سپریم کورٹ نے میڈیا ون چینل کی نشریات پر مرکز کی جانب سے عائد پابندی کو منسوخ کیا، کہا کہ ’’قومی سلامتی‘‘ کے نام پر شہریوں کے حقوق نہیں چھینے جا سکتے
نئی دہلی، اپریل 5: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز ملیالم نیوز چینل میڈیا ون پر مرکز کی طرف سے ٹیلی کاسٹ پر پابندی کو منسوخ کر دیا۔ عدالت نے حکومت سے کہا کہ وہ چار ہفتوں کے اندر نیوز چینل کی نشریات کی اجازت کی تجدید کرے۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس ہیما کوہلی پر مشتمل بنچ نے کہا کہ حکومت شہریوں کو قانون کے تحت فراہم کردہ ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لیے قومی سلامتی کے نام کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
میڈیا ون چینل کی نشریات 31 جنوری ہو بند کر دی گئی تھیں جب مرکز نے ’’سیکیورٹی وجوہات‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا ٹیلی کاسٹ معطل کردیا۔
کیرالہ ہائی کورٹ نے گذشتہ سال مارچ میں مرکز کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے اس معاملے کے بارے میں خفیہ فائلوں کی جانچ کی اور اسے یقین ہوا کہ واقعی قومی سلامتی کو خطرہ ہے۔
اس کے بعد چینل نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس نے مرکز کو ان فائلوں کو پیش کرنے کی ہدایت دی تھی جن کی بنیاد پر اس نے نیوز چینل کے لائسنس کی تجدید سے انکار کر دیا تھا۔ فائلوں کی جانچ پڑتال کے بعد سپریم کورٹ نے ایک عبوری حکم جاری کیا جس میں چینل کو کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔
بنچ نے بدھ کو اپنے اس عبوری حکم کو مطلق قرار دیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے پاس مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے مہر بند لفافے میں جمع کرائے گئے دستاویزات کی بنیاد پر کیس کا فیصلہ کرنے کا جواز نہیں تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ قومی سلامتی کے تحفظات ریاست کو منصفانہ کام کرنے سے نہیں روکتے۔ ’’اگر ریاست منصفانہ طور پر کام کرنے کے اپنے فرض کو ترک کرتی ہے تو اسے عدالت اور کیس کے حقائق کے سامنے جواز پیش کیا جانا چاہیے۔ سب سے پہلے ریاست کو عدالت کو مطمئن کرنا چاہیے کہ قومی سلامتی کے خدشات اس میں شامل ہیں۔‘‘
بنچ نے کہا کہ مرکز نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کیوں میڈیا ون کو لے کر حکومت کے فیصلے کی وجوہات کا انکشاف کرنا قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ اس نے زور دے کر کہا کہ محض ’’قومی سلامتی‘‘ کا ذکر کرنے سے عدالتی نظرثانی کے فیصلے کو خارج نہیں کیا جائے گا۔
بنچ نے کہا ’’ریاست قومی سلامتی کو، قانون کے تحت فراہم کیے جانے والے شہریوں کے حقوق سے انکار کرنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ یہ قانون کی حکمرانی سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘‘
مرکز نے شہریت ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن پر چینل کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس میں اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف ہے۔ عدالت نے تاہم کہا کہ یہ اس کے براڈکاسٹ لائسنس کی تجدید سے انکار کرنے کی بنیاد نہیں ہو سکتا۔
عدالت نے کہا کہ آزاد میڈیا جمہوری ملک کے کام کاج کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس نے زور دے کر کہا کہ ’’پریس کا فرض ہے کہ وہ سچ بولے اور شہریوں کے سامنے سخت حقائق پیش کرے اور انھیں ایسے انتخاب کرنے کے قابل بنائے جو جمہوریت کو درست سمت میں آگے بڑھائیں۔ سماجی اقتصادی سیاست سے لے کر سیاسی نظریات تک کے مسائل پر یکساں نظریہ جمہوریت کے لیے سنگین خطرات کا باعث بنے گا۔‘‘
عدالت نے یہ بھی کہا کہ میڈیا ون کے اسلامی تنظیم جماعت اسلامی ہند سے منسلک ہونے کا الزام جھوٹا ہے۔ اس نے یہ بھی نوٹ کیا کہ مذکورہ تنظیم کالعدم نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ یہ دکھانے کے لیے کوئی مواد نہیں ہے کہ چینل کے عہدیدار جماعت اسلامی ہند کے شیئر ہولڈر ہیں۔