مولانا محمد یوسف اصلاحی ؒ
ارشاد ربانی ہے:
اے ایمان والو ! فرض کردیے گئے تم پر روزے جس طرح تم سے پہلے کی امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ گنتی کے چند دنوں کے روزے۔ پھر جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرے۔ اور جو لوگ (مسکین کو کھانا کھلانے کی طاقت رکھتے ہوں ان پر ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے اور جو کوئی دل کی خوشی سے مزید بھلائی کرے تو یہ اور زیادہ اس کے حق میں بہتر ہے۔ اور روزہ رکھ لینا ہی تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھ سے کام لو۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو سارے انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو سیدھا راستہ دکھانے والی، حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ پس اب جو شخص بھی تم میں سے اس مہینے کو پائے وہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔
(سورہ بقرہ آیت 183تا185)
پہلی آیت سے واضح ہوتا ہے کہ روزہ مسلمانوں پر فرض ہے اور یہ نہایت ہی اہم فرض ہے، اس اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے قرآن کی اس آیت میں تین اشارے ہیں ۔
1- قرآن نے سادہ انداز میں یہ نہیں کہا کہ روزہ رکھو بلکہ نہایت اہتمام کے ساتھ اور تاکیدی انداز اختیار کیا کہ روزہ تم پر فرض کر دیا گیا۔
2- پھر فرمایا: تم سے پہلی امتوں پر بھی روزہ ہمیشہ فرض رہا ہے۔ یہ محض تاریخی واقعہ کا اظہار نہیں ہے بلکہ تربیت و تزکیہ کے باب میں روزے کی جو اہمیت ہے اس کو ظاہر کرنا مقصود ہے۔ نفس انسانی کی تربیت و تزکیہ میں روزے کو خصوصی دخل ہے، اس عمل میں کوئی دوسری عبادت اس کا بدل نہیں بن سکتی۔ گویا تربیت و تزکیہ کا کورس اس کے بغیر پورا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے خدا نے ہر نبی کی امت پر روزہ فرض کیا اس کے احکام مختلف شریعتوں میں حالات اور ضرورت کے لحاظ سے ضرور مختلف رہے لیکن بحیثیت ایک اہم رکن یہ ہمیشہ ہر امت پر فرض رہا ہے۔ روزے کا مقصود تقویٰ ہے یعنی آدمی کے اندر یہ جوہر پیدا ہوجائے کہ وہ اپنی خواہشات اور جذبات پر قابو پاسکے اور سنگین سے سنگین حالات میں بھی فرماں برداری کی روش پر قائم رہ سکے۔ اس تقوی کے بغیر آدمی کا کوئی عمل کبھی خدا کے یہاں قبول نہیں ہوتا۔ اللہ صرف متقی لوگوں کا عمل ہی قبول کرتا ہے إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ اللہ متقیوں ہی کا عمل قبول کرتا ہے اور متقی بننے ہی کے لیے اللہ نے بندوں پر روزہ فرض کیا ہے، البتہ اس کا خیال رہے کہ صرف وہی روزہ اللہ اور رسول کی نظر میں روزہ ہے اور صرف وہی روزہ آدمی کے اندر تقویٰ پیدا کرتا ہے جو سارے شرائط و آداب اور ایمان و احتساب کے ساتھ رکھا جائے۔
گنتی کے چند دنوں کے روزے اور ان دو لفظوں میں روزے کی ترغیب دی گئی ہے کہ روزے کے بے بہا فوائد وثمرات اور عظیم برکات کے لحاظ سے یہ انتیس یا تیس دن کے روزے گنتی کے چند دن ہی ہیں۔
’’پھر جو بیمار ہو یا سفر پر ہو‘‘ خدا نے اپنے کمزور، مجبور اور معذور بندوں کو بھی روزے کی برکتوں سے محروم نہیں کیا ہے۔ ان پر یہ کرم فرمایا ہے کہ وہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر اپنے روزوں کی تعداد پوری کریں تاکہ روزے کا بے بہا اجر و انعام پا سکیں۔ ’’اور جو لوگ (مسکین کو کھلانے کی) طاقت رکھتے ہوں‘‘
ابتدائی ایام میں ایک عارضی رعایت یہ بھی تھی کہ مسافر اور مریض اپنے چھوڑے ہوئے روزے کا فدیہ ادا کر دیں اور ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اور جو اپنے دل کی خوشی سے کچھ اور زیادہ دینا چاہے تو اور بہتر ہے۔ یہ ایک وقتی سہولت تھی اس لیے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ پسندیدہ بات یہی ہے کہ چھوڑے ہوئے روزوں کی تلافی دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر ہی کی جائے۔ در اصل خدا نے جن حکمتوں کے ساتھ روزہ فرض کیا ہے اور جن مقاصد کے لے فرض کیا ہے وہ اسی صورت میں ٹھیک ٹھیک حاصل ہوسکتے ہیں جب آدمی روزہ ہی رکھے۔ یہ انداز بیان خود بتاتا ہے کہ یہ روایت اور سہولت بالکل وقتی تھی، اور اصل حکم جس کو باقی رکھنا تھا۔ وہ یہ کہ چھوٹے ہوئے روزوں کے بدلے دوسرے دنوں میں روزے ہی رکھے جائیں۔
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘ یوں تو شب و روز انسانوں پر خدا کے احسانات اور انعامات کی بارش ہو رہی ہے، اور اس کی ہر نعمت کا تقاضا یہی ہے کہ انسان سراپا شکر بن کر بندگی اور بے چارگی سے اس کے سامنے جھک جائے لیکن یہ ایک واقعہ ہے کہ زمین والوں پر خدا کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اُس نے ان کی ہدایت کے لیے کتاب ہدایت نازل فرمائی ہے۔ یہ وہ عظیم ترین نعمت ہے جو ہر نعمت کے نعمت ہونے کا احساس پیدا کرتی ہے اور اس کے بغیر واقعتاً ہر نعمت ہیچ ہے۔ آدمی کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت راہ حق کی ہدایت ہے،قرآن راہ حق کی طرف رہنمائی بھی کرتا ہے، حق و باطل میں تمیز کی قوت بھی بخشتا ہے اور باطل میں تمیز کی قوت بھی بخشتا ہے اور باطل کو ٹھکرانے اور حق کو جذب کرنے کی صلاحیت اور جذبہ بھی پیدا کرتا ہے، خدا کی اس بیش بہا نعمت سے واقعی مستفیض ہونے اور اس کا سچا حامل بننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس نعمت کی قدر پہچانتا ہو، نعمت پا کر اس کے سینے میں شکر کے جذبات تڑپیں اور اس میں یہ صلاحیت اور قوت ہو کہ وہ اس نعمت کے تقاضے اور اس تعلق سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کر سکے۔ اسی مقصد کے لیے خدا نے کتاب پانے والوں کو حکم دیا کہ وہ اس پورے مہینے کے روزے رکھیں جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ روزہ اس نعمت کے پانے پر خدا کی شکرگزاری بھی ہے اور فی الواقع اس نعمت عظمی کا حامل و امین بننے کے لیے خداشناسی، خدا ترسی، اور صبرو تقوی کی بنیادی صفات پیدا کرنے کا موزوں ترین ذریعہ بھی ہے جو خود اللہ ہی نے تجویز فرمایا ہے۔
(کتاب درس قرآن سے ماخوذ)
***
***
آدمی کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت راہ حق کی ہدایت ہے،قرآن راہ حق کی طرف رہنمائی بھی کرتا ہے، حق و باطل میں تمیز کی قوت بھی بخشتا ہے اور باطل میں تمیز کی قوت بھی بخشتا ہے اور باطل کو ٹھکرانے اور حق کو جذب کرنے کی صلاحیت اور جذبہ بھی پیدا کرتا ہے، خدا کی اس بیش بہا نعمت سے واقعی مستفیض ہونے اور اس کا سچا حامل بننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس نعمت کی قدر پہچانتا ہو، نعمت پا کر اس کے سینے میں شکر کے جذبات تڑپیں اور اس میں یہ صلاحیت اور قوت ہو کہ وہ اس نعمت کے تقاضے اور اس تعلق سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کر سکے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مارچ تا 01 اپریل 2023