سماجی اتحاد کے قاتل بہروپئے

مسلم قوم کو بدنام کرنے اور ذاتی بدلہ لینے کےلیے انیل بنا بلال

ابو حرم ابن ایاز شاہ پوری

ایودھیا اور دلی میٹرو اسٹیشن کو بم سے اڑانے کی دھمکی ۔میاں بیوی گرفتار
بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں کی گنگا جمنی تہذیب اپنی انفرادیت کی وجہ سے ساری دنیا میں ایک الگ اور منفرد جمہوری پہچان رکھتی ہے لیکن ماضی قریب میں چند ایسے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں اور تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں جو اس کی شناخت کو داغ دار کررہے ہیں۔ چند متعصب گروپوں کی طرف سے ملک کی دو بڑی قوموں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بعض مسائل کو اس قدر ہوا دی گئی کہ باہمی کشیدگیاں حد سے تجاوز کر گئیں۔ ایک فریق یعنی مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرکے ان کی شناخت اس قدر مسخ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ کہیں بھی کوئی فساد یا ہنگامہ ہو اس کو فوراً مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ خواہ اس واقعہ کا ذمہ دار کوئی مسلم ہو یا نہ ہو۔ انتہا تو اس وقت ہوتی ہے جب انہی افواہوں پر یقین کر کے پولیس چند معصوم اور بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار بھی کرلیتی ہے، عدالتوں میں مقدمے چلتے ہیں اور عمر عزیز کے قیمتی سال زندان کی تاریکیوں میں برباد کرنے کے بعد عدالت یہ فیصلہ سنا کر انہیں بری کر دیتی ہے کہ ملزمین کے خلاف کوئی بھی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کے خلاف زوردار آواز اٹھانے اور اس کی روک تھام کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص کر جہاں جرم کو انجام دینے والا غیر مسلم ہوتا ہے لیکن اپنے آپ کو مسلم ظاہر کرتے ہوئے جرم کو انجام دیتا ہے تاکہ پوری مسلم قوم بدنام ہو جائے۔ بعد میں جب غیر جانبدارانہ تحقیقات سامنے آتی ہیں تب پتہ چلتا ہے کہ خود کو مسلم ظاہر کرنے والا شخص مسلم نہیں بلکہ کسی اور مذہب کا پیروکار تھا۔ چنانچہ حال ہی میں بالکل اسی طرح کا واقعہ پیش آیا جب انیل رام داس گھوڈکے نامی شخص نے بلال نام رکھ کر ایک نہایت ہی گھناؤنی حرکت کی۔
واقعہ یہ ہے کہ پچھلے دنوں ایک صبح ایودھیا میں رہنے والے منوج کمار نامی شخص کے پاس فون کال آتی ہے جس سے کہا جاتا ہے کہ ابھی چند گھنٹوں کے اندر زیر تعمیر رام مندر کامپلکس بم سے اڑایا جانے والا ہے اور دلی کے میٹرو اسٹیشن پر بھی دھماکہ ہوگا۔ فون رکھتے ہی منوج کمار نے مقامی تھانے میں اس بات کی رپورٹ درج کروائی اور پولیس نے بھی فوری اپنی تحقیقات شروع کردی اور سب سے پہلے دلی میں مقیم بلال نامی شخص کو حراست میں لے لیا کیونکہ فون نمبر بلال کے نام کی نشاندہی کررہا تھا لیکن جب بلال پولیس کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگیا کہ اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ بے قصور ہے اور کسی نے اس کو پھنسانے کے لیے اس کے خلاف یہ سازش رچی ہے تو پولیس نے بھی کچھ سنجیدگی سے کام لیا کیونکہ یہ رام مندر کی حفاظت کا معاملہ تھا اور اس نے از سرنو کیس کی تحقیق شروع کردی اور جس نمبر سے کال آیا تھا اس فون کے آئی پی ایڈریس کو ٹریک کیا گیا تب پتہ چلا کہ یہ فون کال چنئی سے انٹرنیٹ کے ذریعے کی گئی تھی اور وہ فون بلال کا نہیں بلکہ انیل رام داس گھوڈکے کا تھا جس نے انٹرنیٹ کے ذریعہ بلال کے نام سے فون کیا تھا۔ پولیس نے فورا انیل کو مہاراشٹر سے گرفتار کرلیا اور اس کے ساتھ اسکی بیوی ودیا شنکر دھوترے کو بھی حراست میں لے لیا کیونکہ وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ جرائم میں شریک رہی تھی۔ جب پولیس نے انیل، اس کی بیوی اور بلال سے تفتیش کی تو پتہ چلا کہ دو سال قبل انیل نے بھیس بدل کر ’بابا موسیٰ جان‘ کے روپ میں بلال کی بہن سے تعلقات قائم کیے تھے اور اپنی ازدواجی حیثیت کے بارے میں بھی اسے اندھیرے میں رکھ کر پچھلے دو سال سے اس کا استحصال کر رہا تھا اور پیسے بھی بٹو رہا تھا، لیکن جب لڑکی کو کسی ذریعہ سے پتہ چلا کہ یہ ’موسیٰ‘ شادی شدہ ہے تو ان دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے جس کے بعد انیل نے بلال کی بہن کو بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ جب معاملہ حد سے بڑھ گیا تو لڑکی نے ساری داستان اپنے گھر والوں کو سنا دی جس کے بعد بلال نے انیل سے رابطہ کیا ان دونوں کے درمیان بحث و تکرار ہوئی اور بلال نے انیل کو اپنی بہن سے دور رہنے کی تاکید کی اور سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ یہ بات انیل کو بہت بری لگی اور اس نے بلال سے بدلہ لینے کی ٹھان لی اور خود کو بلال بتاکر انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ایودھیا کے منوج کمار کو دھمکی آمیز فون کال کیا تاکہ بلال کو پولیس گرفتار کرکے مجرم قرار دے اور اسکا بدلہ پورا ہوسکے۔ لیکن پولیس نے اس کی اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ جب پولیس نے مزید تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ انیل اور اس کی بیوی خود کو مسلمان بتاکر اب تک کئی لوگوں کو دھوکہ دے چکے ہیں، ان کے گھر کی تلاشی لینے پر مصحف کے نسخے، تعویذ اور ٹوپیوں کے ساتھ نو عدد موبائل فونز، کئی بینکوں کی چیک بکس سمیت متعدد دستاویزات، نظر ثانی شدہ آدھار کارڈ اور مزید کئی قابل اعتراض اشیاء بھی برآمد ہوئیں۔
صرف یہی ایک معاملہ ایسا نہیں جس میں جرم کا ارتکاب کرنے والے غیر مسلم ہیں اور نام مسلمانوں کا اچھالا گیا ہو بلکہ اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات اپنے ملک میں بارہا پیش آچکے ہیں جیسا کہ ماضی قریب میں دلی کی شردھا واکر اور اس کے قتل کی واردات اخبارات کی سرخیوں میں رہی اور اسی سے متعلق سکندرآباد کے راشد خان نامی شخص نے شردھا کے قاتل کی حرکتوں کو درست قرار دیتے ہوئے میڈیا کے روبرو کہا تھا کہ ’’اس طرح کی باتیں (یعنی قتل کرنے کی باتیں) غصے میں ہوجاتی ہیں۔اس نے مزید یہ بھی کہا تھا کہ نعش کے 35 نہیں بلکہ 36 ٹکڑے بھی ہوسکتے ہیں‘‘ جب یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی اور اس پر کارروائی کرنے کے مطالبات میں تیزی آئی تو پھر پولیس نے تحقیقات شروع کیں اور پتہ چلا کہ خود کو راشد خان ظاہر کرنے والے شخص کا اصل نام وکاس کمار ہے اور اس نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے بھیس بدل کر اس قسم کی اشتعال انگیز بیان بازی کی تھی۔ جب تک اس شخص کا نام راشد خان رہا سارا میڈیا مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہا اور مسلمانوں پر کئی طرح کے الزامات لگاتا رہا لیکن جونہی پتہ چلا کہ یہ ہندو ہے تو سارے گلے پھاڑنے والوں کے گلوں میں جیسے کوئی چیز پھنس گئی، سب پر غشی طاری ہو گئی اور سب یکلخت خاموش ہو گئے جیسے انہیں سانپ نے سونگھ لیا ہو۔
اسی طرح پچھلے دنوں ایک لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کا معاملہ بھی خبروں کی زینت بنا اور اس ضمن میں کئی لوگوں نے مل کر ملزم شخص کو بری طرح مارا پیٹا اور اس کا ویڈیو بھی بنایا گیا اور یہ خبر عام کردی گئی کہ چھیڑنے اور مار کھانے والے شخص کا نام شاہ رخ ہے اور وہ میرٹھ کا رہنے والا ہے، لیکن بعد میں افواہوں کا پردہ فاش کرنے والے محمد زبیر نے ٹویٹ کرکے کہا کہ فیکٹ چیکنگ سے پتہ چلا کہ اس ویڈیو میں موجود مجرم شخص میرٹھ کا شاہ رخ نہیں بلکہ چنڈی گڑھ کا پون کمار ہے، نیز یہ واقعہ بھی بہت پرانا ہے جسے اب کسی اور کے نام سے پھیلایا جا رہا ہے، یعنی جرم ہندو نے کیا اور سزا بھی بھگتا لیکن بدنام کرنے کے لیے مسلمان کا نام آگے کر دیا گیا۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ حال ہی میں اتر پردیش کے غازی آباد میں بھی پیش آیا جس میں ایک سڑک کے کنارے انوج اور آکاش ورما نامی دو نوجوانوں پر حملہ کیا گیا اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔ جب پولیس نے زخمیوں سے پوچھ تاچھ کی تو انہوں نے سمیر اور الطاف نام کے دو مسلمانوں کا نام لیا اور کہا کہ انہوں نے حملہ کرتے ہوئے ’سر تن سے جدا‘ بھی کہا تھا جس پر پولیس نے آناً فاناً دونوں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرلیا، پھر جب ان کے گھر والوں نے منصفانہ تحقیقات کے لیے زور دیا تو پولیس نے جائے واقعہ کے اطراف و اکناف میں تلاشی لینی شروع کی تو ایک سی سی ٹی وی کے ذریعہ یہ حقیقت سامنے آئی کہ حملہ آور سمیر اور الطاف نہیں بلکہ سنجو اور راکیش ہیں جنہوں نے اپنا جرم بھی قبول کیا اور زخمیوں نے بھی ان کی شناخت کرلی۔ مسلمانوں کے خلاف تعصب میں اندھے بن جانے والوں کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ زخمی حالت میں بھی بدنام کرنے کے لیے مسلم ناموں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ایسے دسیوں واقعات معاشرے میں نظر آتے ہیں جہاں مسلمانوں کو پھنسانے کی ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جمہوریت کے نام لیواؤں کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے معاملات کی روک تھام کے لیے حکومت سے سخت اقدامات کا مطالبہ کرے اور میڈیا کو بھی چاہیے کہ مظلوموں کی طرف دار رہے، انہیں انصاف دلانے کے لیے حکومت سے مطالبہ کرے اور حقائق عوام کے سامنے پیش کرے نہ کہ اکثریتی طبقہ کی نمائندگی کے جوش میں حق و انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دے کیونکہ اس قسم کے واقعات پر جانبدار و متعصب میڈیا کے رول کا راست نقصان پورے ملک کو پہنچ رہا ہے۔ میڈیا کے کرتوتوں کی وجہ سے ملک کئی ٹکڑیوں میں بٹا ہوا ہے۔ اگر ہمارے ملک کو ساری دنیا میں سُپر پاور بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہو تو سب سے پہلے ملک کے شہریوں کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی کیونکہ نفرت و عصبیت اور باہمی اختلاف و انتشار سے ملک کبھی بھی حقیقی معنوں میں وشو گرو نہیں بن سکتا۔ اگر خود کو ساری دنیا سے منوانا ہے اور اپنا مقام اونچا بنانا ہے تو ہمیں اتحاد و اتفاق اور پیار و محبت سے آپس میں مل جل کر کام کرنا ہوگا تب کہیں جاکر کوئی مثبت نتیجہ سامنے آسکتا ہے بقول علامہ اقبال :
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 فروری تا 25 فروری 2023