کیرالہ کی عدالت کا کہنا ہے کہ اگر عورت نے ’اشتعال انگیز لباس‘ پہن رکھا ہو تو اس کی جانب سے جنسی ہراسانی کی شکایت غلط ہے
نئی دہلی، اگست 17: کیرالہ کی ایک عدالت نے کہا ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 354 شکایت کنندہ پر لاگو نہیں ہوتی اگر اس نے ’’جنسی طور پر اشتعال انگیز لباس‘‘ پہن رکھا ہو۔
دی ہندو کی خبر کے مطابق کوزیکوڈ سیشن کورٹ نے مصنف سوک چندرن کی ضمانت کا حکم جاری کرتے ہوئے یہ بات کہی، جس پر فروری 2020 میں نندی ساحل پر ایک خاتون کو ہراساں کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
12 اگست کو اسے ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ چندرن کے خلاف الزامات ثابت کرنے کے لیے ناکافی ثبوت ہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ اس وقت بہت سے گواہ موجود تھے جب مبینہ طور پر ہراساں کرنے کا واقعہ پرہجوم ساحل پر پیش آیا، لیکن کسی نے بھی شکایت کی حمایت نہیں کی۔
لائیو لاء کی خبر کے مطابق چندرن نے اس ضمانت کی درخواست کے ساتھ اس کے سوشل میڈیا سے خاتون کی تصاویر جمع کرائیں، جس کی بنیاد پر عدالت نے تعزیرات ہند کی دفعہ 354 کے متعلق یہ رائے ظاہر کی۔
عدالت نے کہا ’’ملزم کی طرف سے ضمانت کی درخواست کے ساتھ پیش کی گئی تصاویر سے یہ ظاہر ہو گا کہ ڈیفیکٹو شکایت کنندہ خود ایسے لباس میں ہے جن میں جنسی اشتعال انگیزی ہے۔ لہذا دفعہ 354A ملزم کے خلاف پہلی نظر میں موقف اختیار نہیں کرے گی۔‘‘
عدالت نے اس بات پر بھی تعجب کا اظہار کیا کہ 74 سالہ مصنف، جو جسمانی طور پر معذور ہے، شکایت کنندہ کو اپنی گود میں بٹھا کر اس کی چھاتیوں سے پیار کیسے کر سکتا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ سیکشن 354 کو راغب کرنے کے لیے جسمانی جنسی تعلقات، پیش قدمی اور واضح جنسی زیادتیوں کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔
عدالت نے اپنے ضمانتی حکم نامے میں کہا کہ مصنف کا خاتون کی شرافت کو مشتعل کرنے کا ارادہ بھی نہیں تھا۔
اس سال چندرن کے خلاف جنسی ہراسانی کا یہ دوسرا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
دی ہندو کی خبر کے مطابق جولائی میں ایک دلت خاتون مصنف نے، اس مصنف پر مبینہ طور پر اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کا الزام لگایا تھا۔
انھیں اسی عدالت نے 2 اگست کو اس معاملے میں ضمانت دی تھی۔
حکم میں کہا گیا ہے کہ ’’اس کی عمر اور خراب صحت کی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم نے اس کی رضامندی کے بغیر اس کی پیٹھ پر بوسہ دیا۔ مختلف تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ متاثرہ اور ملزم کے درمیان خوشگوار تعلقات تھے اور متاثرہ کے لکھے ہوئے لٹریچر کی اشاعت کے حوالے سے کچھ تنازعہ تھا۔‘‘