ملک میں ایڈس کی بڑھتی ہوئی وبا اعداد و شمار کی روشنی میں
یکم دسمبر عالمی ایڈس ڈے کے موقع پر خصوصی تحریر
افروز عالم ساحل
یکم دسمبر کو عالمی ایڈس ڈے کے موقع پرملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں ایڈس کے خلاف پروگراموں کی دھوم رہی۔ ہزاروں طلبا، این ایس ایس اور این سی سی کیڈٹوں، ڈاکٹروں، سماجی کارکنان اور سیاسی رہنماؤں نے حصہ لیا۔ ہر ایک کی زبان پر بس ایک ہی نعرہ تھا: ’ہم سب نے یہ ٹھانا ہے، ایڈس کو بھگاناہے۔‘ اس دوران میں بیداری کے مقصد سےتقریریں، ڈرامے اور ایڈس پر آگاہی کے سلوگن بھی خوب چلے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف اسی سال ایڈس کے خلاف اس طرح کے پروگرام اس کثرت سے ہوئے ہوں، بلکہ ایسے پروگرام اور میلے برسوں سے جاری ہیں۔
اگر ہم ان پروگراموں کے منتظمین کا جوش و جذبہ، لگن اور محنت دیکھیں، تو لگتا ہے کہ ایڈس آج ہی خوف زدہ ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ملک عزیزکو چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔ لیکن اعداد و شمار ایک دوسری ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق بیداری کی تمام مہمات کے باوجود ملک میں ایڈس یا ایچ آئی وی پوزیٹیو مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت ملک میں ایڈس/ایچ آئی وی سے متاثر ہ افراد کی تعداد 21.40 لاکھ ہے۔ جبکہ سال 2013 میں یہ تعداد صرف 6.32 لاکھ تھی۔
مہاراشٹر وہ ریاست ہے جہاں ملک میں سب سے زیادہ ایڈس/ایچ آئی وی سے متاثر افراد رہتے ہیں۔ یہاں 3.29 لاکھ لوگ ایڈس/ ایچ آئی وی سے متاثر ہیں۔ دوسرا اور تیسرا مقام علی الترتیب آندھرا پردیش اور کرناٹک کا ہے۔ آندھرا پردیش میں 2.70 لاکھ اور کرناٹک میں 2.47 لاکھ مریض ہیں۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ حکومت نے یہ اعداد و شمار صرف ان لوگوں سے تیار کیے ہیں جو کسی طرح اسپتال یا جانچ کیمپ تک آگئے، جن متاثرہ افراد کی جانچ بوجوہ نہیں ہوئی ہے، وہ کسی شمار میں نہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر ایڈس/ ایچ آئی وی کے لیے جانچ کی مہم بڑے پیمانے پرگاوؤں کی سطح تک چلائی جائےتو یہ اعداد و شمار اور بھی چونکانے والے ہوسکتے ہیں، کیوں کہ آج بھی ملک میں ایسے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جنھوں نے اپنا رجسڑیشن نہیں کرایا ہے، اوریہ لوگ اپنی بیماری چھپانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایڈس کنٹرول میں مصروف زیادہ تر اداروں کا پروگرام کاغذات، کمپیوٹر اور بینروں پر چلتا ہے، چاہے وہ سرکاری تنظیمیں ہوں یا غیرسرکاری۔
یہی نہیں، وطن عزیز میں ایڈس سے مرنے والوں کی تعداد میں بھی بےتحاشہ اضافہ درج کیا گیا ہے۔ 1987 سے 2012 تک ایڈس سے مرنے والے افراد کی تعداد صرف 12 ہزار تھی۔ لیکن اب وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سال 2017-18 میں ایڈس / ایچ آئی وی کی وجہ سے 51،919 افراد موت کے آغوش میں گئے ہیں۔ وہیں سال 2016-17 میں مرنے والوں کی تعداد 49،630 تھی اور سال 2015-16 میں 49،593 تھی۔
سرکاری اعدادوشمار سے یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ جس رفتار سے ایڈس پھیل رہا ہے، اسی رفتار سے ایڈس بچاؤ کے پروگراموں کے خرچ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ وزارت صحت و خاندانی بہبود سے دستیاب اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں ملک کی مختلف ایڈس کنٹرول سوسائٹیوں پر 3156.07 کروڑ خرچ ہوئے ہیں۔ سال 2015-16 میں 791.57 کروڑ ، سال 2016-17میں 906.89 کروڑ ، سال 2017-18 میں 844.71 کروڑ اور سال 2018-19 میں 612.88 کروڑ خرچ ہوئے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی ساری تنظیموں کے ایڈس کے خلاف جنگ میں مصروف ہونے اور ہزاروں کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود آخر اس بیماری پر کیوں کنٹرول نہیں ہو پا رہا ہے؟ اس پہلو سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا محض مفت مانع حمل غبارے تقسیم کردینے سے ملک سے ایڈس کا خاتمہ ہوجائے گا؟