سرکاری ادارے پیشہ ور ہیکروں کےنشانے پر، سائبر سیکورٹی پر ایک مرتبہ پھر اٹھے سوالات 

جی ۔20کی صدارت سے بھارت کو کتنا فائدہ ہوگا، طویل انتظارکی ضرورت

احتشام الحق آفاقی

الیکشن کمیشن کی خود مختاری کو تباہ کرنے میں تمام حکومتوں کا کردار یکساں 
وزیر قانون کا مقصد عدالت کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچانا۔اخبارات کی رائے
جی۔ 20کی صدارت شروع کرنے سے پہلے ہی، وزیر اعظم نریندر مودی نے واضح کیا کہ ہندوستان اس مدت کے دوران دنیا میں اتحاد کے عالمگیر جذبے کو فروغ دے گا۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ یہ جنگ کا دور نہیں ہے۔ ہندوستان اگلے سال نومبر تک G-20 کا چیئرمین بن گیا ہے۔ آج دنیا ہندوستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے چاہے وہ کورونا ویکسینیشن کا معاملہ ہو یا یوکرین پر روس کے حملے کے بعد کی صورتحال، عالمی سطح پر ہندوستان کی حیثیت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہندوستان ترقی پذیر اور غریب ممالک کی جانب سے مسلسل آواز اٹھا رہا ہے۔ اس ضمن میں نَو بھارت ٹائمز نے اپنے دو دسمبر کے اداریہ میں لکھا کہ "وزیر اعظم نریندرمودی نے کہا ہے کہ ہندوستان اپنی G-20 ترجیحات کا تعین دنیا کے جنوبی حصے کے ساتھی ممالک کے ساتھ مشاورت سے کرے گا، جن کے خیالات کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔  ہندوستان کی حیثیت اس لیے بھی بڑھی ہے کہ اس نے سپر پاور کی سیاست سے خود کو بچاتے ہوئے ہمیشہ معاشی اور انسانی ترقی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ آج جب دنیا کے کئی ممالک کساد بازاری میں گھرے ہوئے ہیں تو ہندوستان اس مالی سال میں تقریباً سات فیصد کی ترقی حاصل کرنے والا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ہندوستان نے عالمی قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن انہوں نے G-20 کی صدارت ایک ایسے وقت میں سنبھالی ہے جب دنیا ایک زبردست بحران سے گزر رہی ہے۔  G-20 کے 19 رکن ممالک میں سے تین میں افراط زر کی شرح 10 فیصد سے زیادہ ہے، جب کہ 7 میں یہ 7.5 سے 10 فیصد کے درمیان ہے۔یوکرین جنگ کی وجہ سے اس وقت توانائی اور فوڈ چین کی حالت بھی ابتر ہوچکی ہے۔ اسی لیے وزیر اعظم مودی نے یوکرین میں جنگ روکنے کے لیے بات چیت کی اپیل کی ہے۔ بالی میں منعقدہ G-20 کی پچھلی میٹنگ میں آخرکار چین کو وہی بات کہنا پڑی، جو پی ایم مودی نے شنگھائی کوآپریشن سمٹ سے ہی کہنی شروع کی تھی اور جسے روس نے والدائی فورم میں سمجھا تھا۔ بالی سمٹ میں بھارت کی کوششوں کی وجہ سے ہی مشترکہ بیان جاری کیا جا سکا۔  G-20 کی صدارت کے دوران ہندوستان کے پاس عالمی ایجنڈا طے کرنے کا موقع ہے اورحکومت کا منصوبہ بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ تاہم ہمیں اس سلسلہ میں طویل انتظار کرنا پڑے گا کہ بھارت جی-20 کی صدارت کا فریضہ انجام دے کر کس طرح دنیا سے اپنی طاقت کا لوہا منواتا ہے۔
بھارت سپرپاور بننے کی راہ پر گامزن
ہندی روزنامہ جاگرن نے میں اپنے اداریہ میں لکھا کہ : ’’یہ ایک مشکل کام ہے، لیکن جس طرح سے وزیر اعظم نریندر مودی  کی وجہ سے ماضی قریب میں بین الاقوامی فورمز  پر  بھارت کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے، اس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کساد بازاری کے درمیان اقتصادی تعاون قائم کرنے میں کامیاب ہو گا۔ توانائی کے بحران کو حل کرنے اور دہشت گردی کے خلاف حقیقی معنوں میں مضبوطی سے لڑنے کے لیے رکن ممالک کے درمیان ٹھوس اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہو گا۔ یہ اس لیے متوقع ہے کیونکہ بھارت نے اپنی آزاد اور مضبوط خارجہ پالیسی سے دنیا کے تمام بڑے ممالک کو متاثر کیا ہے۔ اخبار نے مزید لکھا کہ  ’’اس بات پر یقین کرنے کی اچھی وجوہات ہیں کہ G-20 کی صدارت سے ہم وطنوں کو بھارت کے بڑھتے ہوئے قد کا ادراک کرنے اور ان میں فخر کا احساس پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ شاید اسی لیے ملک کے پچاس سے زائد شہروں میں دو سو سے زائد پروگرام منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ بھارت کی بین الاقوامی شبیہ کو بہتر بنانے کے علاوہ یہ پروگرامس ملک کے لوگوں کو یہ پیغام دینے کا کام بھی کریں گے کہ بھارت سپر پاور بننے کی راہ پر گامزن ہے۔‘‘
فرقہ وارانہ کشیدگی کے شکار بھارت کو چیلنجز
دی ہندو نے بھی اس موضوع پر اپنے اداریہ میں لکھا کہ : ’’علامت اور لاجسٹکس کے معاملے میں ہم آہنگی کو ایک طرف چھوڑ کر، حکومت کے پاس G-20 کے لیے ایک مربوط ایجنڈا حاصل کرنے کے لیے ٹھوس مذاکرات کرناایک مشکل کام ہوگا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی، سپلائی چین میں خلل اور عالمی انضمام پر توجہ مرکوز کریں گے۔ G20 کا پہلا سربراہی اجلاس 2008 میں امریکہ  کے اندر  عالمی مالیاتی بحران کے درمیان منعقد ہوا تھا۔ 2022 میں، نریندر مودی اور ان کی ٹیم کے لیے   یہ اتنا ہی مشکل کام ہے  جتنا  کہ یوکرین میں روس کی جنگ کے طویل المدتی اثرات، گہرا ہوتا ہوا  مغربی توانائی بحران، معاشی سست روی، وبائی امراض کے خدشات اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل  مشکل ترین   ہیں۔
گلوبلائزیشن اور ایک دوسرے سے جڑےہوئے مسائل عالمی معیشت کے لیے درد سر ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ  ’’ بھارت اجتماعی فیصلہ سازی کی اپنی روایت کے ذریعے G-20 کے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گا۔ یہ بھارت میں کسی موضوع پر قومی اتفاق رائے کے مترادف ہے، جس میں لاکھوں آزاد آوازیں ایک دھن میں متحد ہوں گی۔‘‘ ایک ایسے وقت میں جب بھارت خود معاشی بحران اور سماجی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار ہے، حکومت کو ایسے نظریات کو اپنے طور پر نافذ کرنے کے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جی-20 صدر کے طور پر ہندوستان کے عالمی وقار میں اضافہ اور عالمی بیانیہ کو تشکیل دینے کی اس کی طاقت کو دیکھتے ہوئے، حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ زیادہ طاقت کے ساتھ زیادہ ذمہ داریاں  آتی ہیں ۔
عوامی معلوماتی ذخائر پر خطرے کی گھنٹی
ایک ہفتہ قبل ایمس کے سرور میں خرابی کی اطلاع ملی تھی۔  اس کے بعد تکنیکی ماہرین کی مسلسل کوششوں کے باوجود اسے پہلے کی طرح بازیافت کرنے میں کامیابی نہیں مل سکی۔  خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سرور میں موجود تقریباً تین سے چار کروڑ لوگوں کا تمام ڈیٹا، سابق وزرائے اعظم، وزراء، بیوروکریٹس جیسی خاص اور مشہور شخصیات اور ان کی صحت کے بارے میں درج تفصیلات یا ڈیٹا چوری ہو گیا ہے۔  سوال یہ ہے کہ کیا ان کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے؟  فی الحال متعلقہ محکموں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اسے ٹھیک ہونے میں مزید کچھ دن لگ سکتے ہیں لیکن اس واقعے کے ساتھ ہی اس سے جڑے خطرات کے بارے میں ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔ جن ستّا نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ ’’یہ صرف کام کرنے میں دشواری کا مسئلہ نہیں ہے۔  ایمس کے تمام قسم کے کام کے لیے ایک متوازی متبادل نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔  فی الحال کام عام یا پرانے طریقے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔  لیکن جس طرح مریضوں سے متعلق تمام سسٹمس کو ڈیجیٹلائز کیا گیا ہے، ان کی چوری شاید دور رس سطح پر مہلک حالات پیدا کر سکتی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ ایمس کے سرور کے ہیک ہونے کے بعد سائبر سیکورٹی پر گہرے سوالات اٹھ رہے ہیں۔’’ اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر کسی بھی ادارے یا کمپنی کی ویب سائٹ ہیک ہونے کی خبریں آتی رہی ہیں اور اسی کے پیش نظر اس کے خطرات کی نشاندہی بھی کی جا چکی ہے۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ ملک کے شہریوں کے بارے میں حساس ترین معلومات اکٹھا کرنے کے بعد انہیں ڈیجیٹل شکل میں رکھنے کی سہولتوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے، لیکن اب تک ان کی مکمل حفاظت کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔
الیکشن کمیشن کی خود مختاری پر عدالت عظمیٰ کا تبصرہ
الیکشن کمیشن کی آزادی پر بار بار جہاں ایوانوں میں بحث ہوتی رہی ہے وہیں اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے بھی دبے لفظوں میں ہی سہی متعدد بار الیکشن کمیشن کے کام کاج پر انگشت نمائی کا کام کیا  جاتا رہا ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے لیکن اس کی خود مختاری کئی دہائیوں سے زیر اثر ہے۔  چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنر کے طور پر حاضر سروس بیوروکریٹس کی تقرری کے موجودہ نظام پر سوال اٹھانے والی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے سخت ترین تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’چاہے کانگریس کی زیر قیادت یوپی اے کی حکومت رہی ہو یا موجودہ این ڈی اے  کی ،یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے اس کی آزادی کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔‘‘آخر یہ سپریم کورٹ کو کیوں کہنا پڑا؟ یہ واقعی غور کرنے والی بات ہے۔ ہندی روزنامہ پنجاب کیسری نے 24 نومبر کے اداریہ میں سپریم کورٹ کے اس تبصرہ کو من و عن نقل کیا ہے۔ تاہم اس متعلق اخبار نے کوئی رائے دینے سے گریز کیا ہے۔
عدالتی تقرریوں پر دو طرفہ جھگڑا
مرکزی حکومت عدالتی تقرریوں پر عدلیہ کے ساتھ جھگڑا جاری رکھنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے۔ تنازعہ اب دو طرفہ ہے۔ ایک طرف مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو کی طرف سے آئے دن الزامات لگ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے کالیجیم کے نظام پر سخت تنقید کرنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔ وہ مسلسل حملہ آور ہیں اور اب انہوں نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر عدالت کو محسوس ہوتا ہے کہ حکومت فائل دبا کر بیٹھ گئی ہے تو عدالت ان کو کوئی فائل نہ بھیجے۔ دوسری طرف، حکومت نے تقرریوں جے سلسلے میں کالیجیم کی طرف سے بھیجی گئی سفارشات میں تاخیر کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی تقرریوں میں کالیجیم کی اولین حیثیت کے جوابی وزن کے طور پر تاخیر کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ کالیجیم کی طرف سے بار بار بھیجے گئے ناموں کو منظور نہ کرنے پر حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی بنچ نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا حکومت فائلوں پر عمل نہیں کر رہی ہے؟ کیونکہ عدالت نے نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ کے سلسلے میں احکام جاری کرتے ہوئے اسے نافذ کرنے کی اجازت نہیں دی تھی! بہت سے لوگ مسٹر رجیجو کے اس الزام سے اتفاق کریں گے کہ کالیجیم کا نظام شفاف نہیں ہے۔ تاہم، ان کے تضحیک آمیز تبصرے سے یہ بات واضح ہورہی تھی کہ ان کے تبصرہ کا مقصد عدالت کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچانا تھا۔ حکومت مروجہ قانونی اصولوں کی بھی خلاف ورزی کر رہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت اپنے اعتراضات پر غور کرنے کے بعد کالیجیم کی طرف سے بار بار کی گئی سفارشات کو قبول کرنے کی پابند ہوگی۔اس ضمن میں دی ہندو نے اداریہ میں اس بات پر زور دیا کہ حکومت مسلسل عدالت کی شبیہ کو مجروح کرنے کا کام کررہی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022