صحافی محمد زبیر کو مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا

نئی دہلی، جون 27: صحافی محمد زبیر کو پیر کے روز دہلی پولیس کی سائبر یونٹ نے مارچ 2018 میں پوسٹ کیے گئے ایک ٹویٹ کے لیے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ بعد میں انھیں ایک دن کے لیے پولیس کی حراست میں بھیج دیا گیا۔

پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق ڈپٹی کمشنر آف پولیس (انٹیلی جنس فیوژن اینڈ اسٹریٹجک آپریشنز) کے پی ایس ملہوترا نے کہا کہ فیکٹ چیکنگ سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی زبیر کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153-A (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور 295-A (بد نیتی پر مبنی حرکتیں، مذہبی جذبات کو مجروح کرنا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

آلٹ نیوز کے شریک بانی پرتیک سنہا نے کہا کہ زبیر کو دہلی پولیس نے 2020 کے ایک کیس کی تحقیقات کے لیے طلب کیا تھا، جس کے لیے انھیں پہلے ہی ہائی کورٹ سے گرفتاری کے خلاف تحفظ حاصل تھا۔

سنہا نے مزید کہا ’’تاہم آج شام تقریباً 6.45 بجے ہمیں بتایا گیا کہ اسے کسی اور ایف آئی آر کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے جس کے لیے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا، جو کہ قانون کے تحت ان سیکشنز کے لیے لازمی ہے جن کے تحت اسے گرفتار کیا گیا ہے۔‘‘

سنہا نے مزید کہا کہ بار بار درخواست کے باوجود ایف آئی آر کی کوئی کاپی نہیں دی جا رہی ہے۔

ایک اور ٹویٹ میں سنہا نے الزام لگایا کہ زبیر کو نامعلوم مقام پر لے جایا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’نہ تو زبیر کے وکلاء کو بتایا جا رہا ہے اور نہ ہی مجھے بتایا جا رہا ہے کہ زبیر کو کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ ہم اس کے ساتھ پولیس وین میں ہیں۔ کسی پولیس والے نے (اپنی وردی پر اپنے) نام کا ٹیگ نہیں لگایا ہے۔‘‘

دہلی پولیس کے سینئر عہدیداروں نے اے این آئی کو بتایا کہ زبیر کو پیر کے روز balajikijaiin@ ہینڈل والے ایک صارف کی ٹویٹر پر شکایت کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا، جو ہنومان بھکت کے نام سے ٹویٹر پر ہے اور ہندو دیوتا ہنومان کی پروفائل تصویر رکھتا ہے۔ پیر کی شام تک اس ٹویٹر ہینڈل کا صرف ایک فالوور تھا۔

پولیس حکام نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ شکایت کنندہ نے 24 مارچ 2018 کو زبیر کے ٹویٹ پر اعتراض کیا، جس میں ایک ہوٹل کا سائن بورڈ دکھایا گیا تھا جس میں ’’ہنی مون ہوٹل‘‘ کے نام کو دوبارہ پینٹ کرکے ’’ہنومان ہوٹل‘‘ کیا گیا تھا۔

تاہم سوشل میڈیا صارفین نے نشان دہی کی کہ زبیر نے جو تصویر پوسٹ کی ہے وہ 1983 کی ہندی کامیڈی فلم کی ہے جس کی ہدایت کاری رشی کیش مکھرجی نے کی تھی۔

پیر کی رات دیر گئے زبیر کو براری میں ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ پولیس نے آلٹ نیوز کے شریک بانی کی سات دن کی تحویل مانگی اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہے۔

تاہم ڈیوٹی مجسٹریٹ اجے نروال نے دلائل سنے اور زبیر کو ایک دن کے پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا۔

سماعت میں زبیر کی نمائندگی کرنے والی ایڈوکیٹ کولپریت کور نے کہا کہ سماعت ایک عارضی عدالت میں ہوئی۔

زبیر کی گرفتاری مائیکروبلاگنگ سائٹ ٹویٹر کو مرکزی حکومت کی جانب سے ایک درخواست موصول ہونے کے پانچ دن بعد ہوئی ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کا اکاؤنٹ ہندوستانی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

صحافی کے خلاف ماضی میں بھی کئی مقدمات درج ہو چکے ہیں۔

یکم جون کو اتر پردیش پولیس نے زبیر کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 295A (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کام، مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا) کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67 (الیکٹرانک شکل میں فحش مواد شائع کرنا یا منتقل کرنا) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

یہ اس وقت ہوا جب صحافی نے ایک ٹویٹ میں تین ہندوتوا شدت پسندوں کو ’’نفرت پھیلانے والے‘‘ کہا۔ ان تینوں ہندوتوا شدت پسندوں، یتی نرسنگھانند سرسوتی، بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو گذشتہ چند مہینوں میں مسلمانوں کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات دینے پر نفرت انگیز تقریر کے مقدمات کا سامنا ہے۔

زبیر نے کہا کہ یہ پانچواں یا چھٹا مقدمہ تھا جو ان کے خلاف درج کیا گیا تھا۔

دریں اثنا کئی اپوزیشن لیڈروں اور Digipub News India فاؤنڈیشن نے زبیر کی گرفتاری پر تنقید کی۔

پریس باڈی نے ایک بیان میں کہا ’’جمہوریت میں، جہاں ہر فرد کو آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے، یہ بلا جواز ہے کہ ایسے سخت قوانین کو صحافیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ DIGIPUB دہلی پولیس سے فوری طور پر مقدمہ واپس لینے کی اپیل کرتا ہے۔‘‘

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے لکھا ’’بی جے پی کی نفرت، تعصب اور جھوٹ کو بے نقاب کرنے والا ہر شخص ان کے لیے خطرہ ہے۔ حق کی ایک آواز کو گرفتار کرنے سے ہزاروں مزید آوازیں اٹھیں گی۔ ظلم پر ہمیشہ سچائی کی فتح ہوتی ہے۔‘‘