع سے شاہین باغ آئے عامر مصطفیٰ کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ شاہین باغ نے پورے ہندوستان کے اندر ایک الگ کہرام مچادیا ہے۔ ملک کے تمام افراد کو ایک طاقت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے کونے کونے سے لوگ یہاں آرہے ہیں، سیکھ رہے ہیں اور واپس جاکر اپنے علاقوں میں اسی شاہین باغ کی نقل پیش کر رہے ہیں۔ عامر کا ارادہ بھی یہاں آکر سیکھنا ہی ہے۔ وہ یہاں تین دنوں کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ اور ان کا بھی مقصد واپس جاکر اپنے علاقے کو شاہین باغ بنانا ہے۔
اس مظاہرے میں جادھوپور یونیورسٹی سے آئے ہوئے پون شکلا کہتے ہیں، ’’میں اس احتجاج کو ایک آغازکے طورپر دیکھتا ہوں۔ جس طرح سے ہمارے ملک کے وزیراعظم اور اقتدار میں بیٹھے سیاسی نمائندوں نے اپنے خاص آڈیئنس بنالئے ہیں۔ اب وہ جو بھی باتیں کہتے ہیں اپنے اس خاص آڈیئنس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ایسے میں شاہین باغ ایک بہت ہی مضبوط آواز ہے، ان لوگوں کیلئے جنہیں ہماری حکومت نظرانداز کردینا چاہتی ہے۔‘‘
شہریت ترمیمی قانون پر پون شکلا کی رائے یہ ہے کہ ابھی ملک میں جس طرح کا قانون نافذ کیا جارہا ہے، اس کے پس پشت جو بھی حکمت عملی ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ میری سمجھ میں یہ ’سٹیزن شپ گھوٹالا‘ ہے۔ اس میں جو اوپر سے دکھ رہا ہے، اندر ویسا ہی نہیں اور اس اندر کے بارے میں ہماری حکومت چرچا نہیں کررہی ہے۔ بتانہیں رہی ہے۔ سوال پوچھنے پر حکومت ان سوالوں کو ایڈریس بھی نہیں کررہی ہے۔ یہ قانون سماج کو تقسیم کرنے والا ہے۔
پون شکلا بنیادی طورپر فنکار ہیں اور ان دنوں جادھوپور یونیورسٹی سے کمپریٹیو لیٹریچر میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ ایک مہینے سے وہ مسلسل شاہین باغ میں ہیں۔ وہ یہاں کچھ فنکاروں کے ذریعے لوہے سے بنائے گئے ۳۵ فٹ بلند ترین بھارت کے ایک نقشے کی تخلیق کی نگرانی کر رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’ہماری کوشش ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان جو ثقافتی خلاء پایا جاتا ہے، اسے فن کے ذریعے پُر کیا جائے۔‘‘
بتا دیں کہ پوری دنیا میں مشہور ہوچکے شاہین باغ میں گزشتہ ایک مہینے سے زیادہ دنوں سے عورتیں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کررہی ہیں اور دہلی پولیس، نیز بی جے پی لیڈروں کی تمام دھمکیوں اور سردی تو کبھی بارش کے باوجود ڈٹی ہوئی ہیں۔ ان کے اس احتجاج کی وجہ سے ملک کی راجدھانی دہلی، ہریانہ کے شہر فریدآباد اور اترپردیش کے نوئیڈا شہر کو جوڑنے والی یہ سڑک پوری طرح بند ہے۔
شاہین باغ میں رہنے والے عارف ندوی اس احتجاج کو ایک انقلابی قدم بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، اب تک عموماً ایک رائے رہی ہے کہ مسلم گھروں کی عورتیں گھروں سے باہر نہیں نکلتیں اور ان کے اندر ایکٹیوزم نہیں ہوتا ہے، لیکن شاہین باغ میں یہ الٹا ثابت ہورہاہے۔ یہ ایک انقلابی قدم ہے۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون چونکہ کسی ایک خاص طبقے کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ اس ملک کے آئین کے لئے ایک مسئلہ ہے، اسلئے وہ تمام لوگ یہاں احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں، جنہیں اس ملک سے اور اس ملک کے آئین سے محبت ہے۔
جامعہ کے طالب علم عمراشرف بھی کہتے ہیں کہ عام طور پر میڈیا نے ہندوستانی مسلم خواتین کے بارے میں یہ تصویر بنا رکھی تھی کہ انہیں اپنے گھروں میں آزادی نہیں ہے، انہیں پڑھنے نہیں دیا جاتا، لیکن جس طرح سے پورے ہندوستان میں خواتین سی اے اے جیسے کالے قانون کے خلاف احتجاج میں سڑکوں پر آئی ہیں اس سے یقیناًاس بے تکے پروپیگنڈے کو مناسب جواب مل گیا ہوگا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ شاہین باغ کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں اس احتجاج میں انگریزی بولنے والی عورتیں شامل ہیں، وہیں کم پڑھی گھریلو خواتین بھی کندھے سے کاندھا ملا کر کھڑی ہیں۔ ہماری شاہین باغ کی دادیوں و نانیوں نے بھی ثابت کیا کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ این ڈی ٹی وی کے ذریعے اس چیز کو پوری دنیا نے بخوبی دیکھ لیا ہے۔ یہاں آپ کسی بھی عمر کی خاتون سے پوچھ لیں کہ اتنی سردی میں آپ یہاں کیوں آئی ہیں تو جواب ہوگا کہ ملک اور آئین کو بچانے کے لئے آئی ہیں۔ عمراشرف دن میں جامعہ میں ہوتے ہیں اور ان کا رات کا وقت اس شاہین باغ کیلئے ہے۔
ملک کی باغی آگ یعنی شاہین باغ کے اس احتجاج کی خاص بات یہ ہے کہ اس احتجاج میں نوزائیدہ بچوں سے لے کر 80-85 سال کی دادیاں و نانیاں بھی شامل ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ 10 سالہ نور جہاں کو یہاں آنا پسند ہے۔ وہ کہتی ہے کہ یہاں آکر بہت اچھا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی بات کو سمجھتی بھی ہوں اور پسند بھی کرتی ہوں۔
28 سالہ شبنم کی کچھ دنوں پہلے ہی شادی ہوئی ہے۔ یہ پوچھنے پر کہ آپ کے شوہر اور سسرال والوں کو آپ کے یہاں آنے سے کوئی اعتراض نہیں ہے؟ اس پر وہ کہتی ہیں کہ سسرال والوں نے ہی کہا کہ اب وقت احتجاج میں رہنے کا ہی ہے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہماری لڑائی ہمارے وجود کی لڑائی ہے۔ یہ ملک کے ہر فرد کی لڑائی ہے۔ اس لڑائی میں میرے گھر والے بھی ساتھ ہیں۔
شہریت ترمیمی قانون سے آپکو پرابلم کیا ہے؟ جواب میں وہ کہتی ہیں کہ یہ قانون ہمارے آئین کے خلاف ہے اور اس قانون اکیلے نہیں بلکہ این آر سی سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فساد کرانا چاہتی ہے اور ان کے سازش کاروں کے ذریعے کہیں کہیں فسادات ہو بھی رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان کی بے رحمی سے پیٹا جا رہا ہے۔ اب ہم ایسا نہیں ہونےدیں گے۔
شاہین باغ کی ان باغی عورتوں نے پورے ملک کے خواتین کو جگا دیا ہے۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج میں ہر شہر میں خواتین بھاری تعداد میں باہر نکل رہی ہیں۔ اگر صرف شاہین باغ کی بات کی جائےتو یہاں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ لڑکیاں پوری رات گھوم رہی ہیں۔ منچ کا پورا کنٹرول لڑکیوں ہاتھ میں ہے۔ اس سے ان کی لیڈرشپ کی کوالیٹی کھل کر لوگوں کے سامنے آرہی ہے۔ فی الحال ایسا وومن امپاورمنٹ کسی اور کمیونٹی میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے امپاورمنٹ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب شروع میں کچھ لوگوں نے اس احتجاج کو ختم کرنے کی نیت سے کہا کہ عورتوں و لڑکیوں کو پوری رات سڑک پر رہنا درست نہیں ہے۔ تب یہی عورتیں و لڑکیاں ان کو اس بات سے روبرو کرایا اور ان سے سوال کیا کہ جب پیغمبر حضرت محمدﷺ کے زمانے میں اسلامی جنگیں ہوا کرتی تھی تب کیا کیمپوں میں عورتیں نہیں ہوا کرتی تھیں؟ سچ پوچھے تو شاہین باغ کی ان عورتوں نے ملک کے مردوں کو ایک راستہ دکھایا ہے۔
سوربھ واجپئی بتاتے ہیں کہ آزاد بھارت میں یہ اپنے طریقے کا سب سے انوکھا آندولن ہے۔ ہندوتوا آئیدیولوجی کے لوگوں کو لگا تھا مسلمان اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد ردّ عمل میں ہوگا اور اس ردّ عمل میں سڑکوں پر اتر کر آئے گا، لیکن ان کی یہ منشا پوری طرح فیل کر گئی۔
وہ آگے کہتے ہیں، ہر آندولن کا اپنا ایک ماڈل ہوتا ہے، شاہین نے ملک کو ایک اچھا قابل تقلید ماڈل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس بار بہت ہی پراعتماد ہوکر آیا ہے اور اس کا یہ پراعتماد اس کے نیشنلزم کے اعتماد کے ساتھ ہے۔ اور ہاں! آزادی کے ان 70 برسوں میں مسلمان کبھی بھی اتنے اعتماد کے ساتھ خود ایک ادارہ بن کر سڑکوں پر کبھی نہیں اترا تھا لیکن اس قانون کے خلاف پہلی بار اترا ہے۔ شاہین باغ سی اے اے کے خلاف احتجاج کا ایک ’ لینڈ مارک‘ ہے۔
اس مظاہرے میں سوربھ واجپئی کئی دنوں سے آرہے ہیں۔ وہ دہلی یونیورسٹی میں تاریخ پڑھاتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے اپنی 75 سالہ والدہ پشپا واجپئی، بڑی بہن نویدتا اور خاندان کے دیگر افراد کو لے کر آئے تھے۔ تب پشپا واجپئی یہاں کسی سیلیبریٹی سے کم نہیں تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ہم سب تکلیف میں ہمیشہ اکٹھے کھڑے ہوئے ہیں اور اس بار بھی ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ ہم سب بھلے ہی مختلف مذاہب سے ہوسکتے ہیں، لیکن ایک ساتھ رہنے میں مسئلہ کسے ہے؟ وہ کہتی ہیں کہ وہ شاہین باغ اسلئے آئی ہیں کیونکہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انھیں بہت تکلیف پہنچا رہا ہے، جس طرح بچوں کو پیٹا جارہا ہے وہ دیکھا نہیں جاتا۔ یہ کہتے ہی ان کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔
ساتھ میں ان کی بیٹی نویدیتا بھی ہیں۔ انہوں نے تفصیلی گفتگو میں بتایا کہ اس معاشرے کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا، انہیں یہاں آنے پر اتنا پیار ملے گا، یہ انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ "جب ہم اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں تو یہ نہیں سکھاتے کہ صرف ہندوؤں سے دوستی کرنا، مسلمانوں سے نہیں۔ لیکن ہمارے ملک کا ماحول ایسا بن گیا ہے کہ ہمارے بچے کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے ہمیں مذہب کی بنیاد پر ہمیں تقسیم کرنے والوں کی ہرحال میں مخالفت ہونی چاہئے۔“
یہ لڑائی نہ تو آسان ہے، نہ چھوٹی ہے۔ اس کا انجام کیا ہوگا، یہ بھی نہیں معلوم۔ شاید اسی لئے ان عورتوں کا جدوجہد میری نظر میں اور بھی بڑی ہوجاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس جدوجہد کی یہ چنگاری اس ملک کے ہر انصاف پسند شخص کے ذہن میں سرکاری نا انصافیوں کے خلاف جدوجہد کا جذبہ پیش کرے گی۔ جب بھی کبھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اٹھی آوازوں کا ذکر آئے گا، شاہین باغ کی عورتیں بڑے ہی احترام اور عقیدت کے ساتھ یاد کی جائنگی۔ جب بھی کبھی حکومت کے خلاف باغی آواز کی چرچہ ہوگی، تاریخ شاہین باغ کو چھوڑ کر آگے نہیں بڑھ پائے گا۔