حمیرا علیم
رمضان کیسے گزاریں، اس تعلق سے سوشل میڈیا پر ہر کوئی دوسروں کو بتا رہا ہے کہ رمضان سے پہلے پہلے کیا کچھ کر لینا چاہیے خصوصاً خواتین ایک دوسرے کو مینیو بنانے، مختلف ڈشز بنا کر فریز کرنے، دہی بڑے، سموسے، رولز، کباب، چٹنیاں، پکوڑوں کا مصالحہ، شوگر سیرپ بنا کر رکھنے، گھر والوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے ٹوٹکے بتا رہی ہیں۔
خواتین کی تحریریں پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ان کا رمضان بھی بڑا عجیب سا ہوتا ہے۔ صبح اذان سے دو گھنٹے پہلے اٹھتی ہیں۔سسرال، بچوں کی فرمائش پر پراٹھے، سالن، فرائی انڈے، آملیٹ، پھینیاں، پورج، ملک شیک، چائے کافی بناتی ہیں پھر دستر سجا کر سب کی ضیافت کرتی ہیں اور سب کی باتیں سنتی ہیں کہ نمک کم تھا، مرچیں زیادہ تھیں، ناشتہ اتنی دیر سے بنایا وغیرہ ۔ کوئی سراہتا ہی نہیں۔ وہ بیچاری خون کے گھونٹ پی کر باورچی خانے میں جاتی ہے اور جلدی سے دو لقمے کھا کر برتن دھوتی ہے کچن صاف کر کے بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرتی ہے۔ انہیں لنچ بنا کر دیتی ہے۔گھر صاف کر کے واشنگ مشین لگاتی ہے ۔ سب کے کپڑے دھو دھلا کر استری کرتی ہے۔ اتنے میں بچے اسکول سے آجاتے ہیں۔ انہیں کھانا دیتی ہے پھر ہوم ورک کرواتی ہے اور شام سے پہلے پکوڑے، سموسے، رولز، پیزا، دہی بڑے، چنا چاٹ، فروٹ چاٹ، کچوریاں، کھیر، کباب کھجور میں بادام، کھوپرا لگاتی ہے چٹنیاں ساسز بناتی ہے۔ لیموں پانی، روح افزا، ملک شیک اور ہر ایک کی فرمائش کے مطابق ڈشز بناتی ہے۔
ساس سسر کے لیے پرہیزی کھانا بناتی ہے جو لوگ روزہ نہیں رکھتے ان کے لیے کھانا بناتی ہے اور اذان سن کر خود ایک کھجور سے روزہ کھول کر سب کی خدمت میں لگی رہتی ہے اور افطار کے وقت ریمارکس سنتی ہیں کہ ’’پکوڑے اسپائسی نہیں تھے۔ سموسے کرسپی نہیں تھے۔ چاٹ میں مصالحہ کم تھا۔ شربت میں چینی کم تھی‘‘
اور وہ مظلوم اپنے آنسو ایک گلاس شربت کے ساتھ پی کر افطاری کے برتن سمیٹ کر دھوتی ہے کچن صاف کرتی ہے اور پھر جلدی جلدی عشاء کی نماز پڑھ کر بچوں کو سلاتی ہے کہ اگر شوہر کو ٹائم نہ دیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ رات کو جب وہ تھک ہار کر بارہ ایک بجے بستر پر گرتی ہے تو اسے اس ٹینشن سے نیند نہیں آتی کہ کہیں سحری میں آنکھ نہ کھل پائی تو کیا ہو گا۔اور دو تین گھنٹوں بعد پھر سے اس کی روٹین شروع ہو جاتی ہے جس میں گھر کا کوئی فرد، خواہ والدین، بہن بھائی ہوں یا سسرالی رشتے دار، اس کا ہاتھ نہیں بٹاتا۔سب کام وہ اکیلے کرتی ہے اور صلے کے طور پر اسے صرف باتیں ہی سننے کو ملتی ہیں۔
ایسی پوسٹس پڑھ پڑھ کر میں تو حیران و پریشان ہو گئی، ایک پوسٹ پر تو میں نے لکھ بھی دیا ’’رمضان عبادت کا مہینہ ہے یا کھانے کھانے کا؟‘‘ ایسی تمام خواتین جو رمضان سے پہلے رمضان کے لیے دس ڈشز بنا کر فریز کرتی ہیں یا رمضان میں روزانہ تین سے دس ڈشز سرو کرتی ہیں ان بہنوں سے ان کے گھر والوں سے مودبانہ گزارش ہے کہ رمضان کا مہینہ اللہ تعالٰی نے صرف اور صرف عبادات اور صدقات خیرات کے لیے عطا فرمایا ہے، اس کا مقصد صرف سحر و افطار میں بے تحاشا اور بے حساب کھا لینا نہیں بلکہ پورا دن پیٹ کے ساتھ ساتھ تمام اعضاء کا بھی روزہ رکھنا ہے۔
اللہ تعالٰی کو ہمیں 12 سے 16 گھنٹوں کے لیے بھوکا رکھنے کی کوئی حاجت نہیں ہے، وہ اس بھوک کے ذریعے ہمیں ان لوگوں کا احساس دلانا چاہتے ہیں جو غربت کی وجہ سے بھوکے ہیں تاکہ ہم اپنے صدقات خیرات سے ان کی مدد کریں اور اپنے نفس اور اس کی خواہشات پر کنٹرول کر کے دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دیں۔ ذرا نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے رمضان کے بارے میں پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ روزمرہ کی خوراک دودھ اور کھجور بھی کم ہی میسر ہوتی تھی لیکن وہ سب عبادات میں زیادہ سے زیادہ مشغول رہتے تھے۔نوافل، اذکار، تلاوت قرآن، صدقہ و خیرات میں کثرت کرتے تھے نہ کہ کھانوں میں۔
تو میری پیاری بہنو اور بھائیو! اپنے گھر والوں کو روزے کا اصل مقصد بتائیے اور جو لوگ آپ کا احساس نہیں کرتے ان کی خدمت میں اس مہینے کی برکات کو مت گنوائیے۔ کیا آپ رمضان کے علاوہ کسی بھی مہینے میں روزانہ کی بنیاد پر وہ سارے لوازمات کھاتے ہیں جو رمضان میں مخصوص ہیں؟ اگر نہیں تو پھر رمضان کو ہی کھانوں کا مہینہ کیوں بنا لیا گیا ہے؟ اور اگر ہم ان سب ڈشز سے اپنا دسترخوان نہیں سجائیں گے تو کیا کوئی نقصان ہو جائے گا؟
بہتر تو یہی ہے کہ رمضان شروع ہونے سے پہلے اپنے کپڑے، جوتے، استعمال کا سارا سامان، بچوں کے کھلونے، بیگز، ایکسٹرا اسٹیشنری وغیرہ نکالیے اسے خیرات کیجیے۔ صدقہ، خیرات، زکوۃ کی رقم نکالیے اور اسے مستحقین میں بانٹیے۔ راشن، کپڑے اور دیگر اشیائے ضروریہ بانٹنے کا اہتمام کیجیے۔ جو پیسہ افطار پارٹیوں میں لگانا ہے اس سے کسی بیوہ کے گھر میں راشن ڈلوا دیجیے۔اور افطار پر مدعو کیے جانے والے دوست احباب کو بھی اس کارخیر میں شامل فرما کر کسی مستحق کو رکشا،ٹھیلہ، سلائی مشین یا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کروا دیجیے۔
ان اذکار، نوافل، تلاوت اور نیکی کے کاموں کی فہرست بنائیے جو آپ، آپ کے گھروالے اور دوست احباب سرانجام دیں گے اور انہیں حتی الوسع پورا کرنے کی کوشش کیجیے۔ شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہے کیونکہ خواتین خصوصاً شادی شدہ خواتین کے لیے سسرال والوں کی فرمائشیں پوری نہ کرنا ناممکن ہے۔ چلیے گھر کا ماحول خراب نہ ہو اس لیے آپ روز ایک ڈش بنا لیجیے تاکہ آپ کا وقت کھانے اور دیگر کاموں میں ہی ضائع نہ ہو جائے اور کام کرتے ہوئے اذکار کر لیجیے۔ کیونکہ گھر کے تمام کام اور گھر والوں کی خدمت بھی اگر یہ سوچ کر کی جائے کہ اللہ تعالی راضی ہوں گے تو سب کام بھی صدقہ بن جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام افراد کو خاتون خانہ کی مدد بھی کرنی چاہیے کیونکہ گھر والوں کی گھر کے کاموں میں مدد کرنا بھی سنت ہے۔
کچھ لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے کہ لو جی افطار میں پکوڑے سموسے نہ ہوں تو کیا مزہ؟ تو جناب مزے نہ لیں بلکہ عبادات کریں۔ ویسے بھی اوور ایٹینگ کر کر کے آپ تراویح پڑھنے کے قابل تو رہتے نہیں تو کیا فائدہ ایسے روزے کا جس میں ہم پانچ وقت کی نماز کی پابندی بھی نہ کر سکیں؟
میں اپنی روٹین شئیر کر کے آپ کو ایک مثال دے رہی ہوں۔ صبح اذان سے دو گھنٹے پہلے اٹھ کر تہجد پڑھتی ہوں اور ہر رکعت میں مصحف سے دیکھ کر ایک صفحہ قرآن کی تلاوت کرتی ہوں۔ سجود میں خوب دعائیں کرتی ہوں۔ آرام سے آٹھ دس جتنے ممکن ہو نوافل پڑھ کے ایک پارہ تلاوت کرتی ہوں۔ ناشتہ جو کہ عام دنوں میں بنتا ہے۔ بچوں اور شوہر کے لیے چائے، پراٹھے، رات کا سالن یا انڈے یا دہی اور مٹی کے پیالے میں پانی میں بھیگی طاق عدد میں کھجوریں یعنی نبیذ اور اپنے لیے کبھی بریڈ اور چائے یا پھر پراٹھا بنا کر کچھ اذکار کر لیتی ہوں خود ناشتہ کر کے دو تین کھجوریں کھا کر دانت برش کر کے شوہر اور بیٹے کو اٹھا دیتی ہوں۔ وہ خود کچن سے اپنا ناشتہ لے لیتے ہیں۔ اس دوران میں تلاوت کر لیتی ہوں۔ فجر کی اذان سے پہلے برتن دھو کر کچن سمیٹ لیتی ہوں۔
دونوں بیٹوں کو سات بجے اٹھا کر اسکول کے لیے تیار کر کے چھوٹے کو لنچ بنا دیتی ہوں۔ جب وہ اسکول چلے جاتے ہیں تو دو تین گھنٹے سو جاتی ہوں۔ پھر اٹھ کر گھر کے کام کر لیتی ہوں۔ کھانا بنا لیتی ہوں۔کیونکہ آٹھ سالہ بیٹے کا روزہ نہیں ہوتا وہ لنچ کرتا ہے۔ ظہر کی نماز میں سنتوں میں مصحف سے دیکھ کر تلاوت کرتی ہوں جیسے تہجد اور تراویح میں کرتی ہوں، باقی کا پارہ ظہر کے بعد مکمل کر لیتی ہوں۔کچھ تسبیحات کر کے بچوں کو پڑھا لیتی ہوں۔
شام کو عصر کے بعد لیموں پانی یا روح افزاء بنا کر فریج میں رکھ دیتی ہوں اگر کسی کا دل چاہتا ہو تو کبھی کبھار پکوڑے یا سموسے، پیزا، چکن بریڈ، نوڈلز، چاٹ بھی بنا دیتی ہوں جیسے کہ عام دنوں میں مہینے میں ایک آدھ بار ہوتا ہے لیکن روزانہ کی بنیاد پر کوئی خاص چیز نہیں بنتی۔ افطار کے لیے کھجوریں، پانی اور کھانا اذان مغرب سے پہلے میرے بیٹے ٹیبل پر لگاتے ہیں۔ برتن اٹھا کر کچن میں رکھنا بھی ان کی ذمہ داری ہے اور اگر کسی دن میری طبیعت خراب ہو تو بڑا بیٹا برتن دھو بھی دیتا ہے الحمدللہ۔
کھجور اور چند گھونٹ پانی سے افطار کے بعد مغرب پڑھ کر کچن سمیٹ لیتی ہوں۔ اگر دن میں ہمت نہ ہو تو گھر کی صفائی اور لانڈری، استری وغیرہ مغرب کے بعد کر لیتی ہوں کیونکہ میں شوگر اور کولیسٹرول پیشنٹ ہوں۔ عشاء میں تراویح میں بھی مصحف پڑھتی ہوں۔ یوں تین پارے بڑے آرام سے روزانہ پڑھ لیتی ہوں اور تسبیحات و اذکار بھی ہو جاتے ہیں۔
فیس بک پیج پر اور تحاریر کے ذریعے تبلیغ کا کام بھی جاری رہتا ہے۔ رہ گئے صدقہ زکوۃ اور خیرات تو پورا سال کمرے میں بنی الماری کے شیلف پر ایک کوائن باکس پڑا رہتا ہے جس میں ہم سب صبح حسب استطاعت پیسے ڈالتے ہیں اور مہینے کے اختتام پر کسی نہ کسی جگہ بطور صدقہ دے دیتے ہیں۔ کوئی آرگنائزیشن جیسے ایدھی، چھیپا، اخوت وغیرہ، کسی خیراتی دستر خوان میں یا کسی مستحق کو۔ یہ آپ پر ہے کہ آپ کہاں خرچ کرتے ہیں۔ میں افطار پارٹیاں نہیں کرتی ہاں کوئی افطار کے وقت آ جائے تو بازار سے کچھ منگوا لیتی ہوں کیونکہ عموما لوگوں کو افطار میں کھانا کھانے کی عادت نہیں ہوتی اور مہمان کو اچھی طرح ٹریٹ نہ کرنا بھی بداخلاقی ہے۔
اگر میں اور میرے گھر والے یہ روٹین فالو کر سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں؟
اس رمضان کو ویسے گزارنے کی کوشش کیجیے جیسے نبی ﷺ گزارتے تھے۔ نفس کو کنٹرول کیجیے اور اللہ کی رحمتیں سمیٹیے۔اللہ تعالٰی ہم سب کو نبی ﷺ کی طرح روزے رکھنے، عبادات کرنے اور دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری دعاوں کو قبول فرمائے آمین۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 اپریل تا 08 اپریل 2023