سائنس، قرآن اور رمضان

انسانوں کی عین فطرت کے مطابق رہنمائی

مزمل احمد خان
موبائل فون نمبر: 9505293617

اسلام اورسائنس اپنی مشترکہ بنیادیں رکھتے ہیں، قرآن کریم ہی سائنس کا اصل منبع ہے۔ یہ کائنات کے ایسے سربستہ رازوں کا افشا کرتا ہے جہاں تک سائنس دانوں کی رسائی بھی اب تک ممکن نہ ہوسکی۔ اکیسویں صدی علم و ہنر کی صدی ہے اور اسی کے ساتھ قبولیت حق کی صدی بھی ہے کیونکہ جب انسان علم و ہنر سے آراستہ ہوتا ہے تو اس کے دل پر حقائق کی روشنی ظاہر ہوتی ہے اور وہ اسی اجالے میں حق و باطل کی پہچان کرتا ہے۔ وہ مذہب جس کی سائنسی بنیادیں موجود ہیں وہ صرف اسلام ہے۔ اس میں کوئی بات بغیر دلیل نہیں کہی گئی اور وہ کتاب جو بار بار تدبر و تفکر کی دعوت دیتی ہے وہ قرآن کریم ہے۔ نئے دور میں تمام ایسے نظریات جن کی علمی اور سائنسی بنیادیں نہیں ہوں گی خواہ ان کا تعلق مذہب سے ہو یا سماج سے دم توڑ دیں گی۔ یہاں صرف ایسے مذہب کا سکہ چلے گا جو علمی بنیاد پر استوار ہوگا اور وہ صرف قرآنی مذہب ہے، کیونکہ یہ انسان کے عقل کی اختراع نہیں ہے بلکہ اللہ کا بھیجا ہوا پیغام ہے جو دلیل و ثبوت کی روشنی سے لیس ہے اور جس کی مضبوط عقلی بنیادیں ہیں۔
آج اگر قرآن دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے اور اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ اس میں نئے دور کے ساتھ چلنے کی قوت موجود ہے۔ سائنس جس مذہب کی برتری کو تسلیم کرے گی وہی انسانیت کا مذہب ہوگا اور یہ صلاحیت اسلام میں موجود ہے۔
مفردات القرآن میں علم کا سب سے پہلا معنی سائنس لیا گیا ہے۔ سائنس دراصل اشیاء کی تفصیلات کو معلوم کرنا اور آگہی حاصل کرنا ہے۔ یوں کہ سائنس اللہ کی تخلیق میں غور وفکر کا نام ہے، اور قرآن غوروفکر کی تعلیم دیتا ہے۔
رمضان اور قرآن کا رشتہ تو معلوم سا ہے، شروعات میں سارے مہینے یکساں تھے، قرآن مجید کو جو اہمیت و برکت ملی وہ نزول قرآن کی وجہ سےملی ہے. قرآن مجید کا اپنے بارے میں ارشاد ہے: ھدی للناس …ھدی و رحمۃ لِّلمومنین… یہ انسانیت کا ہادی ہے، اور مومنین کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔
قرآن مجید روشنی ہے نور ہے، جس طرح نور سارے ماحول کو روشن کر دیتا ہے اسی طرح ماہ رمضان ایک ماحول ہے جس میں قرآن مجید کی ہدایت کا نور عام کردیا جاتا ہے تاکہ انسانیت کو درست راستہ مل جائے، انہیں اپنے مسائل کا حل معلوم ہو جائے۔ گویا کہ زندگی و قوموں کا فیصلہ کن اتھارٹی قرآن مجید ہے (ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفسقون “۔جو لوگ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ فاسق ہیں، اگلی آیات میں کافر اور ظالم بھی کہا گیا ہے: سورۃ مائدہ)
قرآن مجید کو رحمت بھی کہا گیا ہے، رحمت کی عمومی تعریف کچھ اس طرح کی جاسکتی ہے کہ کسی فرد کو ایسی چیزیں عطا کردینا جو اس کی عین ضرورت کے مطابق ہوں، نہ مقدار میں کچھ کم ہو نہ زیادہ۔ قرآن مجید انسانوں کی عین ضرورت، فطرت کے مطابق رہنمائی فرماتا ہے۔ یہ نہ صرف ان کی اخلاقی و روحانی تربیت کا سامان مہیا کرتا ہے بلکہ دنیوی مادی ضروریات و مسائل کا بھی حل پیش کرتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہدایت و رحمت کے حصول میں ہم نے اپنا تعلق قرآن مجید سے کتنا جوڑا، ہدایت کی دوڑ میں ہم کیا اور کتنی کوشش کرتے ہیں؟ اس کے باوجود بھی دنیا میں بڑی تعداد میں لوگ اس رحمت سے محروم ہیں۔ جن میں خود مسلمان، غیر مسلم، ملحدین، متشککین، ایکس مسلم اور چوٹی کے سائنس داں شامل ہیں۔ اکیسویں صدی کا بڑا سائنس داں Stephen Hawking سے StarTalk نامی ٹیلیویژن شو میں سوال کیا گیا تھا کہ کائنات اور زماں و مکاں کا پھیلاؤ اک اکائی سے ہوا اور یہ کہ اس سے پہلے کائنات میں کیا موجود تھا؟ بڑا عجیب جواب آیا کہ کچھ نہیں تھا بس اک فرضی وقت (Imaginary time) موجود تھا۔ وہ یہ کیوں نہیں مانتے کہ جس طرح اک مردہ توانائی و مادہ سے کائنات کی وسعت ہوسکتی تھی تو پھر ان سب سے پہلے "حی القیوم اکائی” خدائی ذات موجود تھی جس کے حکم سے یہ سب کچھ وجود میں آیا۔ کیسی ذہنی کیفیت کا دیوالیہ اپنے مفروضات میں یہ کھڑا کردیتے ہیں۔ جن لوگوں نے آج تک کائنات کی مقصدیت اور حقیقت کے راز افشاء کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی سن میں سوئٹزر لینڈ کا Hadron Collider (خدائی ذرہ کی ایجاد) نامی دنیا کا سب سے مہنگا ناکام تجربہ بھی شامل ہے جس نے ہزاروں سائنس دانوں کے وقت، توانائی اور اذہان کو فریب میں ڈال دیا۔
قرآن مجید رمضان کی شکل میں ہم کو ایک بہترین ماحول فراہم کرتا ہے اور اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دنیا میں درست نظریۂ علم کو فروغ دینے میں اور سائنسی ذہن کی تشکیل میں بڑا اہم رول عطا کرتا ہے۔ قرآن کا مقصد سائنس کی تفصیلات کا بیان نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب ہدایت ہے جس کا مقصد انسان کو بہتر زندگی جینے اور دنیا کا نظام چلانے کے لیے گائیڈ کرنا ہے مگر اسی کے ساتھ سائنس کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ انسان کی فکری رہنمائی اس کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ جب تک کائنات اور اس کی اشیاء کی ماہیت پر غور نہیں کرتا وہ اللہ کی حکمت کے راز نہیں پاسکتا۔ انسان جب تک سائنس کو نہیں سمجھ پاتا وہ صحیح معنوں میں اللہ کا عرفان نہیں پا سکتا اور نہ ہی صحت مند زندگی جی سکتا ہے۔ اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ معاون ہیں۔ بس اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نور ہدایت کو رحمت کو پوری قوت کے ساتھ منطقی، علمی و فکری نقطہ نظر سے عام کردیا جائے، قرآن مجید کے ذریعے جہاد کبیر کیا جائے۔
***

 

***

 قرآن مجید رمضان کی شکل میں ہم کو ایک بہترین ماحول فراہم کرتا ہے اور اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دنیا میں درست نظریۂ علم کو فروغ دینے میں اور سائنسی ذہن کی تشکیل میں بڑا اہم رول عطا کرتا ہے۔ قرآن کا مقصد سائنس کی تفصیلات کا بیان نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب ہدایت ہے جس کا مقصد انسان کو بہتر زندگی جینے اور دنیا کا نظام چلانے کے لیے گائیڈ کرنا ہے مگر اسی کے ساتھ سائنس کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ انسان کی فکری رہنمائی اس کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ جب تک کائنات اور اس کی اشیاء کی ماہیت پر غور نہیں کرتا وہ اللہ کی حکمت کے راز نہیں پاسکتا۔ انسان جب تک سائنس کو نہیں سمجھ پاتا وہ صحیح معنوں میں اللہ کا عرفان نہیں پا سکتا اور نہ ہی صحت مند زندگی جی سکتا ہے۔ اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ معاون ہیں۔ بس اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نور ہدایت کو رحمت کو پوری قوت کے ساتھ منطقی، علمی و فکری نقطہ نظر سے عام کردیا جائے، قرآن مجید کے ذریعے جہاد کبیر کیا جائے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 مارچ تا 06 اپریل 2024