سپریم کورٹ نے اپنا مذہب تبدیل کرنے والے دلتوں کو درج فہرست ذات کا درجہ دینے کی جانچ کے لیے تشکیل دیے گئے پینل کے خلاف دائر درخواست کو مسترد کیا
نئی دہلی، جنوری 24: سپریم کورٹ نے پیر کے روز اس درخواست پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا جس میں مرکز کے ذریعے اپنا مذہب تبدیل کرنے والے دلتوں کو درج فہرست ذات کا درجہ دینے کی جانچ کرنے کے لیے ایک پینل تشکیل دینے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
6 اکتوبر کو مرکز نے ان دلتوں کو درج فہرست ذات کا درجہ دینے کے معاملے کی جانچ کرنے کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا تھا جنھوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا ہے اور جن کا آئین کی دفعہ 341 کے تحت صدارتی احکامات میں ذکر نہیں ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درج فہرست ذات کا درجہ صرف ہندو، سکھ اور بدھ مت کے لوگوں کے لیے دستیاب ہے۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کمیشن سپریم کورٹ میں ایک اور عرضی پر سماعت میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے جو تقریباً 20 سالوں سے زیر التوا ہے اور اس سے شیڈول کاسٹ نژاد عیسائیوں کو ’’ناقابل تلافی نقصان‘‘ پہنچ رہا ہے۔
سرکاری تنظیم سینٹر فار پبلک انٹرسٹ لٹیگیشن نے یہ عرضی 2004 میں دائر کی تھی۔
جسٹس سنجے کشن کول اور اے ایس اوکا پر مشتمل بنچ نے پیر کو کہا ’’حکومت نے اپنی سمجھ سے ایک کمیشن مقرر کیا ہے۔ آپ [درخواست گزار] اس کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کر رہے ہیں۔ کون سا قاعدہ یا کون سا قانون آپ کو ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے؟‘‘
عدالت نے یہ بھی کہا کہ کمیشن کی تقرری کو کالعدم قرار دینے کے لیے کوئی متعلقہ بنیاد نہیں ہے۔ تاہم اس نے مزید کہا کہ عدالت زیر التواء درخواست میں اس مسئلے کا جائزہ لے سکتی ہے۔
گذشتہ سال اکتوبر میں جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کی مرکزی وزارت نے کہا تھا کہ یہ معاملہ ’’اہم اور تاریخی طور پر پیچیدہ سماجی اور آئینی سوال‘‘ ہے جو اسے عوامی اہمیت کا حامل بناتا ہے۔
کمیشن کی سربراہی بھارت کے سابق چیف جسٹس کے جی بالاکرشنن کر رہے ہیں اور اس میں انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے ریٹائرڈ افسر رویندر کمار جین اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی رکن پروفیسر سشما یادو بھی شامل ہیں۔
کمیشن ان مضمرات کا جائزہ لے گا کہ کس طرح نئے افراد کو درج فہرست ذات کے زمرے میں شامل کرنے سے پہلے سے موجود افراد پر کیا اثر پڑے گا۔ اس میں ان تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا جو درج فہرست ذات کے افراد کے ساتھ رسم و رواج، روایات، سماجی اور دیگر حیثیت کے امتیازات کے لحاظ سے دوسرے مذاہب میں تبدیل ہوتے ہیں۔
تاہم سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کے مرکزی وزیر مملکت اے نارائن سوامی نے گذشتہ ماہ سرمائی اجلاس کے دوران لوک سبھا کو بتایا تھا کہ اس نے مذہب تبدیل کرنے والے دلتوں کو درج فہرست ذات کا درجہ دینے کے امکانات کا مطالعہ کرنے کے لیے کمیشن نہیں بنایا ہے۔
معلوم ہو کہ نومبر میں ایک حلف نامہ میں مرکزی حکومت نے مذہب تبدیل کرنے والے دلتوں کو درج فہرست ذات کا درجہ دینے کی مخالفت کی تھی اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ اسلام اور عیسائیت دونوں مذاہب میں اچھوت کا نظام موجود نہیں ہے۔