افروز عالم ساحل
بات سن 1920 کی ہے۔ ملک بھر میں خلافت تحریک کا زور تھا۔ اسی درمیان برٹش حکومت کے خلاف اپنی مخالفت کو مزید تیز کرنے کی نیت سے تحریک عدم تعاون کا اعلان کیا گیا۔ اس تحریک میں ایک خاتون سروجنی نائیڈو نہ صرف تحریک چلانے والے رہنماؤں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی تھیں بلکہ انہوں نے ’قیصر ہند‘ کا طلائی تمغہ بھی لوٹا دیا، جو انہیں حکومت نے شہر حیدرآباد کے عظیم سیلاب کے دوران ان کی انسانی خدمات کے صلہ میں 1908 میں دیا تھا۔
’قیصر ہند‘ کا تمغہ لوٹاتے ہوئے 31 اگست 1920 کو انہوں نے وائسرائے لارڈ چیمسفورڈ کو خط لکھا، ’میں نے ہندوستانی خلافت وفد کو یہ کام سونپا ہے کہ وہ اس ’قیصر ہند‘ میڈل کو واپس دے دے، جس پر مجھے فخر معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اب میں اس کو ترک کر دینا چاہتی ہوں تاکہ اپنے ملک اور ملک کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ان پر کیے جانے والے تشدد کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کر سکوں… اب تو ان ناانصافیوں کی حد ہو گئی، جب ہندوستانی مسلمانوں کو خلافت کے متعلق دیے ہوئے وعدے توڑے گئے اور پنجاب میں معصوم لوگوں کو شہیدوں کیا گیا…‘
1922 میں بہار کے شہر گیا میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی 37ویں میٹنگ میں سروجنی نائیڈو نے قرارداد پیش کی، ’کانگریس کمال پاشا اور ترک قوم کو ان کی حالیہ کامیابیوں پر مبارک باد دیتی ہے اور ہندوستانی عوام کے اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ وہ اس وقت تک جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک برٹش حکومت ترک قوم کو اس کی آزاد اور خود مختار حیثیت بحال کرنے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات نہیں کرتی اور اس راہ میں حائل تمام مشکلات کو دور نہیں کرتی نیز اس کی قومی زندگی کی بلا رکاوٹ ترقی اور اسلام کو غیر اسلامی کنٹرول سے آزاد رکھنے کے لئے موزوں حالات پیدا نہیں کرتی۔‘
قرارداد پیش کرنے کے بعد سروجنی نائیڈو نے اپنی تقریر میں کہا، ’اس عظیم اجتماع میں موجود ہندوؤ! میرے ہم مذہبو! میرے اکالی بھائیو! میرے آریہ سماجی اور سناتن دھرمی بھائیو! میں آپ سب سے کہنا چاہتی ہوں۔۔۔ ہم ہندوستان کے ہندو اور مسلمان بھائیوں کے ساتھ ایک دوہرے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ وہ ہمارے ملک کی اقلیت ہیں اور دوسرے اس لیے کہ بہادری و شجاعت اور محبت کے تقاضوں کے تحت ہر ہندو مرد اور عورت نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ جب تک کمال پاشا کی تلوار پوری عظمت کے ساتھ بلند نہیں ہو پاتی اور جب تک اسے عیسائی قوم کی طرف سے کوئی خطرہ باقی رہتا ہے اس وقت تک وہ اسلامی آزادی کے کاز کے لیے وقف رہیں گے۔ اسلام اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ ایک بھی ہندو اسلام کی آزادی پر مرنے کے لیے زندہ ہے چاہے اسلام کی آزادی کے لئے خون کی ندیاں ہی کیوں نہ بہہ جائیں۔ ان میں بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کا خون مل کر بہے گا۔‘
اس سے قبل جولائی 1919 میں ’آل انڈیا ہوم رول لیگ‘ کے وفد کے ممبر کی حیثیت سے وہ انگلینڈ گئی تھیں، لیکن طبیعت خراب ہو جانے کی وجہ سے وہیں رک گئیں۔ اسی درمیان سال 1920 میں ہندوستان سے مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک خلافت وفد انگلینڈ آیا، ان کے ساتھ مل کر مسز نائیڈو نے وہاں خلافت کے متعلق کئے گئے ناانصافیوں کے خلاف آندولن چلایا۔ انہوں نے 23 اپریل 1920 کو لندن کے کنگزوے ہال میں ہندوستانی خلافت وفد کی جانب سے منعقدہ ایک سبھا میں خلافت کے تئیں ناانصافی دور کرانے کا عہد کرتے ہوئے زوردار تقریر کی۔
اس تقریر میں انہوں نے انگریز سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’مسٹر محمد علی آپ کو ایک آزاد قوم کے ناقابل تسخیر جذبے اور اپنے مذہبی عقائد کی حفاظت کے لیے جان دینے کے عزم کے بارے میں بتا چکے ہیں لیکن میں جان دینے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ زندہ رہنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ ہمت کی ضرورت ہے۔‘ وہ یہاں مسلسل خلافت وفد کے ساتھ رہیں اور ان کے ساتھ خلافت کے حق میں اپنی آواز بلند کرتی رہیں۔
3 جون 1920 کو سروجنی نائیڈو کا ایک لیکچر ’پنجاب پر ظلم اور توہین‘ کے موضوع پر ہوا تھا۔ سروجنی نائیڈو کی واضح اور زوردار باتوں کی وجہ سے ولایت میں بڑی ہلچل مچ گئی۔ مسٹر مانٹیگو نے انہیں خط لکھا اور انہوں نے بھی اس خط کا منھ توڑ جواب دیا۔ اس تعلق سے لندن سے ہی 15 جولائی 1920 کو انہوں نے گاندھی جی کو بھی خط لکھا کہ ’میری صحت بہت خراب ہے، پھر بھی میں اپنی تمام تر قوت اور جذبات پنجاب اور خلافت کے دوہرے سوال پر صرف کررہی ہوں۔ لیکن ایک ایسی نسل سے جو طاقت کے نشہ میں سرشار اور اندھی ہے، جس کے دلوں میں نسل و رنگ اور عقیدہ و مذہب کا تعصب بھرا ہوا ہے اور جو ہندوستانیوں کی خواہشات و جذبات، رائے عامہ اور حالات سے اتنی لاپروائی برت رہی ہے کہ انصاف کی توقع کرنا بے کار ہے۔ دارالعوام میں گزشتہ ہفتے پنجاب پر ہوئی بحث سے میری رہی سہی امید ختم ہو گئی ہے۔ نیز برطانوی انصاف اور ایک نئے ہندوستان کے تصور کے تئیں ان کی نیک دلی اور خیر سگالی پر سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ ایوان میں ہوئی بحث مایوس کن اور افسوس ناک تھی۔ ہمارے دوستوں نے لاعلمی ظاہر کی اور دشمنوں نے اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔۔۔ یہ اشتراک تعجب خیز اور دل شکن ہے۔۔۔‘
اس خط میں انہوں نے گاندھی جی کو مسٹر مانٹیگو سے ہوئی خط و کتابت سے بھی واقف کرایا۔ گاندھی جی نے ان کے خط کے کچھ حصے کو ’ینگ انڈیا‘ میں شائع بھی کیا تھا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب میں کس طرح انگریزی فوج کے ذریعہ عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی، جس کے طرف سروجنی نائیڈو نے توجہ دلائی تھی۔
سروجنی نائیڈو نے ہندو مسلم اتحاد پر کافی زور دیا۔ جس طرح انہوں نے ہندو تہذیب کو بہت اونچی نظر سے دیکھا، اسی طرح وہ اسلام کے نظریات کی بھی مداح تھیں۔ ان کا واضح طور پر کہنا تھا کہ ’جب تک ہم ہندو مسلمان ایک دوسرے کو نہ جانیں گے تب تک ایک دوسرے کے دین دھرم کو نہ سمجھ سکیں گے، جب تک ہماری عورتیں ایک دوسرے کے گھر آئیں گی جائیں گی نہیں، جب تک ہمارے بچے ایک ساتھ نہیں کھیلیں گے ایک جیسی پڑھائی نہ پڑھیں گے تب تک ہم میں سچا اتحاد پیدا نہیں ہوگا۔‘
سروجنی نائیڈو کا پختہ یقین تھا کہ مذہب اسلام نے ہی سیاسی سلطنتیں پیدا کیں، جیسا کہ انہوں نے دسمبر 1917 میں مدراس کی ’مسلم ایسوسی ایشن‘ میں اپنی تقریر میں کہا تھا، ’سب سے پہلے اسلام نے ہی جمہوریت کی تعلیم دی اور اسے عملی شکل دی، کیونکہ جب مسجد میں نماز پڑھنے والے جمع ہوتے ہیں اور بادشاہ سے لے کر غریب تک سب ایک ساتھ گھٹنے ٹیک کر اپنی نمازوں کے وقت یہ اعلان کرتے ہیں کہ صرف ایک خدا ہی عظیم ہے، تب دن بھر میں پانچ بار اسلام کی جمہوریت زندہ دکھائی پڑتی ہے۔ اس ناقابل فہم اتحاد کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ حیران ہونا پڑتا ہے، جو فطرت کے اعتبار سے ہی ایک اجنبی آدمی کو بھی بھائی بنا دیتا ہے۔ لندن میں جب مصری، مغربی، ترکی اور ہندوستانی مسلمان جمع ہوتے ہیں تو ان کے بھائی چارگی میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ایک مصر کا اور دوسرا ہندوستان کا مسلمان ہے۔ اخوت کا یہی عظیم جذبہ اور انسانی انصاف کا یہی اعلیٰ علم اکبر کی حکومت نے ہندوستان کو فراہم کیا تھا۔‘
سروجنی نائیڈو کا مذہبِ اسلام اور اس کے پیروکاروں سے اتنا پیار کیوں تھا، یہ بھی انہیں کے الفاظ میں سن لیجئے۔ ’ہندوستان کے اہم مسلم شہر حیدرآباد میں میرا گھر ہے جہاں دو سو سالوں سے مسلمان تہذیب قیام پذیر رہی ہے۔ مسلم تہذیب جانتی ہے کہ کس طرح اپنے نظام کے اندر سبھی طبقوں کو مساوی حقوق دینا ہے۔ بچپن سے ہی میں اپنے شہر میں مسلمان مردوں اور عورتوں کے ساتھ ساتھ رہی ہوں اور بچپن میں ہی مسلم بچوں کے ساتھ کھیلتی رہی ہوں۔‘
مسز نائیڈو ہمیشہ مسلم کلچر اور مسلم طرز زندگی پسند کرتی تھیں۔ مولانا محمد علی، شوکت علی، محمد علی جناح اور دیگر مسلم لیڈر ان کے خاص دوستوں میں تھے۔ وہ 1916 میں مسلم لیگ کے لکھنؤ اجلاس میں شامل تھیں، جس نے قومی اور سماجی معاملات میں ہندوؤں سے تعاون کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس اجلاس میں انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا، ’میں نہیں جانتی کہ مجھے آج آپ کے سامنے کھڑے ہونے کا کیا حق ہے۔ سوائے اس کے کہ میں کئی سالوں سے مسلمانوں کی نوجوان نسل کی وفادار کامریڈ اور مسلم برادری کی خاتون علمبردار ہوں اور میں نے ان کے مردوں سے ان کے اُن حقوق کے لئے لڑائی کی ہے جو اسلام نے انہیں عطا کئے ہیں اور جو آپ نے اپنی عورتوں کو نہیں دیے ہیں۔۔۔‘ 1922 میں سروجنی نائیڈو نے کالی کٹ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کتنا برا برتاؤ ہو رہا ہے۔ ان کی اس تقریر کے بعد حکومت نے حکم دیا کہ آئندہ مسز نائیڈو کو اسٹیج پر نہ دیا جائے۔
سروجنی نائیڈو کی پیدائش حیدرآباد میں ڈاکٹر اگھورناتھ چٹرجی کے گھر 13 فروری 1879 کو ہوئی تھی۔ تب ان کا نام ’سروچنی چٹوپادھیائے‘ تھا۔ 1898 میں ڈاکٹر گووندا راجلو نائیڈو سے شادی کے بعد وہ سروجنی نائیڈو بن گئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر اگھورناتھ چٹرجی ایک بنگالی ہندو تھے۔ نواب مختار الملک اول کے زمانہ میں حیدرآباد آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
سروجنی نائیڈو کی ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں ہوئی، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ یوروپ چلی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ بچپن سے ہی ان کو شاعری کا شوق تھا۔ شاعری انہیں اپنے والدین سے ورثے میں ملی تھی۔ ان کی بے مثال ادبی اور سیاسی خدمات کی بنا پر ان کو بلبلِ ہند کے لقب سے پکارا گیا۔ سروجنی نائیڈو کی 1914میں گاندھی جی سے لندن میں ملاقات ہوئی۔ اس سے قبل وہ گوپال کرشن گوکھلے کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگی تھیں۔ آزادی کے بعد سروجنی نائیڈو کو اتر پردیش کا گورنر بنایا گیا۔ اسی دوران 2 مارچ 1949 کو وہ آنجہانی ہو گئیں۔
"ہم ہندوستان کے ہندو اور مسلمان بھائیوں کے ساتھ ایک دوہرے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ وہ ہمارے ملک کی اقلیت ہیں اور دوسرے اس لیے کہ بہادری و شجاعت اور محبت کے تقاضوں کے تحت ہر ہندو مرد اور عورت نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ جب تک کمال پاشا کی تلوار پوری عظمت کے ساتھ بلند نہیں ہو پاتی اور جب تک اسے عیسائی قوم کی طرف سے کوئی خطرہ باقی رہتا ہے اس وقت تک وہ اسلامی آزادی کے کاز کے لیے وقف رہیں گے۔ اسلام اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ ایک بھی ہندو اسلام کی آزادی پر مرنے کے لیے زندہ ہے چاہے اسلام کی آزادی کے لئے خون کی ندیاں ہی کیوں نہ بہہ جائیں۔ ان میں بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کا خون مل کر بہے گا۔ ” (سروجنی نائیڈو)
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021