طلبا کو ’عید کا لباس‘ پہننے اور ویڈیوز پوسٹ کرنے کے لیے کہنے کے لیے اتر پردیش میں ایک اسکول کی پرنسپل کے خلاف مقدمہ درج
نئی دہلی، مئی 7: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق اتر پردیش پولیس نے بدھ کو پریاگ راج کے ایک پرائیویٹ اسکول کی پرنسپل کے خلاف مقدمہ درج کیا جب اس نے مبینہ طور پر طالب علموں کو ایک سرگرمی کے حصے کے طور پر ’’عید کا لباس‘‘ پہن کر ویڈیوز پوسٹ کرنے کو کہا۔
پولیس نے پرنسپل بشریٰ مصطفیٰ کے خلاف انڈین پینل کوڈ کی دفعات کے تحت مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے اور مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کی کارروائیوں کے الزام میں پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی۔ ان کے خلاف انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ سیکشن 67 کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے جو کہ الیکٹرانک شکل میں فحش مواد شائع کرنے یا منتقل کرنے سے متعلق ہے۔
پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق وشو ہندو پریشد کے رکن لال منی تیواری نے بشریٰ کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔ بشریٰ نیا نگر پبلک اسکول کی پرنسپل ہیں، جو سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن سے منسلک ہے۔
شکایت کے مطابق بشریٰ نے 3 مئی کو ویڈیو کے لیے لڑکوں سے کُرتا اور ٹوپی اور لڑکیوں کو سلوار-کرتا اور دوپٹہ پہننے کو کہا۔ کہا جاتا ہے کہ پرنسپل نے ان سے لوگوں کو عید کی مبارکباد دینے والی 20 سیکنڈ کی ویڈیوز بنانے کو کہا۔
تیواری نے الزام لگایا کہ یہ طلبا کو کسی خاص مذہب کی طرف راغب کرنے کی کوشش ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ’’اسے مذہب کی تبدیلی کی سمت میں ایک قدم سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘
ہندوستان ٹائمز کے مطابق تیواری نے الزام لگایا کہ بشریٰ نے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے بطور پرنسپل اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا۔ تیواری نے کہا ’’پرنسپل کا مقصد واضح ہے کیوں کہ اس نے اکشے ترتیا اور پرشورام جینتی کے موقع پر بچوں کو کبھی کوئی سرگرمی نہیں دی۔‘‘
پریاگ راج کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اجے کمار نے کہا کہ پولیس بشریٰ کا بیان ریکارڈ کر رہی ہے اور یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا وہ مذہبی جذبات کو بھڑکانا چاہتی تھی۔
دریں اثنا اسکول کی سکریٹری سچترا ورما نے الزام لگایا کہ یہ شکایت قریبی اسکول کے کچھ ملازمین کی سازش کا حصہ تھی ’’جو پرنسپل کے بہترین کام سے جلتے ہیں۔‘‘
ورما نے کہا کہ اسکول دیوالی اور دسہرہ کے موقع پر اسی طرح کی سرگرمیاں انجام دیتا ہے، جب طلبا سے بھگوان رام اور ہنومان کا لباس پہننے کو کہا جاتا ہے۔