مرکز نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ بغاوت کے قانون کو ختم نہیں کیا جانا چاہیے لیکن اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے رہنما خطوط کی ضرورت ہے
نئی دہلی، مئی 5: اے این آئی کی خبر کے مطابق مرکز نے جمعرات کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ بغاوت کے قانون کو ختم نہیں کیا جانا چاہیے، لیکن اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے رہنما خطوط کی ضرورت ہے۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے عدالت کو بتایا ’’ہمیں اس سیکشن پر رہنما خطوط کی ضرورت ہے کہ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے اور کیا بغاوت کے تحت آسکتا ہے۔ دیکھو اس ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ کل ان لوگوں کے خلاف بغاوت کا الزام لگایا گیا جنھوں نے ہنومان چالیسہ کا ورد کیا تھا۔
وینوگوپال نے یہ بیان آزاد رکن پارلیمنٹ نونیت رانا اور ان کے شوہر ایم ایل اے روی رانا کے خلاف مہاراشٹر حکومت کی طرف سے درج بغاوت کے مقدمہ کے حوالے سے دیا ہے۔ جوڑے کو 23 اپریل کو مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے گھر کے سامنے ہندو بھجن ہنومان چالیسہ پڑھنے کی دھمکی دینے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان دونوں کو بدھ کو ضمانت مل گئی۔
سپریم کورٹ تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی دو عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے، جو بغاوت سے متعلق ہے۔
دی ہندو کے مطابق 27 اپریل کی سماعت میں عدالت نے مرکزی حکومت سے کہا تھا کہ وہ 30 اپریل تک اس قانون پر اپنا موقف واضح کرے۔ تاہم حکومت نے ڈیڈ لائن گنوا دی اور 2 مئی کو حلف نامہ داخل کرنے کے لیے 24 گھنٹے کی توسیع کی درخواست کی۔
بدھ کو حکومت نے ایک بار پھر درخواست دائر کی جس میں جواب داخل کرنے کے لیے مزید سات دن کی توسیع کی درخواست کی گئی۔
جمعرات کی سماعت میں مرکز نے عدالت کو بتایا کہ حلف نامہ کا مسودہ تیار ہے، لیکن وہ مجاز اتھارٹی سے تصدیق کا انتظار کر رہا ہے۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق سالیسیٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے کہا ’’اس طرح کی اہمیت والے معاملے کے لیے کیا یہ منصفانہ ہوگا کہ مرکزی حکومت کا موقف ریکارڈ پر نہ ہو۔ ہمیں مجاز اتھارٹی کے ساتھ مشاورت کی ضرورت ہے۔ ہم صرف ایک ہفتہ کی توسیع مانگ رہے ہیں۔‘‘
چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس سوریہ کانت اور ہما کوہلی کی قیادت والی بنچ نے مرکز کو 9 مئی تک حلف نامہ داخل کرنے کی اجازت دی اور معاملے کی سماعت 10 مئی کو دوپہر 2 بجے کے لیے مقرر کی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ پہلے یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا اس کیس کو دیکھنے کے لیے ایک بڑی بنچ کی ضرورت ہے یا نہیں، کیوں کہ درخواست گزاروں نے کیدار ناتھ سنگھ بمقابلہ ریاست بہار کے فیصلے کو بھی چیلنج کیا ہے، جسے پانچ ججوں کی بنچ نے سنا تھا۔
1962 کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ عوامی اقدامات پر تنقید یا حکومتی کارروائی پر تبصرے اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کے تحت آتے ہیں جب تک کہ وہ تبصرے ’’لوگوں کو قانون کے ذریعے قائم کی گئی حکومت کے خلاف تشدد پر اکساتے نہیں‘‘ یا ’’عوامی خرابی پیدا کرنے کی نیت سے‘‘ کیے گئے ہوں۔
بغاوت کے قانون کے خلاف یہ درخواستیں ایک سابق فوجی افسر میجر جنرل (ریٹائرڈ) ایس جی وومبٹکرے اور ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے دائر کی ہیں۔