سیمی فائنل میں جیتنے والا فائنل ہار بھی سکتا ہے

عام انتخابات سے قبل سیاست کی بساط پر ابھی بہت سا کھیل باقی ہے

ڈاکٹر سلیم خان

انڈیا بلاک کو 5 ریاستوں کے نتائج سے سبق لے کر درست حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت
انتخابات نے ثابت کردیا کہ جب تبدیلی کی آندھی چلتی ہے تو اس کے آگے کچھ بھی نہیں ٹک پاتا
سیاست کی بساط پر ابھی حال میں سیمی فائنل کے پانچ میچ کھیلے گئے۔ ان میں سے تین بی جے پی نے جیت لیے ،ایک کانگریس اور ایک ایم زیڈ پی نامی علاقائی جماعت کےکھاتے میں چلا گیا ۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے کمل نے کانگریس کے ہاتھ پر بلڈوزر چڑھا دیا لیکن عنقریب منعقد ہونے والاآئی سی سی ورلڈ کپ شاہد ہے کہ نریندر مودی اسٹیڈیم میں وزیر اعظم کی موجودگی کے باوجود ٹورنامنٹ کا ہر میچ جیتنے والی ہندوستانی ٹیم شکست فاش سے دوچار ہوگئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صوبائی انتخابات میں بی جے پی کو ملنے والی کامیابی ہندوستانی کرکٹ ٹیم سے بہت کم ہے۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیمی فائنل جیت جانا فائنل جیتنے کی گارنٹی نہیں ہے ۔ آسٹریلیا جیسی ٹیم جو ابتدائی دو میچ ہار گئی تھی سیمی فائنل اور فائنل بھی جیتی مگر کاغذ پر سب سے زیادہ طاقتور نظر آنے والے ہندوستان کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکا۔ اگلے سال فائنل میں کون پنوتی ٹھہرے گا اور کس کی منوتی پوری ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔اس لیے بی جے پی کو اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے اور انڈیا الائنس کو بھی حوصلے کے ساتھ جدوجہد کرتے رہنا چاہیے۔
کرکٹ کی طرح سیاست کو بھی اعدادو شمار کے علاوہ مدعوں کی مدد سے سمجھا جاتا ہے ۔اس حقیقت کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے کہ بی جے پی کی کامیابی میں وزیر اعظم کے چہرے نے سب سے بڑا کردار ادا کیا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شمالی ہندوستان میں راہل گاندھی عوام کو متاثر کرنے میں نریندر مودی سے پچھڑ گئے جبکہ تلنگانہ میں انہوں نے اپنے حریف کو مات دے دی لیکن ایک اور تین کا فرق معمولی نہیں ہے ۔ بی جے پی نے اس بار وزیر اعلیٰ کا کوئی چہرا پیش نہیں کیا بلکہ مودی کے نام پر ووٹ مانگا۔ وزیر اعظم نے ان تین صوبوں میں اگست سے لے کر انتخاب ہونے تک جملہ 42 ضلعوں میں ریلی یا دیگر پروگرام کیے۔ ایک اندازے کے مطابق وزیراعظم کی کوششوں سے راجستھان میں بی جے پی کو 33 نشستوں کا فائدہ ہوا۔ مدھیہ پردیش میں اسے مودی جی کے دوروں کی مدد سے 24 نئی نشستیں ملیں اور چھتیس گڈھ کے اندر اس کو19 ؍ اضافی نشستوں پر کامیابی ملی۔
مدھیہ پردیش کی بات کریں جہاں بی جے پی کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہوئی کیو نکہ اس کے ووٹ کا تناسب 7.53 فیصد بڑھ گیا۔ اس طرح جملہ 230 نشستوں میں سے 163 پر کمل کھل گیا۔ یہ تعداد 2018 کی بہ نسبت 54 زیادہ ہے۔ کانگریس کے ووٹ شیئر میں صرف 0.49فیصد کی کمی واقع ہوئی مگر اس کےنشستوں کی تعداد114 سے گھٹ کر 66 پر آگئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی ، عام آدمی پارٹی کا سوپڑا صاف ہوگیا۔ ان سب کے ووٹ بی جے پی کی جھولی میں چلے گئے اور یہ صرف اور کانگریسی رہنما کمل ناتھ کی رعونت کے سبب ہوا۔دیگر جماعتوں میں سے سماج وادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی تو خیر انڈیا محاذ میں شامل ہیں۔ کانگریس اگر دل بڑا کرکے بہوجن سماج کی سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرتی تو دوسرے سارے حلقہ ہائے انتخاب میں ان پارٹیوں کے ووٹ کانگریس کی جھولی میں آجاتےاور یہ فرق کم ہوجاتا۔
ممبئی کےبعد بھوپال میں انڈیا الائنس کا اگلا اجلاس طے ہوا تھا ۔ وہ تمام جماعتوں کو متحد کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرسکتا تھا مگر کمل ناتھ کی اکڑ نے اسے منسوخ کروا دیا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اپنے بل پر کامیابی درج کرائیں اور انڈیا الائنس میں پارٹی کا قد بڑھائیں لیکن الٹا ہوگیا ۔ ایسے میں ہندی زبان کا محاورہ یاد آتا ہے ’چوبے جی چلے تھے چھبے بننے مگر دوبے بن کر لوٹ آئے۔ کمل ناتھ کانگریس کے بڑے رہنما ہیں ،مرکزی وزیر رہے ہیں اور دلی کے اندر بڑے بارسوخ مانے جاتے ہیں۔ اس بار مدھیہ پردیش کے پانچ امیر ترین امیدواروں کی فہرست میں چار تو خیر بی جے پی والے تھے لیکن ان کا نام بھی تیسرے نمبر پر موجود تھا ۔ اپنے ذاتی ہوائی جہاز سے چلنے والے کمل ناتھ زمینی رہنما نہیں ہیں۔ کوئی فرد یا جماعت جب بہت عرصے تک اقتدار میں رہے تو اس کی مخصوص زمینداری کی نفسیات بن جاتی ہے۔ بی جے پی میں وہ ابھی پروان چڑھ رہی ہے مگر کانگریس میں پہلے سے موجودہے۔ ایسے لوگوں پر بہت زیادہ دباو ہوتو یہ سرمایہ دارانہ ذہنیت عارضی طور پر دب جاتی ہے مگر اقتدار حاصل ہوجائے بلکہ امکانات روشن ہوجائیں تب بھی وہ غائب ہوجاتی ہے ۔ شمالی ریاستوں میں کانگریس کے ساتھ یہی ہوا۔ وہ اگر انڈیا الائنس کے حصے داروں کا احترام کرتی تو نہ ووٹ کے تناسب میں اتنا بڑا فرق اور نشستوں کی تعداد میں ایسی خلیج ہوتی لیکن اب تو جو ہونا تھا سو ہوچکا اس لیے پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں آگے خیال رکھا جائے تو یہ کافی ہے۔
عام لوگوں کے اندر پہلے سے منتخب شدہ ارکان اسمبلی اور وزراء کے تئیں غم و غصہ ہوتا ہے ۔اس کے اظہار کا بہترین موقع انتخاب فراہم کرتے ہیں۔بی جے پی چونکہ ایم پی کے اندر اقتدار میں تھی اس لیے اس سے توقعات زیادہ تھیں۔ اس کے جملہ 99؍ ارکان اسمبلی میں سے 27 امیدوار اور وزراءمیں سے 12 امیدوار انتخاب ہار گئے۔ان بد قسمت لوگوں میں ریاستی وزیر داخلہ اور کٹر ہندوتوا شبیہ کے حامل نروتم مشرا بھی شامل ہیں ۔ انہوں نے اپنی کامیابی پر ہیمامالنی کو نچوانے کا اعلان کردیا تھا لیکن بیچارے خود 7,742 ؍ ووٹ کے فرق سے ہار گئے۔ عوامی ناراضی سے بچنے کے لیے بی جے پی اپنے بیشتر امیدوار بدل دیتی ہے۔ اس بار اس نے اپنے ارکان پارلیمان کو میدان میں اتار کر نیا تجربہ کیا۔ ان ارکان پارلیمان کو اپنے پارلیمانی حلقے کے تحت آنے والے اسمبلی حلقوں کا ذمہ دار بھی بنا دیا گیا ۔ ایم پی کے اندر اس نے تین مرکزی وزراء کو ٹکٹ دیا اور ان میں سے پھگن سنگھ کالستے انتخاب ہار گئے۔ یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ جو شخص اپنی اسمبلی سیٹ نہیں نکال سکتا ہو اس کوو زیر اعلیٰ کی کرسی کے ممکنہ دعویدار بناکر پیش کیا جائے ۔ اب ایسے شخص کا مرکز میں وزیر رہنے کا اخلاقی جواز بھی باقی نہیں رہا لیکن بی جے پی کے پاس اخلاق و اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ مرکزی وزراء کے علاوہ جن چار ارکان پارلیمان کو ٹکٹ دیا گیا تھا ان میں سے گنیش سنگھ بھی انتخاب ہار گئے۔
کانگریس کا حال بھی اس معاملے میں اچھا نہیں ہے۔ اس کے 85 ؍ ارکانِ اسمبلی میں سے 60؍ انتخاب ہار گئے۔ پچھلی مرتبہ ایم پی میں بی جے پی ہار گئی تھی مگر اس نے جیوتردیتیہ سندھیا سے بغاوت کروا کر پھر سے شیوراج چوہان کو وزیراعلیٰ بنوایا ۔ اس بار سندھیا کے جن 19 ؍ حامیوں کو ٹکٹ دیا گیا تھا ان میں سے 10 ؍ اپنی سیٹ نہیں بچا سکے ۔ یہ تو خیر کانگریس سے بغاوت کرکے بی جے پی میں جاکر الیکشن لڑنے والوں کا حال ہے مگر ٹکٹ نہیں ملنے کے سبب آزاد کھڑے ہونے والے 9؍ باغیوں نے اپنی نام نہاد منظم پارٹی بی جےپی کا نقصان کیا جبکہ کانگریس کے8؍ امیدواروں کو ان کی پارٹی کے باغیوں نے ہروایا ۔ مدھیہ پردیش کے مسلمانوں کو کانگریس سے شکایت تھی کہ اس نے مسلم اکثریتی علاقوں سے بھی ملت کے امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا۔ ویسے بھوپال سے اس کے دونوں مسلمان امیدواروں نے کامیابی درج کرائی لیکن برہانپور کے مسلمانوں نے ایم آئی ایم کا امیدوار کھڑا کیا ۔ اسے جملہ 33؍ہزار سے زیادہ ووٹ ملے مگر اسی حلقۂ انتخاب سے بی جے پی امیدوار31ہزار سے زیادہ ووٹ کے فرق سے کامیاب ہوگیا۔ اس طرح مسلم علاقہ کی نمائندگی بی جے پی کے ہاتھ میں چلی گئی۔ مودی کاچہرا اوراس کے ساتھ لاڈلی بہنا کے تحت تقسیم ہونے والی نقد رقم نے بی جے پی کی کامیابی میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے عام ہندوستانی ووٹرس کے نزدیک قومی مسائل کے مقابلے ذاتی مفاد کی کیا اہمیت ہے؟
راجستھان میں پچھلے تیس سال سے ہر پانچ برس میں اقتدار کی تبدیلی کا رواج چل رہاہے ۔ اس بار اشوک گہلوت نے عوامی فلاح و بہبود اسکیموں کو لاگو کرکے اس کی خوب تشہیر کی مگر بی جے پی نے فرقہ پرستی کے تیر سے اس کو گھائل کردیا ۔ اس نے یوگی جیسے چار چار سادھووں کو میدان میں اتار دیا اور سناتن دھرم کا تحفظ اور ہندوتوا کی بنیاد پر انتخاب لڑا ۔ اس کے آگے اشوک گہلوت کی ایک نہیں چلی اور تبدیلی کی روایت قائم و دائم رہی۔ بی جے پی نے گہلوت اور پائلٹ کے اختلاف کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور گوجر سماج کے اندر احساسِ محرومی بلکہ فریب دہی کے جذبات بھڑکا کر بازی مارلی ۔ گہلوت پر بدعنوانی کا الزام لگانے کے لیے لال ڈائری اور ای ڈی کے چھاپوں کا خوب شور مچایا گیا۔ بی جے پی نے بدعنوانی کو مہنگائی اور بیروزگاری سے جوڑ دیا۔ اس نے پٹرول کے نرخ پر پھر سے غور کرکے اسے کم کرنے کا وعدہ کیا۔ پانچ سو روپیہ میں گیس سلنڈر سے بھی رائے دہندگان کو رجھایا گیا ۔ یہاں تک کہ یوگی نے غزہ میں چن چن کر مارنے کا حوالہ دے کر نفرت کا زہر پھیلایا ۔ ان سارے حربوں کی مدد سے بی جے پی 115 نشستوں پر کامیاب ہوگئی اور کانگریس کو 69 نشستوں پر قناعت کرنے کے لیے مجبور کردیا۔
2018 کے مقابلے کانگریس کے ووٹ میں 0.23 کے اضافہ کے باوجود وہ پچھڑ گئی کیونکہ بی جے پی کا اضافہ 2.92 فیصد ہے۔یہی وجہ ہے کہ کانگریس کو 31؍ نشستوں کا نقصان ہوگیا۔ اس کے 25 میں 17؍ وزیر اپنی نشست بچانے میں ناکام رہے۔ پچھلی مرتبہ آزاد اور دیگر جماعتوں کے 27 ؍ امیدوار جیتے تھے مگر اس بار یہ تعداد گھٹ کر 15؍پر آگئی اور ان میں سے 7؍کانگریس و بی جے پی کے باغی لوگ ہیں۔ راجستھان میں بھی بی جے پی نے اپنے ارکان پارلیمان سے اسمبلی کا انتخاب لڑایا۔ ان میں سے 2؍ تو تیسرے نمبر پر آئےاور ایک دوسرے نمبر پر آکر ہارا مگر 4؍ کامیاب ہوے۔ اس دوران خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے قانون تو بنایا گیا مگر راجستھان میں صرف 19؍خواتین کامیاب ہوئیں ۔ 2008 اور 2013 میں ان کی تعداد 28 تھی جو 2018 میں گھٹ کر 22؍ پر آگئی اور اب مزید کم ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاملہ صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔
وطن عزیز میں پسماندہ ذاتوں پر بی جے پی کے کارکنان کا ظلم زبان زدِ عام ہے لیکن اس کا انتخاب پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ راجستھان میں پسماندہ ذاتوں کے لیے محفوظ نشستوں کی تعدادکل 34 ہے۔ ان میں سے 22 پر بی جے پی نے کامیابی درج کرائی ۔ یہ تعداد 2018 کے مقابلے دس زیادہ ہےجبکہ کانگریس صرف 11نشستیں جیت سکی ۔ پچھلی بار اس نے 19 سیٹیں جیتی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے دلتوں اور دیگر طبقات کی سیاسی سوچ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دلتوں کا 43.5؍فیصد ووٹ بی جے پی کو ملا اور کانگریس 41.3 فیصد ووٹ سے فیضیاب ہوئی۔ ریاست کے اندر پسماندہ قبائل کے لیے بھی کل 25؍ نشستیں مختص ہیں۔ ان میں سے 12؍بی جے پی کے حصے میں آئیں جبکہ گزشتہ بار یہ9 تھیں اور کانگریس نے 10؍ نشستوں پر قبضہ کیا جو2018 کے مقابلے دو کم ہیں۔ بی جے پی قبائلیوں کے 38.5 فیصد اور کانگریس کو 35.4 فیصد ووٹ ملے جو ریاستی اوسط کے تناسب میں ہے۔ کانگریس نے 15؍ مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ان میں 5 کامیاب ہوئے ۔ بی جے پی نے اپنے واحد رکن اسمبلی یونس خان کو بھی ٹکٹ نہیں دیا مگر انہوں آزاد امیدوار کی حیثیت میں ڈڈوانہ سے انتخاب لڑا اور اپنے بل بوتے پر بڑےفرق کے ساتھ کامیاب ہوگئے۔
چھتیس گڑھ میں تاریخی فتح حاصل کرتے ہوئے بی جے پی نے 54 سیٹیں جیت لیں ۔ اتنی زیادہ نشستیں اس کو کبھی نہیں ملی تھیں ۔ اسی طرح کانگریس کو صرف 35 ؍پر قناعت کرنا پڑا۔ اتنی کم سیٹیں اس کو کبھی نہیں ملی تھیں۔ پچھلی بار بی جے پی کے ووٹ کا تناسب 32.97 فیصد تھا جو اس بار 14؍فیصد بڑھ کر 46.27 فیصد تک پہنچ گیا۔ پچھلی بارپانچ نشستیں جیتنے والی اجیت جوگی کی پارٹی نے اس مرتبہ 80؍ امیدوار میدان میں اتارے اور وہ سب کے سب ہار گئے۔ بہوجن سماج پارٹی کا بھی وہی حال ہوا وہ اپنا کھاتہ بھی نہیں کھول سکی جبکہ اس کے تین امیدواروں کی جیت پکی مانی جارہی تھی ۔ پانچ سال قبل بی ایس پی کے پانچ امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔دیگر جماعتوں میں گونڈوانہ گن تنتر پارٹی ہی اپنا ایک امیدوار کامیاب کرواسکی۔اس غیر متوقع شکست نے کانگریس کے اندر مایوسی جو لہر دوڑا دی اس کا اندازہ نائب وزیر اعلیٰ ٹی ایس سنگھ دیو کے رویہ سے کیا جاسکتا ہے۔ وہ صرف 94؍ووٹ سے ہارے مگر انہوں نے دوبارہ گنتی کی درخواست تک نہیں کی اور ہار مان لی۔ اسی طرح کانگریس کے شنکر دھرو تو صرف 16؍ ووٹ کے فرق سے ہارے۔ انہوں نے دوبارہ گنتی کی درخواست دی مگر اسے واپس لے لیا۔ یہ ایسی ہی مایوسی ہے کہ ورلڈ کپ ہارنے کے بعد ہندوستانی ٹیم نے آسٹریلیا سے پانچ میں چار ٹی ٹوینٹی کے میچ جیت لیے مگر صدمہ زدہ شائقین نے اس کا جشن منانا تو دور نوٹس تک نہیں لیا۔ کانگریس کے 13؍باغیوں نے معمولی نقصان کیا مگر چار نے اپنا امیدوار ہروا دیا جبکہ بی جے پی کے پانچ باغی کوئی خاص نقصان نہیں کرسکے۔
سوال یہ ہے کہ بظاہر محفوظ ترین نظر آنے والی بھوپیش بگھیل سرکار کیسے اس بری طرح ہار گئی۔ اس میں بی جے پی کے ذریعہ اٹھایا جانے والا بدعنوانی کا مدعا کامیاب رہا۔ پبلک سروس کمیشن کے امتحان کی بدعنوانی، کوئلہ کانوں سے رشوت خوری ، ناجائز شراب کی فروخت اور مہادیو ایپ کا معاملہ اٹھایا گیا اور میڈیا کی مدد سے ماحول سازی کی گئی۔ بی جے پی اپنے خلاف لگنے والے الزامات کو ہندوتوا اور فرقہ پرستی کی آگ میں جلا کر بھسم کردیتی ہے مگر کانگریس کے پاس ایسا کوئی الاو نہیں ہے۔ پی ایس سی بدعنوانی کو بی جے پی نے بیروزگاری سے جوڑا اور نوجوانوں کو قریب کرلیا ۔ کانگریس اس کا توڑ نہیں لاسکی۔ 2018 میں سرگوجا کے اندر کانگریس کو 26 میں سے 25 نشستوں پر کامیابی ملی تھی ۔ بی جے پی نے وہاں تبدیلیٔ مذہب اور نکسلی حملوں کو مدعا بناکر رائے دہندگان کو مرعوب کیا ۔ اس طرح قبائلی لوگ اس کی جانب چلے گئے۔اس علاقہ میں ہونے والے فرقہ وارانہ فساد میں ایک قبائلی کی موت کو بھی بی جے پی نے خوب بھنایا۔
اس علاقہ کے لوگ قبائلی سنگھ دیو کو وزیر اعلیٰ دیکھنا چاہتے تھے مگر وہ نہیں بن سکے ۔ اس سے جو مایوسی پھیلی وہ بی جے پی کے کام آئی۔ ابتداء میں بی جے پی رام مندر وغیرہ پر زور دے رہی تھی مگر وہ مدعا نہیں چلا تو ریوڈیاں بانٹنا شروع کردیں اور مدھیہ پردیش کی طرح بزرگ خواتین کے مہاتاری اسکیم کے تحت نقد رقم دینے کا اعلان کیا جو چل گیا۔ ان ساری کامیابیوں کے ساتھ بی جے پی کے لیے بری خبر یہ ہے کہ ان تین صوبوں میں پچھلی بار ریاستی اقتدار گنوانے کے باوجود پارلیمانی انتخاب میں کارکردگی غیر معمولی رہی تھی۔ اس نے وہاں پر جملہ 61؍ پارلیمانی نشستوں پر کامیابی درج کرائی تھی مگر حالیہ کامیابی سے جوڑ کر اگر حساب کیا جائے تو وہ صرف 45؍ نشستیں جیت سکتی ہےاور اسے 16؍ امیدواروں کا نقصان ہوسکتا ہے۔ یہ تو صرف کاغذی حساب کتاب ہے ۔ انتخاب کے وقت کیا ماحول ہوگا اور کون سا مدعا کتنا کارگر ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی نے اس بار اسی طرح کی کامیابی درج کرائی ہے جیسے پچھلی مرتبہ کانگریس نے حاصل کی تھی مگر قومی سطح پر وہ مودی کو نہیں روک سکی ۔ اس بار بی جے پی راہل کو روک سکے گی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ پچھلے 6؍ ماہ میں 8؍ ریاستوں کے اندر انتخاب ہوا۔ ان میں چھتیس گڑھ اور راجستھان بی جے پی نے کانگریس سے چھین لیے مگر کرناٹک اور ہماچل کانگریس نے بھی بی جے پی سے چھینے ۔ اس کے علاوہ تلنگانہ کانگریس کو اضافی مل گیا اوراس انتخاب نے یہ ثابت کردیا کہ جب تبدیلی کی آندھی چلتی ہے تو اس کے آگے کچھ بھی نہیں ٹک پاتا ہے۔ جنتا پارٹی کے زمانے میں یہ ہوچکا ہے اور آگے بھی ہوسکتا ہے ہوگا یا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا ۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 عام لوگوں کے اندر پہلے سے منتخب شدہ ارکان اسمبلی اور وزراء کے تئیں غم و غصہ ہوتا ہے ۔اس کے اظہار کا بہترین موقع انتخاب فراہم کرتے ہیں۔بی جے پی چونکہ ایم پی کے اندر اقتدار میں تھی اس لیے اس سے توقعات زیادہ تھیں۔ اس کے جملہ 99؍ ارکان اسمبلی میں سے 27 امیدوار اور وزراءمیں سے 12 امیدوار انتخاب ہار گئے۔ان بد قسمت لوگوں میں ریاستی وزیر داخلہ اور کٹر ہندوتوا شبیہ کے حامل نروتم مشرا بھی شامل ہیں ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 دسمبر تا 16 دسمبر 2023