سپریم کورٹ 11 جولائی کے بعد عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کی درخواست پر سماعت کرے گی
نئی دہلی، جون 27: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے پیر کو ایک درخواست کی سماعت کے لیے رضامندی ظاہر کی، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں عیسائی اداروں اور پادریوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔
سینئر وکیل کولن گونسالویز نے عدالت کے سامنے درخواست پر فوری سماعت کا مطالبہ کیا تھا۔
گونسالویز نے کہا کہ ’’ہر ماہ پورے ملک میں عیسائی اداروں اور پادریوں کے خلاف اوسطاً 45 سے 50 پرتشدد حملے ہوتے ہیں۔ اس سال مئی میں ہی عیسائی اداروں اور پادریوں پر تشدد اور حملوں کے 57 واقعات پیش آئے۔‘‘
جسٹس سوریہ کانت اور جے بی پارڈی والا کی تعطیلاتی بنچ نے کہا کہ اگر دعوے سچے ہیں تو یہ صورت حال افسوس ناک ہے۔
بنچ نے کہا ’’ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ آپ کا معاملہ عدالت دوبارہ کھلنے والے دن ہی درج ہو۔‘‘
معلوم ہو کہ عدالتیں موسم گرما کی تعطیلات کے بعد 11 جولائی کو دوبارہ کھلیں گی۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک میں نفرت پر مبنی جرائم کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ کی پہلے کی ہدایات پر عمل درآمد کیا جائے۔
2018 میں تحسین پونا والا کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے مرکز اور ریاستوں کو اس معاملے پر رہنما خطوط جاری کیے تھے، جیسے مقدمے کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں، متاثرین اور ان کے لواحقین کے لیے عبوری ریلیف کے لیے ایک معاوضہ کی اسکیم اور ان افسران کے خلاف کارروائی جو لنچنگ کے واقعات سے صحیح طریقے سے نمٹ نہیں پاتے۔
عدالت نے پارلیمنٹ سے کہا تھا کہ وہ لنچنگ کے واقعات سے نمٹنے کے لیے ایک نئی تعزیری شق بنانے پر غور کرے، یہ کہتے ہوئے کہ سماج میں ہجومی تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اس نے تمام اضلاع میں نوڈل پولیس افسران کی تقرری کا بھی حکم دیا تھا، تاکہ ان علاقوں میں مؤثر گشت کو یقینی بنایا جائے جہاں اس طرح کے واقعات کا امکان ہے اور ان مقدمات کی سماعت چھ ماہ کے اندر مکمل کی جائے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ٹرائل کورٹس قانون کے متعلقہ حصوں میں لنچنگ کے لیے سب سے زیادہ سزا سنائیں گی۔
گذشتہ ایک سال کے دوران ہندوتوا گروپوں کی جانب سے جبری تبدیلی مذہب میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر گرجا گھروں اور عیسائیوں کے عبادت گاہوں پر حملہ کرنے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔
جون میں کرناٹک کے جنوبی کنڑ ضلع میں پولیس حکام نے ایک عیسائی عبادت گاہ پر اس وقت چھاپہ مارا تھا جب ایک ہندوتوا گروپ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہاں زبردستی لوگوں کا مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے۔
25 فروری کو ایک عیسائی پادری نے الزام لگایا کہ اس پر دہلی میں ایک ایسے ہجوم نے حملہ کیا جس نے ان پر مذہب کی تبدیلی کے مشن پر ہونے کا الزام لگایا۔
5 دسمبر کو جاری ہونے والی ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں پتا چلا ہے کہ گذشتہ سال جنوری سے ستمبر کے درمیان ہندوستان بھر میں مسیحی برادری کے ارکان پر 305 حملے ہوئے۔
رپورٹ ’’کرسچنز انڈر اٹیک ان انڈیا‘‘، ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس، یونائیٹڈ کرسچن فورم اور یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ جیسی این جی اوز کا مشترکہ اقدام تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 305 واقعات میں سے 66 واقعات اتر پردیش سے رپورٹ ہوئے، اس کے بعد چھتیس گڑھ سے 47 اور کرناٹک سے 32 واقعات ہوئے۔
دسمبر میں جاری کردہ ایک اور رپورٹ میں پیپلز یونین فار سول لبرٹیز نے جنوری 2021 سے نومبر 2021 کے درمیان صرف کرناٹک میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 39 واقعات کو درج کیا۔