صحافت کیجیے، کسی کے ایجنٹ نہ بنیں

میڈیا ٹرائیل کے خطرناک رجحان کا سدباب ضروری

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

حال ہی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے اتحاد مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بلاک کی تشکیل دیا ہے، اور اس کا نام ایسا رکھا جس کا مخفف انڈیا بنتا ہے، جیسے ہی حزب اختلاف متحد ہوگیا اس وقت سے برسرِ اقتدار بی جے پی کے پیٹ میں درد شروع ہوگیا ہے۔ وہ اب اس بلاک کو اس کا نام لے کر کوس بھی نہیں سکتی، لہٰذا انہوں نے ملک کا نام بھارت استعمال شروع کر دیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے برسرِ اقتدار گروہ حزب اختلاف سے کس قدر نفرت کرتا ہے کہ اس نے جیسے ہی اپنا نام انڈیا رکھا، اس نے انڈیا نام کا استعمال ہی ترک کر دیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ جب دلی میں جی-20 ممالک کا اجلاس منعقد ہو رہا تھا اس وقت سربراہان ممالک کو صدر جمہوریہ کی جانب سے دیے جانے والے عشائیہ کے دعوت نامے میں بھارتی صدر لکھا گیا۔ اجلاس میں جب سارے ممالک کے نام لکھے جاتے ہیں تو اس میں بھی ہمارے ملک کا نام بھارت لکھا گیا۔ اس سے برسرِ اقتدار گروہ کی بوکھلاہٹ ظاہر ہو رہی ہے۔
حزب اختلاف کے اس گروہ نے طے کیا گیا کہ روزآنہ کی اساس پر نفرتی ایجنڈہ چلانے والے، ایک مخصوص طبقے کے خلاف نفرت پھیلانے والے چند مخصوص اینکروں کے پروگراموں میں حصہ نہ لیا جائے۔ دراصل یہ اینکرس مباحثہ نہیں کراتے ہیں بلکہ یکطرفہ کارروائی چلاتے ہیں۔ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت بھری ہوئی ہے کہ انہیں ہر مسئلے میں مسلمان ہی ذمہ دار نظر آتے ہیں۔ چاہے معاملہ کوئی بھی ہو، وہ اس میں مسلم پہلو نکال لیتے ہیں۔ بحث اس وقت بام عروج پر پہنچ جاتی ہے جب ہمارے کچھ نادان دانشور اس میں حصہ لیتے ہوئے اپنی بے عزتی کرواتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی بے عزتی کرواتے ہیں بلکہ وہ نادانستہ طور پر ساری امت کو مجرم بنانے کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ بارہا ان دانشور حضرات کو تنبیہ کی گئی ہے کہ ان نفرت انگیز مباحث میں حصہ نہ لیں، لیکن وہ ان میں برابر حصہ لیتے ہوئے امت کی بے وقعتی کراتے ہیں اور ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔
جن چودہ اینکروں کی فہرست جاری کی گئی ہے ان میں تقریبا سبھی کا تعلق گودی میڈیا سے ہے۔ گودی میڈیا یعنی مودی کے ‘میتروں’ کے نیوز چینلز۔ اصل میں یہ نیوز چینلز بی جے پی کی پروپیگنڈا مشینری ہے، وہ صرف بی جے پی کا گانا گانے والے طوطے ہیں۔ یہ وہی بولتے ہیں جو ان کے آقا حکم کرتے ہیں، انہیں سماجی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر ان کے لب سل جاتے ہیں، دلتوں اور قبائلیوں کے خلاف ہونے والے عدم مساوات اور نا انصافیوں کو دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کہتے۔ افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب کوئی مسلم یا دلت یا قبائلی پر کیے گئے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو یہ اینکر بات کا رخ بدلتے ہوئے پچھلی دور حکومت میں پیش آئے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔ مسلمان تو ان کی مرغوب غذا بنے ہوئے ہیں، جب کوئی مسلمان کسی مسئلے میں گرفتار ہو جاتا ہے تو اس کا مقدمہ نیوز رومز میں لڑا جاتا ہے اور اسے مجرم قرار دے دیا جاتا ہے، یعنی اس کا ٹریلر ان ہی کے پاس ہوجاتا ہے، گویا کہ یہی جج ہوں۔
ملک میں نفرت کے ماحول کو پروان چڑھانے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے، اسی کے تناظر میں حزب اختلاف کے اتحادی بلاک انڈیا نے جمعرات 14 ستمبر کو 14 نیوز اینکروں کی فہرست جاری کی اور کہا کہ ان کی جانب سے منعقد کیے جانے والے پروگراموں میں اس کے نمائندوں کو نہیں بھیجا جائے گا۔ اس فہرست میں ادیتی تیاگی (بھارت ایکسپریس) امان چوپڑا (نیوز 18 انڈیا) امیش دیوگن (نیوز 18 انڈیا)، آنند نرسمہن (سی این این نیوز 18) ارنب گوسوامی (ریپبلک ٹی وی) اشوک شریواستو (ڈی ڈی نیوز) چترا ترپاٹھی (آج تک) گورو ساونت (انڈیا ٹوڈے) نویکا کمار (ٹائمز ناؤ) پراچی پراشر (انڈیا ٹی وی) روبیکا لیاقت (بھارت 24) شیو ارور (انڈیا ٹوڈے) سدھیر چودھری (آج تک) اور سوشانت سنہا (ٹائمز ناؤ) اب نوبھارت) شامل ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے کہا کہ ان شوز میں شرکت نہ کرنے کے اقدام کو "بائیکاٹ” کے طور پر نہیں بلکہ "تحریک عدم تعاون” کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم نے کسی پر پابندی نہیں لگائی ہے، کسی کو بائیکاٹ یا بلیک لسٹ نہیں کیا ہے۔ یہ تحریک عدم تعاون ہے، ہم معاشرے میں نفرت پھیلانے والوں سے تعاون نہیں کریں گے۔ ہم انہیں نفرت پھیلانے سے نہیں روک رہے ہیں، آپ نفرت پھیلانا چاہتے ہیں تو پھیلائیں، آپ کو کرنے کی آزادی ہے، آپ کریں، لیکن ہمیں بھی آزادی ہے کہ ہم اس جرم میں شریک نہ ہوں۔”
اس عمل سے بھلا بی جے پی کیسے خوش رہتی، وہ تو چراغ پا ہو گئی، حزب اختلاف کے اتحاد کو بی جے پی ‘گھمنڈیا’ اتحاد کہتی ہے، اس نے کہا کہ ان کی جانب سے یہ فیصلہ جابرانہ ایمرجنسی کے وقت کی یاد دلاتا ہے میڈیا کا بائیکاٹ ان کی ایمرجنسی کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ بی جے پی نے خود کچھ سال قبل ایک نیوز چینل کا بائیکاٹ کر رکھا تھا، وہ اس کے پروگرام میں نہیں جاتی تھی، خود کا عمل باعث ثواب اور اگر وہی عمل کوئی دوسرا کرے تو گناہ؟ درحقیقت آج صحافت کا وہ معیار باقی نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ جب سے ان نیوز چینلوں پر مباحث کا آغاز ہوا ہے تب سے ماحول میں نفرت انگیزی اور اشتعال انگیزی خوب پنپ رہی ہے۔ عوام دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو سماج میں نفرت پھیلانے میں لگا ہوا ہے اور دوسرا گروہ مظلوم طبقات کا ہے جو ظلم سہتا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج میں پھیلی ہوئی نفرت انگیزیوں کا خاتمہ ہو، امن و امان قائم ہو اور ایک میڈیا ہاؤس بھی ہو جو حقیقت حال سے عوام کو واقف کروائے جو عوام کا حقیقی ترجمان ہو۔
***

 

***

 جن چودہ اینکروں کی فہرست جاری کی گئی ہے ان میں تقریباً سبھی کا تعلق گودی میڈیا سے ہے۔ گودی میڈیا یعنی مودی کے ’متروں‘ کے نیوز چینلز۔ اصل میں یہ نیوز چینلز بی جے پی کی پروپیگنڈا مشنیری ہے، وہ صرف بی جے پی کا گانا گانے والے طوطے ہیں۔ یہ وہی بولتے ہیں جو ان کے آقا حکم کرتے ہیں، انہیں سماجی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر ان کے لب سل جاتے ہیں، دلتوں اور قبائلیوں کے خلاف ہونے والے عدم مساوات اور نا انصافیوں کو دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کہتے۔ افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب کوئی مسلم یا دلت یا قبائلی پر کیے گئے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو یہ اینکر بات کا رخ بدلتے ہوئے پچھلے دور حکومت میں پیش آئے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔ مسلمان تو ان کی مرغوب غذا بنے ہوئے ہیں، جب کوئی مسلمان کسی مسئلے میں گرفتار ہو جاتا ہے تو اس کا مقدمہ نیوز رومز میں لڑا جاتا ہے اور اسے مجرم قرار دے دیا جاتا ہے، یعنی اس کا ٹریلر ان ہی کے پاس ہوجاتا ہے، گویا کہ یہی جج ہوں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2023