شفاف توانائی کی راہ پر بڑھتے قدم

عالمی توانائی کی پیداوار میں بادیہ اور شمسی توانائی کی حصہ داری 2030ء تک 41 فیصد ہونے کی توقع

ابو محمد ، کولکاتا

کورونا وبا سے عالمی معیشت میں سستی آئی ہے اس کے بعد ہر سطح پر توانائی کی طلب اور سپلائی بڑھی ہے۔ اس وجہ سے حیاتیاتی (Fossil) توانائی کی پیداوار اور اس کی کھپت میں اچھال دیکھنے کو مل رہا ہے، مگر سبز توانائی کی پیداوار میں اضافہ سے خاطر خواہ کمی بھی ہو سکتی ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے کرہ ارض کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لیے مسلسل مہم چل رہی ہے اور اسی نسبت سے سبز توانائی اور شفاف توانائی پر باتیں بھی ہوتی ہیں۔ یعنی توانائی ایسے ذرائع سے حاصل کی جائے کہ جن سے کرہ ارض کی درجہ حرارت کو بڑھانے والی گرین ہاوس گیسوں کا اخراج نہ ہو جیسا کہ پٹرول، ڈیزل یا کوئلے کا استعمال کرنے سے ہوتا ہے۔ توانائی کے جن متبادل ذرائع کے تذکرے ہو رہے ہیں ان میں برقی توانائی ، بادیہ توانائی اور شمسی توانائی اہم ہیں۔ مگر ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت جس طرح بڑھتا جا رہا ہے وہ دنیا کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس سے موسمیاتی تبدیلی بھی بڑی تیزی سے واقع ہو رہی ہے اور قدرتی آفات کا سلسلہ دنیا کے ہر حصے میں اپنے پاوں پسار رہا ہے۔ کہیں سیلاب تو کہیں قحط، تو کہیں طوفان و برق و باراں کا سامنا رہتا ہے۔ سمندری طوفان تھوڑے تھوڑے وقفے سے دنیا کے مختلف حصوں کی آبادیوں میں تباہی لارہا ہے۔ اسے قابو میں کرنے کے لیے کاربن اور گرین ہاوس گیسوں کی پیداوار کو کم کرنے کی عالمی کوششیں ہورہی ہیں جس میں بادیہ اور شمسی تونائی کی پیداوار کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ گزشتہ سال عالمی سطح پر کل توانائی کی پیداوار میں شمسی اور بادیہ توانائی کا حصہ بارہ فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ آب و ہوا اور توانائی کے شعبہ میں فعال ایک آزاد ادارہ ایمبر (EMBER) کی رپورٹ کے مطابق جو ایسے 78 ممالک کے اعداد و شمار پر تیار کی گئی ہے جن کا توانائی کی طلب میں حصہ 93 فیصد ہے، اگر شفاف توانائی کے سبھی ذرائع اور جوہری توانائی کا حاصل جمع کل توانائی کے پیداوار میں غیر حیاتیاتی ذرائع سے حاصل شدہ توانائی کا 39 فیصد ہوجائے تو یقیناً یہ ایک بڑی حصول یابی ہے۔ مگر حیاتیاتی توانائی سے ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 2022ء میں بھی اپنی بلندی پر پہنچ گیا ہے۔ یاد رہے کہ کورونا وبا سے عالمی معیشت میں سستی آئی ہے اس کے بعد ہر سطح پر توانائی کی طلب اور سپلائی بڑھی ہے۔ اس وجہ سے حیاتیاتی (Fossil) توانائی کی پیداوار اور اس کی کھپت میں اچھال دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مگر سبز توانائی کی پیداوار میں اضافہ سے خاطر خواہ کمی بھی ہو سکتی ہے۔ ایک مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ فوسیل فیول کی پیداوار میں 0.3 فیصد کی کمی آئے گی۔ یہ گراوٹ آئندہ دنوں میں مزید بڑھنے کی امید ہے۔ ایسا بھی مانا جارہا ہے عالمی توانائی کی پیداوار میں بادیہ اور شمسی توانائی کی حصہ داری 2030ء تک 41 فیصد تک ہوجائے گی۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کا ماننا ہے کہ توانائی شعبہ وہ پہلا شعبہ ہونا چاہے جہاں 2040ء تک کاربن اخراج کو صفر کی سطح پر لایا جاسکے۔ بھارت میں امسال فروری تک شفاف توانائی کی صلاحیت 168.96 گیگا واٹ تک پہنچ گئی ہے جس میں شمسی توانائی کی صلاحیت 64.38 ہائیڈرو الکٹرک پلانٹ سے حاصل توانائی 51.79 بادیہ توانائی کی حصہ داری 42.02 اور حیاتیاتی توانائی کی صلاحیت 10.77 گیگا واٹ ہے۔ اس لیے گزشتہ فروری تک ملک کی کل توانائی کی پیداوار کی صلاحیت 412.12 گیگا واٹ رہی ہے۔ اس میں 168.96 گیگا واٹ سبز توانائی کا حصہ یقینی طور سے بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنی تیز رفتار ترقی کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوگی۔ اس لیے ہمیں فوسل انرجی کے زیادہ شفاف توانائی کے حصول میں زیادہ توجہ مرکوز کرنا ہوگا۔
ہمارے ملک نے شمسی توانائی کے حصول میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ گجرات کا مودھیرا ملک کا پہلا گاوں بن گیا ہے جہاں کی کل برقی ضرورت شمسی توانائی سے پوری ہوتی ہے۔ اس گاوں میں شمسی توانائی مشین کے ساتھ 13 سو سولار پینل چھتوں پر قائم کیے گئے ہیں، اس لیے ملک میں شفاف توانائی کی پیداوار کے لامتناہی امکانات ہیں۔ اس شعبہ کی ترقی کو یقینی بنانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی کی مصیبت سے نجات کے لیے شفاف توانائی کی پیداوار کو ہر قیمت پر بڑھانا ضروری ہے۔ فوسل فیول کے درآمدات پر ہونے والے اخرجات کو کم کرنے میں بھی اس سے مدد ملے گی اور خانگی توانائی معیشت میں وسعت آئے گی۔ گزشتہ سال شفاف توانائی کشش اشاریے میں بھارت تیسرے مقام پر رہا تھا۔ اس شعبہ میں مالی سال 2021-22ء میں تقریباً 14.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جو 2020-21ء کے مقابلہ میں 12.5 فیصد زیادہ ہے۔ 2030ء تک شفاف توانائی کو 450 گیگا واٹ تک لانے کا ہدف ہے مگر یہ راستہ مشکلات سے پر ہے۔ اس کے لیے برق رفتاری سے اگر چھتوں پر شمسی پینل لگائے جائیں تو شمسی توانائی کی صلاحیت کو 60 فیصد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساحل سمندر پر بادیہ توانائی کی ترقی کے لیے کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں ۔ جیسے جیسے شفاف توانائی کی صلاحیت بڑھے گی ویسے ویسے وہ سستی ہوتی جائے گی۔ حالیہ دنوں میں کوئلہ پلانٹ سے حاصل کی گئی بجلی اس سے مہنگی ہے۔ بین الاقوامی سیاست اور معیشت میں اتھل پتھل کی وجہ سے تیل اور گیسوں کے دام مسلسل بڑھے ہیں اور کوئلہ بھی مہنگا مل رہا ہے اس لیے شفاف توانائی کے حصول کو اولیت دینی ہوگی۔ اس کے علاوہ ہائیڈروجن سے توانائی پیدا کرنے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ اسے مستقبل کی توانائی بھی کہا جا رہا ہے۔ حکومت بھی اس طرف متوجہ ہوئی ہے۔ اب اس سمت میں ٹکنالوجی اور تعاون کو لے کر کام چل رہا ہے۔ ہائیڈروجن توانائی کی مشینوں کی تیاری کے لیے بھی گیگا فیکٹریاں لگائی جارہی ہیں، ان میں سب سے اہم مشینیں الکٹرو لائیزرس ہیں جن کو درآمد کرنا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی بھارت سبز توانائی اور ہائیڈروجن سے توانائی بنانا چاہتا ہے جس میں ہائیڈروجن کی تیاری اس طرح سے کی جائے گی کہ اس کے لیے جس توانائی کی ضرورت پڑتی ہے وہ بھی بادیہ توانائی یا شمسی توانائی جیسے مخارج سے پیدا کی جاسکے گی۔ اس کی ترقی میں وقت لگے گا مگر یہ اہم توانائی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس توانائی سے چھوٹی بڑی تمام سواریاں سڑکوں پر دوڑ سکیں گی۔
سب سے پہلے ہمیں بڑی معیشت بننے کے لیے درآمدات پر انحصار کم کرنا ہوگا کیونکہ شمسی توانائی میں استعمال ہونے والے سولار پینل اور سولار سیلس کے لیے فی الحال بیرونی ممالک پر ہمارا انحصار بہت زیادہ ہے۔ اسے کم کرنے کے لیے حکومت نے نجی کارپوریٹس سے بڑی بڑی گیگا فیکٹریاں لگانے کی ہدایت دی ہے۔ اس کے بعد ہی جندل، اڈانی اور امبانی جیسی بڑی کمپنیاں بڑے بڑے کارخانے بنا رہی ہیں۔ ایسے ہی مختلف ریاستوں میں بڑے سولار پارک بنانے کے منصوبے کی شروعات ہو گئی ہے کیونکہ چھوٹے منصوبوں سے پیدا کردہ بجلی مہنگی ہوگی۔ اس سے ہمارے درآمدات پر انحصار کم ہوگا بلکہ ہم برآمد کنندہ ملک بھی بن سکیں گے۔ ویسے بادیہ توانائی کے شعبہ میں بھارت کی ایک پہچان ہے جسے بنانے میں حکومت کی طرف سے بھی ہمت افزائی کی گئی ہے جس سے ملک کے مغربی اور مشرقی ساحلی علاقوں میں سمندر کے اندر آف شور ونڈ فارمس لگائے جارہے ہیں جہاں سے تیز بحری ہوائیں آتی ہیں۔ اس کے بعد غیر ملکوں کی اکثر کمپنیاں بھارت آنے کی خواہش کے ساتھ سرمایہ اور ٹکنالوجی بھی ساتھ لارہی ہیں۔ بادیہ توانائی کے شعبہ میں ہمارا ملک بڑی حد تک خود کفیل ہے کیونکہ یہاں ٹربائین بنتے بھی ہیں اور اس کا اکسپورٹ بھی ہوتا ہے۔
توانائی کے متبادل ذارئع میں جس توانائی پر سب سے زیادہ گفتگو ہو رہی ہے وہ ہے برقی گاڑی۔ کیونکہ ہمارا ملک اب برقی دوڑ میں داخل ہو رہا ہے کیونکہ پٹرول اور گیس کی جگہ اب پوری کوشش ہورہی ہے کہ ملک میں بائک، کار، بس اور ٹرک جیسی گاڑیاں اور ٹرینیں بجلی سے ہی چلیں۔ اس کے علاوہ گھر میں کھانا بنانے سے لے کر کل کارخانے تک تمام کام بجلی سے ہی ہوں تاکہ دھواں کا اخراج ختم ہو جائے۔ ہمارے ملک کی یہ بھی کوشش ہوگی کہ 2070ء تک کاربن کے اخراج کو صفر کرنے کے ہدف کو حاصل کرلیا جائے جو کہ آسان نہیں ہے۔ کیونکہ آج بھی ملک میں 65 فیصد بجلی کی پیداوار کوئلے سے ہی ہوتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دیگر شفاف توانائی کا استعمال بڑھنے سے ان کا استعمال کم ہو جائے گا۔ اگرچہ پرانی توانائی سے نئی توانائی کا سفر لمبا ہو جائے گا مگر امید ہے کہ پانچ تا سات برسوں میں یہ سفر طے ضرور ہوگا۔ اس لیے اب ضروری ہے کہ دیر یا سویر معیشت کی نمو سے سمجھوتہ کیے بغیر تبدیلی کا یہ سفر پورا ہو۔ لہذا اس سمت میں سرگرمی کے ساتھ کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے بھارت نہ صرف اپنے لیے بجلی کی تیاری کی صلاحیت حاصل کرسکے گا بلکہ ایک بڑا برآمد کنندہ ملک بھی بن جائے گا۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 ہمارے ملک نے شمسی توانائی کے حصول میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ گجرات کا مودھیرا ملک کا پہلا گاوں بن گیا ہے جہاں کی کل برقی ضرورت شمسی توانائی سے پوری ہوتی ہے۔ اس گاوں میں شمسی توانائی مشین کے ساتھ 13 سو سولار پینل چھتوں پر قائم کیے گئے ہیں۔ اس لیے ملک میں شفاف توانائی کی پیداوار کے لامتناہی امکانات ہیں۔ اس شعبہ کی ترقی کو یقینی بنانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی کی مصیبت سے نجات کے لیے شفاف توانائی کی پیداوار کو ہر قیمت پر بڑھانا ضروری ہے۔ فوسل فیول کے درآمدات پر ہونے والے اخرجات کو کم کرنے میں بھی اس سے مدد ملے گی اور خانگی توانائی معیشت میں بھی وسعت آئے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اگست تا 26 اگست 2023