شاہ فیصل ؒبن عبدالعزیز :بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
عالم اسلام کی روح شاہ فیصل ؒ ؒبن عبدالعزیزکا یوم شہادت آج
ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
25 مارچ سن 1975کو مجھے عطاء الرحمان وجدی صاحب نے بتایا کہ آج عالم اسلام کی روح اس کے جسم خاکی سے پرواز کرگئی ہے۔یہ خبر بتاتے ہوئے وجدی صاحب پررقت کی کیفیت طاری تھی،حادثہ بھی اتنا بڑا تھا،وہ شخص جو عالم اسلام کے ہر درد مند دل میں سمایا ہوا تھا،جو ہر مسلمان کی امید تھا،آج وہ رخصت ہوگیا تھا۔
مولانا عطاء الرحمان وجدی صاحب نے کہا کہ شاہ فیصل ؒ پر ایک تعزیتی جلسہ کرنا ہے اور تمہیں عربی زبان میں ایک تعزیتی قرارداد تیار کرکے اسے تعزیتی اجلاس میں پڑھ کر سنانا ہے۔چنانچہ سہارن پور میں چوکی سرائے کے چوراہے پر ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا گیا۔میں نے عربی میں جو تعزیت نامہ تیار کیا تھا،اس کے متعلق وجدی صاحب نے کہا کہ مدرسہ مظاہر العلوم چلے جائیے اور عربی ادب کے استاذ کو بغرض اصلاح دکھالیجیے۔میں ان کے حکم پر مدرسہ گیا۔وہاں عربی ادب کے استاذ سے ملا۔انھوں نے دیکھ کر کہا کہ آپ نے بہت جامع تعزیت نامہ تیار کیا ہے،اس میں کسی حذف و اضافہ کی ضرورت نہیں ہے۔تعزیتی اجلاس میں شہر کی کئی سربرآوردہ شخصیات نے شاہ فیصل ؒ کی حیات و خدمات پر اظہار خیال کیا۔آخیر میں مجھے تعزیتی قرارداد پیش کرنے کا موقع ملا۔
میں جب ندوہ میں پڑھتا تھا تبھی سے شاہ فیصل ؒ بن عبدالعزیز کی شخصیت اور ان کے کارناموں اور اسلام کی سربلندی کے لیے ان کے جذبہ دروں کے واقعات سنتا رہتا تھا،ایک دفعہ تقریر کے دوران حضرت مولانا علی میاں ؒ نے بتایا کہ جب میں ان سے ملنے گیا تو ان کے شاہی دربار کو دیر تک ادھر ادھر دیکھتا رہا۔شاہ فیصل ؒ نے پوچھا شیخ کیا دیکھ رہے ہیں؟پھر میں نے ان کے سامنے بعض مسلم بادشاہوں کی سادگی کا نقشہ کھینچا تو شاہ فیصل ؒ دیر تک روتے رہے۔مولانا علی میاں نے یہ بھی بتایا کہ ایک بار شاہ فیصل ؒ نے مجھے اپنا ذاتی سیکریٹری بنانے کی پیش کش کی تھی اور کہا تھا کہ:۔”آپ میرے پاس یہاں رہیے اور ہماری رہنمائی کیجیے۔“مولانا نے بتایا کہ میں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ:۔”میں اپنے ملک میں رہ کر ملک وملت کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔آپ کو میرے مشوروں کی جس وقت ضرورت محسوس ہو بلالیجیے گا۔“
ہم عہد طفولیت سے عہد شباب میں داخل ہورہے تھے جب شاہ فیصل ؒ 1964میں مسند اقتدار پر فائز ہوئے،انھوں نے جس تیز رفتاری اور حکمت عملی کے ساتھ تمام مسلم ملکوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی کوشش کی اور اسلامی خطوط پر نظام حکومت کی استواری کے لیے جدو جہد کی وہ خود میں ایک مثال ہے۔انھوں نے جب امریکی غلبہ و استیلاء سے اپنی مملکت کو آزاد کرانے کی پالیسی اختیار کی تو اس وقت کا امریکی وزیر خارجہ کسنجر سعودی عرب آیا تا کہ شاہ فیصل ؒ کو امریکی اقتدار واثرات سے مرعوب کرسکے۔تیل کی نئی نئی دریافت ہوئی تھی اور امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک کی نظر سعودی تیل کے ذخائر پر تھی۔اس وقت شاہ فیصل ؒ نے نہایت حکمت و تدبر کے ساتھ کسنجر سے کہا تھا:۔”ہم کسی کی غلامی قبول نہیں کریں گے،اپنی حفاظت کے لیے ضرورت پڑی تو تیل کے کنووں کو آگ کے حوالے کردیں گے۔ہم کل بھی کھجور اور دودھ پر گذارا کرتے تھے اور آج بھی کرلیں گے۔“ان کے یہ الفاظ جس جرات آمیز لہجے میں کہے گئے تھے اس سے امریکہ سمجھ گیا تھا کہ سعودی عرب کو غلام نہیں بنایا جاسکتا۔چنانچہ امریکہ نے سعودی عرب کو ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے قبول کیا اور باقی رکھنے کا وعدہ کیا۔
شاہ فیصل ؒ اپریل 1905ء میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام عبدالعزیز اور والدہ کا نام طرفہ تھا۔ 1920ء میں انہیں حجاز کا گورنر مقرر کیا گیا۔1953ء میں جب ان کے بڑے بھائی سعود بن عبدالعزیز بادشاہ ہو گئے تو فیصل ولی عہد قرار دیے گئے۔ ایک سال بعد وہ مجلسِ وزراء کے صدر یعنی وزیراعظم ہو گئے۔ شاہ سعود کے دور میں وہ بدستور حجاز کے گورنر اور وزیر خارجہ رہے۔
شاہ فیصل ؒ کوبچپن ہی سے لوگ اسلام پسند شخصیت کی حیثیت سے جانتے تھے۔ ولی عہد بننے کے بعد آپ نے دیکھا کہ ملک کا خزانہ دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا ہے اور اقتصاد بھی کمزور ہو گئی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی ریال امریکی ڈالر کے مقابلے میں نیچے گرگیا۔اس بات کو لے کر آپ کی اس وقت کے شاہ(جو آپ کے بھائی تھے) سے اختلافات پیدا ہوگئے۔یہ اختلافات دن بدن بڑھتے گئے۔آپ نے سمجھ لیا کہ جب تک شاہ سعود فرمانروا ہیں کچھ نہیں ہوسکتا چنانچہ جب شاہ سعود علاج کے لیے ملک سے باہر گئے تو آپ نے ایک نئی کابینہ کا اعلان کر دیا۔جب شاہ سعود کو اس بات کا علم ہواتو انہوں نے کہا کہ فیصل تو ولی عہد ہیں ان کی کیا حیثیت ہے کہ بادشاہ کے ہوتے ہوئے نئی کابینہ بنا رہے ہیں،اس لیے میں (شاہ سعود) سعودی فوج کو حکم دے رہاہوں کہ وہ فیصل کے خلاف کارروائی کریں۔ اس کے رد عمل میں شاہ فیصل ؒ نے کہاں کہ چونکہ میں ولی عہد ہوں اس لیے سعودی نیشنل گارڈ میرے ماتحت ہے۔ آپ نے شاہ سعود کو ملک واپس نہیں ہونے دیااور جلا وطن کرکے خود سعودی عرب کے فرماں رواں بن گئے۔ شاہ سعود نے اپنی جلا وطنی کی مخالفت کی،باہر رہ کر ملک کی سالمیت کے خلاف بیانات دیے،جس کے نتیجہ میں شاہ فیصل ؒ نے ان کی سعودی شہریت چھین لی۔
شاہ فیصل ؒ نے بادشاہ بننے کے بعد ہر سطح پر اصلاحات کیں۔سب سے پہلا کام انھوں نے یہ کیا کہ وزارت میں شاہی خاندان سے زیادہ عوام کے درمیان سے وزیر لیے گئے۔حکومت کے اخراجات پر لگام لگائی،شاہی محلات کو تعلیمی و رفاہی اداروں کے سپرد کر دیا گیا۔ملک کا زیادہ پیسہ اس کی تعمیر و ترقی پر صرف کیا۔اپنے گیارہ سالہ دور میں ترقی کے کام اس کثرت سے اور تیزی سے انجام دیے گئے کہ سعودی عرب دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی فہرست سے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گیا۔
آپ کے زمانے میں شہروں اور بندرگاہوں کو جدید طرز پر توسیع دی گئی، ہوائی اڈے تعمیر کیے گئے، ملک بھر میں سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا،حرم میں توسیع کی گئی اور حاجیوں کو مختلف سہولیات فراہم کی گئیں۔ مکہ معظمہ، جدہ اور ریاض میں نئی جامعات اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کیے گئے۔پانی کی فراہمی کے لیے زیرِ زمین نئے ذخائر دریافت کیے گئے اور برساتی پانی روک کر ندی نالوں پر جگہ جگہ بند تعمیر کیے گئے۔آپ کی کوششوں سے ہی صنعتوں کو ترقی دی گئی اور 1967ء میں فولاد سازی کا پہلا کارخانہ قائم ہوا۔
عرب دنیا میں ان کا دور ”رحلات الخیر” یعنی بھلائی کے سفر کے نام سے مشہور ہے۔ ان دوروں میں شاہ فیصل ؒ نے یہ حقیقت سمجھانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی نجات صرف اسلام سے وابستہ ہے اور ان کی بھلائی اسلامی اتحاد سے وابستہ ہے۔ وہ کسی بلاک سے خواہ وہ مشرق کا ہو یا مغرب کا، سرمایہ دار ہو یا اشتراکی امید وابستہ نہ کریں۔ ان بلاکوں کی امداد اخلاص پر نہیں اغرض پر مبنی ہوتی ہے۔ اخلاص صرف اسلامی دنیا میں ملے گا۔
اسی کے ساتھ شاہ فیصل ؒ نے خارجی معاملات میں بڑی دانشمندانہ اور معتدل پالیسی اختیار کی۔ انہوں نے عرب ممالک پر زور دیا کہ مسلمانوں کی بھلائی آپس میں لڑنے میں نہیں بلکہ اتحاد میں ہے۔اپنی خارجہ پالیسی کے تحت شاہ فیصل ؒ نے صرف اسلامی اور مسلم ممالک کی ہی کی مدد نہیں کی بلکہ انہوں نے سوڈان اور صومالیہ کو بھی اشتراکی چنگل میں جانے سے بچایا اور ان ممالک کو ہر ممکن امداد فراہم کی۔ سعودی عرب نے افریقہ کے غیر مسلم ممالک میں تحریک آزادی کی حمایت کی اور ان کو بھی اتنے وسیع پیمانے پر امداد فراہم کی کہ افریقہ میں اسرائیل کا اثر زائل ہونے لگا اور اکتوبر 1973ء میں مصر اور اسرائیل کی جنگ کے دوران جب عرب ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں امریکا اور مغربی ممالک کو تیل دینا بند کر دیا تو افریقہ کے غیر مسلم ممالک نے بھی عربوں کی تائید کی۔
1962ء میں رابط عالم اسلامی کی بنیاد ڈالی گئی جو مسلمانوں کی پہلی حقیقی بین الاقوامی تنظیم ہے۔ اس کے اصل روح رواں شاہ فیصل ؒ تھے جو اس وقت وزیر خارجہ تھے۔ اتحاد اسلامی کے لیے انہوں نے اسلامی ممالک کا دورہ شروع کر دیا۔ سب سے پہلے ایران گئے،اس لیے کہ سعودی عرب کے ایران سے اختلافات سب سے زیادہ تھے۔ اس کے بعد بالترتیب اردن، سوڈان، پاکستان، ترکی، مراکش، گنی، مالی اور تیونس کا دورہ کیا۔ ان دوروں میں آپ نے نہ صرف اپنے ملک کے دوطرفہ مسائل حل کیے بلکہ بعض دیگر ممالک کے درمیان صلح جوئی کے اقدامات بھی کیے۔
عرب دنیا میں ان کا دور ”رحلات الخیر” یعنی بھلائی کے سفر کے نام سے مشہور ہے۔ ان دوروں میں شاہ فیصل ؒ نے یہ حقیقت سمجھانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی نجات صرف اسلام سے وابستہ ہے اور ان کی بھلائی اسلامی اتحاد سے وابستہ ہے۔ وہ کسی بلاک سے خواہ وہ مشرق کا ہو یا مغرب کا، سرمایہ دار ہو یا اشتراکی امید وابستہ نہ کریں۔ ان بلاکوں کی امداد اخلاص پر نہیں اغرض پر مبنی ہوتی ہے۔ اخلاص صرف اسلامی دنیا میں ملے گا۔
جون 1967ء میں اسرائیل کے مقابلے میں عربوں کی شکست اور اگست 1969ء میں مسجد اقصیٰ میں آتش زنی کے واقعے کے بعد عرب اور اسلامی ممالک کو شاہ فیصل ؒ کے موقف کی صداقت کا یقین ہو گیا اور تمام اسلامی ملک ایک تنظیم کے تحت متحد ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ 22 تا 25 ستمبر 1969ء رباط (مراکش) میں دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمان سربراہان کی کانفرنس ہوئی جس کا مستقل دفتر بعد میں جدہ میں قائم کیا گیا۔تب سے اسلامی ممالک کے سرباراہان کا اجلاس پابندی سے منعقد کیا جارہا ہے۔
عالم اسلام کا بطل جلیل،اسلامی اتحاد کا داعی،مظلوم فلسطین کا حامی مغربی ممالک کو بھلا کیوں کرگوارا ہوتا۔اس لیے مغربی ممالک نے سازش کرکے 25مارچ1975کو شاہی دربار میں ان کے بھتیجے ہی کے ہاتھوں شہید کرادیا۔اللہ ان کی روح کو سکون عطا کرے۔ان کے بعد آج تک تاریخ ان جیسے حکمراں کی راہ دیکھ رہی ہے۔اللہ تعالیٰ ملت اسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔