دفعہ 370 کی منسوخی کے تقریباً چار سال بعد اس سے متعلق درخواستوں پر سپریم کورٹ سماعت کرنے کو تیار

نئی دہلی، جولائی 4: مرکز کی جانب سے دفعہ 370 کو منسوخ کیے جانے کے تقریباً چار سال بعد پانچ ججوں کی آئینی بنچ 11 جولائی کو جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت اور خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کرے گی۔

مرکزی حکومت نے 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 کو ختم کر دیا تھا اور جموں و کشمیر کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ مرکز نے دفعہ 35A کو بھی منسوخ کر دیا تھا، جو جموں و کشمیر کے ’’مستقل باشندوں‘‘ کے طور پر بیان کیے گئے لوگوں کے لیے خصوصی حقوق اور مراعات کو یقینی بناتی تھی۔ تب سے یہ خطہ مرکزی حکومت کے زیر اتنظام ہے۔

اس معاملے میں 20 سے زیادہ درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ درخواست گزاروں میں وکلاء، کارکن، سیاست دان، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اور غیر سرکاری تنظیمیں شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کی نئی بنچ کی قیادت چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کر رہے ہیں اور اس میں جسٹس سنجے کشن کول، سنجیو کھنہ، بی آر گوائی اور سوریہ کانت شامل ہیں۔

جب یہ کیس آخری بار مارچ 2020 میں درج کیا گیا تھا، تو عدالت نے اس معاملے کو سات ججوں کی بنچ کو بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔

سینئر وکیل دنیش دویدی، جو اس کیس میں مداخلت کار کے طور پر پیش ہوئے، نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ کے پہلے دو فیصلے دفعہ 370 کے دائرۂ کار اور ارادے کے حوالے سے ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ چوں کہ وہ فیصلے پانچ ججوں کی بنچ نے سنائے تھے، لہذا ان درخواستوں کی سماعت کے لیے سات یا اس سے زیادہ ججوں کا بنچ تشکیل دیا جانا چاہیے۔

ستمبر میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ 3 اکتوبر سے 10 اکتوبر کے درمیان دسہرہ کی چھٹی کے بعد اس معاملے کی فہرست بنائے گی۔ تاہم اس پر غور نہیں کیا گیا۔

دریں اثنا جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں بشمول پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور نیشنل کانفرنس نے پیر کے روز کیس کی سماعت کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ سابقہ ریاست کے باشندوں کے لیے ’’انصاف کو برقرار رکھا جائے گا اور انصاف دیا جائے گا۔‘‘

انھوں نے ٹویٹ کیا ’’دفعہ 370 پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے برقرار رکھا ہے کہ اس شق کو صرف جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفارش پر ہی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔‘‘

محبوبہ مفتی 1968 کے سمپت پرکاش فیصلے کا حوالہ دے رہی تھیں، جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ دفعہ 370 صرف اسی صورت میں منسوخ ہوگی جب ہندوستان کے صدر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفارش پر کوئی ہدایت جاری کریں گے۔

پی ڈی پی لیڈر نعیم اختر نے کہا ’’ہم گذشتہ چار سالوں سے اس دن کا انتظار کر رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ، جنھوں نے جمہوریت کی بنیاد پر اس ملک سے الحاق کیا تھا، آئینی اقدار کے ساتھ دھوکہ کیا گیا اور بالآخر انھیں بے اختیار کر دیا گیا۔‘‘

اختر نے مزید کہا کہ عدلیہ جموں و کشمیر کے باشندوں کے لیے آخری امید ہے کیوں کہ اس نے ’’افراد اور گروہوں کے حقوق کو برقرار رکھا ہے۔‘‘

نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے ٹویٹ کیا ’’آخر کار بنچ تشکیل دی گئی ہے۔ میں ابھی پوری سنجیدگی سے شروع ہونے والی سماعتوں کا منتظر ہوں۔‘‘

کانگریس لیڈر سلمان سوز نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ مرکز کے 2019 کے فیصلے کا جائزہ لیتی ہے تو یہ نتیجہ اخذ کرے گی کہ حکومت ’’آئینی دفعات کی صریح خلاف ورزی میں مصروف ہے اور اس نے جموں و کشمیر کے لوگوں کو غیر قانونی طور پر بے اختیار کیا ہے اور ہندوستانی جمہوریت کو دھچکا پہنچایا ہے۔‘‘