الہ آباد ہائی کورٹ نے شاہی عید گاہ سے متعلق تمام درخواستوں کو اپنے پاس منتقل کرنے کا حکم دیا

نئی دہلی، مئی 27: الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعہ کو ہدایت دی کہ متھرا کی ایک عدالت کے سامنے زیر التوا شاہی عیدگاہ مسجد کے تنازعہ سے متعلق تمام معاملات کو اس کے پاس منتقل کیا جائے۔

درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ مسجد ہندو دیوتا کرشنا کی جائے پیدائش پر بنائی گئی ہے اور انھوں نے مسجد کے ارد گرد 13.37 ایکڑ اراضی پر دعویٰ کیا ہے۔

جسٹس اروند کمار مشرا نے رنجنا اگنی ہوتری اور سات دیگر کی طرف سے دائر کی گئی منتقلی کی درخواست کی اجازت دی۔ درخواست گزاروں نے استدعا کی تھی کہ بابری مسجد کیس کی طرز پر اس معاملے پر ہائی کورٹ میں کارروائی کی جائے۔

ہائی کورٹ نے نوٹ کیا کہ سول عدالت کے سامنے 10 مقدمے زیر التوا ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اس کیس کا موضوع ’’عوامی اہمیت‘‘ کا ہے، لیکن دو سے تین سال تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

یہ پیش رفت اس کے چند ہفتوں کے بعد ہوئی ہے جب ہائی کورٹ نے یکم مئی کو متھرا کی ایک عدالت کو ہدایت دی تھی کہ وہ گذشتہ سال ضلعی عدالت کے مشاہدات پر غور کیے بغیر کرشنا مندر سے متصل شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے کے مقدمے پر فیصلہ کرے۔

گذشتہ سال 19 مئی کو متھرا کی ضلعی عدالت نے کہا تھا کہ شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے کا مقدمہ قابل سماعت ہے اور سول عدالت کو اس معاملے میں دونوں فریقوں کو سننے کی ہدایت دی تھی۔ ضلعی عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کیس پر عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔

یہ قانون عبادت گاہوں کی اس مذہبی نوعیت میں کسی بھی قسم کی تبدیلیوں کو روکتا ہے جس نوعیت میں وہ آزادی کے وقت تھے۔ یہ قانون بابری مسجد تنازعہ کے عروج پر منظور کیا گیا تھا تاکہ عبادت گاہوں پر اس طرح کے مزید فرقہ وارانہ جھگڑوں کو روکا جا سکے۔

تاہم اس ایکٹ نے بابری مسجد کی جگہ کے لیے ایک استثناء فراہم کیا تھا۔

ہائی کورٹ نے یکم مئی کو ضلعی عدالت کے 19 مئی کے حکم کو کالعدم قرار دینے سے انکار کر دیا تھا، لیکن نوٹ کیا کہ ڈسٹرکٹ جج کو کیس کے میرٹ پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔