سپریم کورٹ نے ہم جنس افراد کی شادی کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرنے والی درخواستوں کو آئینی بنچ کے پاس بھیجا
نئی دہلی، مارچ 13: سپریم کورٹ نے پیر کو ہم جنس شادیوں کو قانونی تسلیم کرنے کی درخواستوں کے ایک بیچ کو آئینی بنچ کو بھیج دیا۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا اور جے بی پاردی والا پر مشتمل بنچ نے کہا کہ یہ ’’بنیادی اہمیت‘‘ کا معاملہ ہے۔
جنوری میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی بنچ نے مختلف ہائی کورٹس میں زیر التوا اس معاملے کی کئی عرضیوں کو اپنے پاس منتقل کر لیا تھا اور مرکز سے اس معاملے پر اپنا جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔
اپنے حلف نامے میں مرکز نے ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ’’ہندوستانی خاندانی اکائی کے تصور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
حلف نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ شادی محض دو افراد کے درمیان ’’پرائیویسی کا مسئلہ‘‘ نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے سماجی تانے بانے کو متاثر کرتی ہے۔
پیر کی سماعت میں عدالت نے کہا کہ درخواستوں میں اٹھائے گئے معاملات کو آئین کی دفعہ 145(3) کے پیش نظر پانچ ججوں کی بنچ کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ کم از کم پانچ ججوں پر مشتمل بنچ کو ایسے کیس کی سماعت کرنی چاہیے جس میں آئین کی تشریح کے حوالے سے قانون کا اہم سوال ہو۔
عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کے وی وشواناتھن نے دلیل دی کہ ساتھی کے انتخاب کا حق اظہار رائے کے حق اور وقار کے حق کا حصہ ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ نیرج کشن کول نے بھی عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے نوتیج سنگھ جوہر کیس کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ بنچ یا تو اسپیشل میرج ایکٹ کی اس طرح تشریح کر سکتا ہے کہ وہ ہم جنس شادیوں کو تسلیم کرتا ہے یا وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر ایسی شادیوں کو جائز تسلیم کر سکتا ہے۔
2018 کے نوتیج سنگھ جوہر کیس میں سپریم کورٹ نے ہندوستان میں ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے متفقہ طور پر کہا تھا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کے تحت آپسی رضامندی والی ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینا ’’غیر معقول، ناقابل دفاع اور واضح طور پر من مانی‘‘ ہے۔
دوسری طرف سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مرکز کی طرف سے پیش ہوئے عدالت کو بتایا کہ محبت کے حق کو پہلے ہی برقرار رکھا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شادی کا حق دیا جا سکتا ہے۔
مہتا نے کہا کہ ہم جنس شادی کو تسلیم کرنے سے گود لیے جانے والے بچے کے دیگر حقوق کے مسائل پیدا ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو ایسے بچے کی نفسیات کو دیکھنا ہو گا جس کی پرورش والد اور والدہ نے نہیں کی ہے۔