سپریم کورٹ کالجیم نے منی پور کے قائم مقام چیف جسٹس کو کلکتہ ہائی کورٹ منتقل کرنے کی سفارش کی

نئی دہلی، اکتوبر 11: سپریم کورٹ کالجیم نے منی پور ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس ایم وی مرلی دھرن کو کلکتہ ہائی کورٹ منتقل کرنے کی سفارش کی ہے۔

کالجیم نے 9 اکتوبر کو ’’انصاف کے بہتر نظم و نسق کے لیے‘‘ منتقلی کی تجویز پیش کی۔ منگل کو جسٹس مرلی دھرن نے درخواست کی تھی کہ انھیں یا تو ان کے پیرنٹ ہائی کورٹ یعنی مدراس ہائی کورٹ میں منتقل کیا جائے یا منی پور ہائی کورٹ میں ہی بنے رہنے کی اجازت دی جائے۔

تاہم کالجیم نے بدھ کو کہا کہ ان کی درخواست میں ایسا کرنے کی کوئی مناسب وجہ نہیں ملی، لہٰذا کالجیم نے انھیں کلکتہ ہائی کورٹ منتقل کرنے کی اپنی سفارش کو دہرایا۔

19 اپریل کو جسٹس مرلی دھرن نے منی پور حکومت سے کہا تھا کہ وہ ریاست کی اکثریتی میتی کمیونٹی کی درخواستوں پر غور کرے تاکہ انھیں شیڈول ٹرائب کے زمرے میں شامل کیا جائے اور ان پر ’’جلد‘‘ فیصلہ کیا جائے۔

اس حکم نے شمال مشرقی ریاست میں میتی کمیونٹی اور پہاڑی قبائل کے درمیان پرانی پریشانیوں کو زندہ کر دیا تھا۔ 3 مئی کو میتی کمیونٹی کے مطالبے کی مخالفت کے لیے ہزاروں لوگوں کے احتجاجی مارچ میں شرکت کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑا۔ ریاست میں نسلی تنازعہ شروع ہونے کے بعد اب تک 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

میتی کمیونٹی کے ارکان، جو ریاست کی آبادی کا 60 فیصد ہیں، زیادہ تر امپھال وادی میں مرکوز ہیں۔ کمیونٹی کا دعویٰ ہے کہ اسے میانمار اور بنگلہ دیش سے بڑے پیمانے پر غیر قانونی امیگریشن کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے۔ قانون کے مطابق میتیوں کو ریاست کے پہاڑی علاقوں میں آباد ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

دوسری طرف کچھ قبائلی برادریوں کو خدشہ ہے کہ اگر میتیوں کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دیا گیا تو میتی ان کی زمین پر قبضہ کر لیں گے۔

9 مئی کو سپریم کورٹ نے زبانی طور پر کہا تھا کہ منی پور ہائی کورٹ کے پاس ریاستی حکومت کو یہ ہدایت دینے کا اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کمیونٹی کو درج فہرست قبائل کے طور پر نامزد کرنے پر غور کرے۔

وہیں پیر کے روز اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ حکومت جلد ہی دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس سدھارتھ مردول کی منی پور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تقرری کو منظوری دے دے گی۔

سپریم کورٹ کے کالجیم نے تین ماہ قبل جسٹس مردول کی تقرری کی سفارش کی تھی۔ منی پور ہائی کورٹ میں فروری سے ہی کوئی مستقل چیف جسٹس نہیں ہے۔

پیر کو جسٹس ایس کے کول اور سدھانشو دھولیا کی بنچ نے کہا کہ تقرری میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔