سپریم کورٹ نے بغاوت کے قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی نئی درخواست کی سماعت پر اتفاق کیا
نئی دہلی، جولائی 14: لائیو لاء کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے آج ملک سے بغاوت کے قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی ایک نئی درخواست پر سماعت کرنے پر اتفاق کیا۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق ایک ریٹائرڈ آرمی جنرل کے ذریعہ دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی تعزیراتی ضابطہ کی دفعہ 124A (ملک سے بغاوت) غیر آئینی طور پر مبہم تعریفوں پر مبنی ہے۔
چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس ایس اے بوپنا اور ہرشی کیش رائے پر مشتمل بنچ جمعرات کو میجر جنرل ایس جی وومبٹکیر کی درخواست پر سماعت کرے گا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’(بغاوت کا قانون) آرٹیکل 19 (1) (a) کے تحت آزادانہ اظہار رائے کے بنیادی حق پر ایک غیر معقول پابندی ہے۔‘‘
اس میں مزید کہا گیا کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 14 (مساوات کا حق)، آرٹیکل 19 (تقریر اور اظہار رائے کی آزادی) اور آرٹیکل 21 (زندگی کا حق) جیسے بنیادی حقوق کی ترجمانی میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ استدعا میں کہا گیا ہے کہ اس کے پیش نظر ملک سے بغاوت سے نمٹنے سے پہلے ’’قانون کی ترقی‘‘ کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ ’’بدلے ہوئے قانونی اور آئینی منظرنامے میں مذکورہ دفعہ [آئی پی سی کے سیکشن 124 اے] کو ختم کیا جانا چاہیے۔‘‘
آج کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وومبٹکیر کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ پی بی سریش سے درخواست کی ایک کاپی اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال کو بھیجنے کو کہا۔
اس سے قبل اپریل میں سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے بغاوت کے قانون کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست پر مرکز سے جواب طلب کیا تھا۔