سپریم کورٹ نے ایک سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے خلاف دائر درخواست مسترد کی

نئی دہلی، فروری 2: لائیو لاء کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک مفاد عامہ کی عرضی کو مسترد کر دیا جس میں اس قانون کو منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی تھی جس کے تحت امیدواروں کو ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اشونی اپادھیائے نے عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 33(7) کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا تھا۔

اپنی عرضی میں اپادھیائے نے نشان دہی کی کہ امیدواروں کو اپنی ایک سیٹ خالی کرنی ہوتی ہے، اگر وہ دونوں جیت جاتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں خالی ہونے والی آسامی پر ضمنی انتخاب کرانے کے لیے سرکاری خزانے، سرکاری افرادی قوت اور دیگر وسائل پر پڑنے والے ناگزیر مالی بوجھ کے علاوہ اس حلقے کے ووٹرز کے ساتھ ناانصافی بھی ہوتی ہے، جس سے امیدوار مستعفی ہو رہا ہے۔

تاہم چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیرقیادت بنچ نے اس عرضی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون سازی کا معاملہ ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ ’’امیدوار مختلف وجوہات کی بنا پر مختلف نشستوں سے انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ یہ پارلیمنٹ پر منحصر ہے۔‘‘

اپادھیائے کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ گوپال شنکر ناراینن نے عدالت کو بتایا کہ لاء کمیشن آف انڈیا نے بھی سفارش کی ہے کہ کسی شخص کو ایک وقت میں ایک سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑنے سے روکا جائے۔ بنچ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس پر کارروائی کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور اس میں عدالتی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی سمیت کئی رہنما ماضی میں اپنی عوامی اپیل کا مظاہرہ کرنے کے لیے دو حلقوں سے انتخاب لڑ چکے ہیں۔

جمعرات کی سماعت میں چندرچوڑ نے کہا کہ امیدوار ایک سے زیادہ سیٹوں سے الیکشن لڑ کر پین انڈیا لیڈر بننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ تمام سیاسی فیصلے ہیں اور بالآخر ووٹر اس کا فیصلہ کریں گے۔