سلیم شاکر چینئی
اکثر لوگ رمضان کے مہینہ کو کھانے پینے کا مہینہ سمجھتے ہیں۔ سارا دن روزہ رکھ کر جب افطار کرتے ہیں تو ضرورت سے زیادہ کھا لیتے ہیں جس سے ان کو تراویح کی نماز ادا کرنے میں سستی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مرد حضرات کا اکثر وقت بازاروں میں کھانے پینے کی چیزیں خریدنے اور عورتوں کا ان کو پکانے میں صرف ہوتا ہے۔ اس طریقے سے روزہ کے دوران عبادات کا موقع شاید ہی ملتاہے اور یہ لوگ روزہ کی برکات و ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں۔
جن لوگوں کو بھوکا رہنے کی عادت نہیں ہوتی یا مسلسل سگریٹ نوشی کے عادی ہوتے ہیں ان کے لیے رمضان المبارک کے روزے رکھنا بہت ہی دشوار ہو جاتا ہے، ایسے میں یہ لوگ ایسے مشغلے اختیار کرلیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ روزے کے ثواب کے بدلے گناہ سمیٹ لیتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنا سارا وقت سوکر گزار لیتے ہیں یعنی سحری کھا کر سارا دن سوتے رہتے ہیں، صرف اٹھ کر نماز ادا کرلیتے ہیں اور مغرب کے وقت اٹھ کر روزہ افطار کرلیتے ہیں۔ اس طریقے سے انہیں بھوک کا احساس نہیں ہوتا جس سے روزہ کا بنیادی مقصد ہی اکارت ہو جاتا ہے۔
کچھ حضرات وقت گزاری کے لیے عبادت میں وقت صرف کرنے کی بجائے ٹی وی سیریل یا ٹی وی پر فلم دیکھنے کا سہارا لیتے ہیں۔ ٹی وی سیریلیں اور فلم دیکھنا عام دنوں میں بھی درست نہیں ہے تو رمضان المبارک میں کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
کچھ حضرات اپنے دوستوں کو گھر بلا لیتے ہیں اور تاش و شطرنج کھیلنے یا شیخیاں بگھارنے میں وقت گزارتے ہیں۔ یہ لا یعنی افعال ہیں اور اکثر گپ شپ کے دوران جھوٹ اور غیبت جیسے گناہ کبیرہ سرزد ہو جاتے ہیں۔ اپنی وقت گزاری کے اس مرحلے میں یہ حضرات ثواب کمانے کی بجائے الٹا گناہ کبیرہ کے مستحق ہوجاتے ہیں جب کہ روزہ ہماری روحانی اور اخلاقی بیماریوں اور خرابیوں کا مؤثر علاج ہے۔
ایک مرتبہ میں جائیداد کی رجسٹریشن کے سلسلے میں رجسٹرار آفس گیا جہاں رجسٹرار مسلمان تھے اور موقع سے رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ لیکن یہ دیکھ کر میرے دل پر گہری چوٹ لگی کہ یہ صاحب اچھے خاصے اور ہٹے کٹے تھے اور ظاہری طور پر کوئی عیب بھی نہیں تھا مگر وہ روزہ سے نہیں تھے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ایک طرف یہ صاحب چائے کی چسکیاں لے رہے تھے اور دوسری طرف سگریٹ پھونک رہے تھے اور تیسری طرف ان کا رشوت کا بازار بھی گرم تھا۔ ایسے مسلمان کیا خاک اللہ کی رضا مندی حاصل کریں گے اور غیر مسلموں کے لیے کیا نمونہ بن سکیں گے؟
میں نے سعودی آرامکو کی ملازمت کے دوران یہ مشاہدہ کیا ہے کہ روزہ افطار کرنے کے بعد ضعیف سعودی حضرات اپنے گھروں کے باہر کھاٹ بچھا کر حقہ کی چسکیاں لگاتے ہوئے ٹی وی پر مصر کی رقاصہ کا رقص دیکھنے اور گپ شپ میں مصروف ہوتے ہیں اور تراویح کی نماز کی انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔ نوجوان کھیل کود یا شیخیوں میں وقت گزارتے ہیں یہاں تک کہ رات کے دو یا تین بج جاتے ہیں پھر سحری کھا کر سو جاتے ہیں اور اس طرح ان کی فجر بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ ان ممنوع کاموں سے جب لوگ باز نہیں آتے تو وہ اللہ کی خوشنودی کیسے حاصل کرسکیں گے؟
حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سحری کھاتے اور فجر کی نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ میں نے پوچھا سحری کھانے اور نماز فجر کی جماعت ادا کرنے میں کتنا وقفہ ہونا چاہیے۔ آپ نے فرمایا پچاس آیتوں کی تلاوت کے برابر۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ احادیث کے مطابق افطاری کرنے میں جلدی اور سحری کھانے میں تاخیر کرنی چاہیے۔
افطار پارٹیاں:
اکثر لوگ اپنے دوست احباب کو افطار کے لیے مدعو کرتے ہیں اور کبھی غیر مسلموں کو بھی اس میں شریک کرتے ہیں۔ ویسے تو یہ بڑے ثواب کا کام ہے مگر اس کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ اصل مقصد غریبوں اور مسکینوں کو پیٹ بھر کھانا کھلانا ہے تاکہ ان کو بھی روزے کی مسرت حاصل ہو مگر ایسے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے جو صاحب حیثیت ہوتے ہیں اور جن کے پاس ضرورت سے زیادہ مال واسباب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ افطار کے وقت دعا کرنے کے بجائے آپس میں ہنسی مذاق کرتے اور شیخیاں بگھارتے رہتے ہیں۔ اس میں دعا وتسبیح یا اللہ اور اس کے رسول کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ اور غیر مسلموں کو اللہ کی طرف دعوت دینے کا نظام بھی ندارد۔ ایسی پارٹیوں سے سوائے وقت گزاری کے کوئی ثواب حاصل نہیں ہوتا۔
حضرت زید بن خالد جہنی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروایا اس کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا اس روزہ دار کو ملے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں سے کچھ کمی ہو (ترمذی) اس لیے کسی ایسے پڑوسی یا رشتہ دار یا دوست جن کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں ان کو روزہ افطار کرانے میں زیادہ ثواب ملے گا۔
نوجوانوں کا کردار:
تمام لوگوں کی طرح بچوں اور نوجوانوں میں بھی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ اس ماہ کی برکتوں سے بھرپور فیض یاب ہوں۔رمضان المبارک بچوں اور نوجوانوں کے لیے ایک روحانی تربیت کا مہینہ ہے۔ والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرتے وقت روزہ کے مقصد کو اجاگر کریں، لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ چند نوجوان روزہ رکھنے کے بعد تلخ مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر دوسروں سے جھگڑ پڑتے ہیں۔ ان کے مزاج میں چڑچڑاہٹ کا عنصر صاف نظر آتاہے جب کہ روزہ تو نام ہی صبر وبرداشت کا ہے۔ کچھ نوجوان تو صبح سے شام تک پور ادن سو کر گزارتے ہیں جس سے ان کا روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔
بعض نوجوان روزے کی حالت میں بھی ڈرامے اور فلمیں دیکھنے اور موبائل فون اور سوشل میڈیا پر فضول باتوں میں اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔ اکثر نوجوان تراویح کی نماز کے لیے مسجد میں تو آجاتے ہیں مگر نماز میں شامل ہونے کی بجائے مسجد کے باہر گپ شپ اور کھیل کود میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ان کے والدین ان کی اس حرکت سے غافل ہوتے ہیں اور ان کی غلط تربیت کے ذمہ دار بنتے ہیں۔
رمضان المبارک میں سنت نبویؐ کی عبادات کے طریقے حسب ذیل ہیں جنہیں اپنانا ہمارا بنیادی فرض ہے:
۱۔ رمضان کے مہینے کو روزے رکھنے کے لیے مخصوص کیا گیا ہے اور مسلمانوں کے لیے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ روزے کے اصل مقصد کو جانیں اور اس پورے مہینے کے روزے رکھیں۔ رمضان کا چاند دیکھ کر روزے کی ابتدا کریں اور شوال کا چاند دیکھ کر عیدالفطر منائیں۔
۲۔ جب تک کوئی شرعی عذر نہ ہو تب تک روزہ نہ چھوڑیں۔ اگر کوئی عذر لاحق ہو تو روزہ چھوڑ دیں اور رمضان کے بعد اس کی قضا رکھ لیں۔ جو روزوں کی قضا نہیں رکھ سکتے وہ ہر ایک روزے کے بدلے میں فدیہ دیں۔ فدیہ یہ ہے کہ ہر ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔
۳۔ افطاری اور سحری میں ضرورت کے لحاظ سے کھانا کھائیں۔ حد سے زیادہ کھانے سے پرہیز کریں تاکہ تراویح کی نماز میں کوئی مشکل نہ ہو۔
۴۔ خواتین کو کھانے پکانے کا اتنا کم موقع دیں تاکہ انہیں بھی عبادات کثرت سے کرنے کا موقع مل سکے۔
۵۔ روزے کی حالت میں صحیح وقت گزاری کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کیا کریں، ہر ایک آیت کے معنی اور مطلب کو سمجھا کریں اور اس پر سختی سے عمل کریں۔ہر وقت اللہ تعالی کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھیں۔ قرآن کے علاوہ احادیث کا بھی مطالعہ کریں اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی تاریخ یا اسلامی لٹریچر کا مطالعہ بھی کرتے رہیں۔
۶۔ اہل وعیال کو رمضان المبارک کی عظمت سے آگاہ کریں۔ گھر میں فیملی درس کا بھی اہتمام کریں تاکہ وہ بھی مستفید ہوسکیں۔
۷۔ اگر کوئی شرعی عذر کی بناء پر روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس کو بھی چاہیے کہ کم از کم تراویح کی نماز کا خصوصی اہتمام کرے۔ نوجوان بچوں کو سختی سے تاکید کریں کہ وہ تراویح کی نماز پابندی سے ادا کریں۔ گپ شپ اور کھیل کود میں قیمتی وقت کو ضائع نہ کریں۔
۸۔ اپنے بچوں کو وقتاً فوقتاً رمضان المبارک کی فضیلتوں کی تعلیم دیتے رہیں تاکہ ان کے دماغ میں رمضان کے مقصد اور فوائد ذہن نشین ہو جائیں اور ان کی عاقبت سنور جائے۔
۹۔ چونکہ رمضان المبارک میں ہر نیکی کی جزا دس سے سات سو گنا تک ملتی ہے لہٰذا اس مہینے میں انفاق فی سبیل اللہ میں اضافہ کر دیں۔ غریبوں کو کھانا کھلائیں، محتاجوں کی حتی المقدور ضروریات پوری کریں، بیماروں کی تیمارداری کریں، لوگوں کو درس و تدریس یا زبانی گفتگو کے ذریعے ہدایت کی راہ دکھائیں، یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھیں، گھر کے ملازموں کے کاموں میں کمی کریں یا ان کی مدد کریں، مجالس خیر میں شرکت کریں، اہل خانہ کو زیادہ آرام پہنچانے کی کوشش کریں وغیرہ۔ یہ سب کام بے پناہ اجر لاتے ہیں۔
۱۰۔ عید کے کپڑوں اور سامان کی شاپنگ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے پہلے کرلیا کریں تاکہ اطمینان سے آخری عشرہ کی عبادات کا اہتمام کرسکیں۔
میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں رمضان المبارک کے روزوں کے اصلی مقصد کو جاننے، پورے مہینے کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھنے، آخری عشرے کے عبادات کا اہتمام کرنے اور انفاق فی سبیل اللہ کو ادا کرنے کی توفیق و ہدایت عطا فرما۔ آمین ثم آمین
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مارچ تا 01 اپریل 2023