قرآنی ذوق کے خواہش مند حضرات کے لئے عمدہ تحفہ

مولانا صدرالدین اصلاحی کی تفہیم قرآن کی تلخیص قابل مطالعہ

ابو سعد اعظمی ، علی گڑھ

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن قارئین دعوت کے لیے کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔دیگر تفاسیر کی نسبت تفہیم القرآن اپنے عہد کے مسائل سے زیادہ مربوط ہے اور اردو قارئین میں اسے جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔پروفیسر خورشید کے الفاظ میں اس تفسیر میں زندگی اور ولولہ انگیزی ہے۔ اس دعویٰ کے دلائل تفہیم القرآن کے ہر ورق میں مل جائیں گے۔کیونکہ مولانا مودودیؒ کے پیش نظرتحریک اسلامی کے کارکنان ہیں۔ وہ قرآن مجید کے پیغام کے ذریعہ یہی زندگی اور ولولہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔یہ تفسیر بلند علمی معیار کی حامل تفسیر ہے۔یہ قرآنی ذوق کی نشو ونما میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔اس میں قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دی گئی ہے اور مسلکی تعصب سے اجتناب کیا گیا ہے۔
مولانا صدرالدین اصلاحی دین کے مخلص خادم اور تحریک اسلامی کے صف اول کے قائد اور فکری رہنما تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے وقف کردی تھی۔آپ 1916ء میں پیدا ہوئے۔آپ کا آبائی وطن اعظم گڑھ کا ایک مردم خیز قریہ سیدھا سلطان پور تھا اور ننہیال ہندوستانی مسلمانوں کے معلم اول علامہ شبلی کا وطن بندول تھا۔عہد طفولیت بندول میں گزرا اور ابتدائی تعلیم یہیں پرائمری میں حاصل کی، ثانوی تعلیم مڈل اسکول بلریا گنج میں پائی۔1929ء میں مدرسۃ الاصلاح میں داخلہ لیا اور 1937ء میں فراغت حاصل کی۔طالب علمی ہی میں ان کے مضامین ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع ہونے لگے تھے ، اس سے ان کی ذہنی وفکری سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔1938ء میں جب مولانا مودودی نے پٹھان کوٹ میں ادارہ دارالاسلام کی بنیاد رکھی تو مولانا صدر الدین اصلاحی اس کے پانچ تاسیسی ممبروں میں شامل تھے۔
تحریک اسلامی کے لیے مضبوط فکری اور نظریاتی اساس فراہم کرنے کے سلسلے میں انہوں نے جو بنیادی اہمیت کا کام کیا ہے جماعت اسلامی کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔قرآن مجید اور قرآنی علوم سے ان کو خصوصی شغف تھا اور یہ ان کی جملہ تصنیفات کا سب سے نمایاں پہلو ہے۔وہ پیش آمدہ مسائل کا مطالعہ بنیادی طور پر قرآن مجید کی روشنی میں کرتے ہیں اور ان کاحل خالص قرآنی ہدایات وتعلیمات میں تلاش کرتے ہیں۔بالغ نظری، فکری پختگی،اعلیٰ تحقیقی معیار،رچا ہوا اسلوب نگارش، گٹھی ہوئی تحریر، نپا تلا اندازِبیان ان کی تصنیفات کی نمایاں خصوصیات ہیں۔بسیار نویسی اور طول بیان ان کی عادت نہیں، مختصر ترین الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی ومفاہیم کی تفہیم وترسیل ان کی تحریر کا امتیازی وصف ہے۔دریا کو کوزے میں سمیٹنے کا فن ان کو خوب آتا ہے۔
قرآن مجید صحیفۂ رشد وہدایت ہے، وہ دنیا کی ہر قوم وملک کو کفر وشرک اور جہالت وضلالت کی تاریکیوں سے نکالنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔اس لیے جماعت اسلامی نے بڑی شدت سے یہ محسوس کیا کہ خدا کا یہ پیغام اس ملک کے تمام باشندوں تک پہنچانے کے لیے ملک کی سرکاری زبان ہندی میں قرآن مجید کا ترجمہ مختصر وضاحتی حواشی کے ساتھ شائع کرے۔اس کے لیے بجا طور پر مولانا صدر الدین اصلاحی کا انتخاب عمل میں آیا۔مولانا نے اولاً اردو کے تمام متداول ترجموں کا مطالعہ کیا تاکہ ان میں سے کوئی ترجمہ پیش نظر مقصد کے لیے مفید اور بہتر ہو تو اس کو ہندی میں منتقل کردیا جائے۔مگر چونکہ مروجہ تراجم مسلمانوں کے ذہنوں کو ملحوظ رکھ کر لکھے گئے تھے۔ اس لیے اکثر مقامات پر اور مختلف اعتبار سے وہ نہ غیر مسلم ذہنوں کے تقاضے سے ہم آہنگ تھے اور نہ مفید،بہت سی باتیں مسلمانوں کے لیے وضاحت طلب تھیں اور ہیں مگر وہی باتیں غیر مسلموں کے لیے بالکل نامانوس اور اجنبی ہوتی ہیں یا جو چیزیں مسلمانوں کو نہیں کھٹکتیں وہ غیر مسلم ذہن کے لیے باعث خلش ہوتی ہیں۔اسی طرح بہت سی چیزوں کی تشریح ووضاحت قرآن مجید کو ماننے والوں کے لیے مفید مطلب اور ضروری ہے مگر غیر مسلموں کے لیے غیر ضروری اور بے سود۔ اسے براہ راست ہندی میں لکھنے اور شائع کرنے سے پہلے اردو میں لکھنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ یہ اہل علم اور قرآنیات سے شغف رکھنے والوں کی نظر سے بھی گزر جائے اور وہ مولانا کو اپنے خیالات ومشوروں سے مستفید کرسکیں۔مولانا نے اس ترجمہ وتحشیہ کا کام 1949ء میں تیسیر القرآن کے نام سے شروع کیا تھا اس کا سلسلہ زندگی رام پور میں جلد 4، عدد 4-5، شوال و ذوقعدہ 1369ھ ؍اگست -ستمبر 1950ء سے شروع ہوا اور جلد 10، عدد 5-6، ذی قعدہ اور ذی الحجہ 1372ھ؍ اگست -ستمبر 1953ء پر ختم ہوگیا۔ان تین برسوں کے شماروں میں سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کا ترجمہ وتفسیر شامل ہے۔
اس ترجمہ وتفسیر کی ایک خاص بات یہ تھی کہ مولانا اپنی اس تفسیر کا مسودہ مولانا اختر احسن اصلاحیؒ کی خدمت میں پیش فرماتے اور جب مولانا اس پر نظر ثانی کرلیتے تب ہی اسے زیور طبع سے آراستہ کرنے کے لیے وہ ماہ نامہ زندگی کو ارسال کرتے تھے۔
تلخیص تفہیم القرآن کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے لکھا ہے:
’’جماعت اسلامی ہند کے قائدین نے تفہیم القرآن کی اہمیت کے پیش نظر ضرورت محسوس کی کہ ایک جلد میں اس کی تلخیص تیار کی جائے تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ ہاتھوں میں پہنچایا جاسکے اور دیگر زبانوں میں بھی اس کے تراجم کرائے جاسکیں۔چنانچہ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے اجلاس منعقدہ 18 جون 1974ء میں اس کی تجویز منظور کی اور اس وقت بھی اس اہم کام کی انجام دہی کے لیے مولانا صدر الدین اصلاحی کا ہی انتخاب عمل میں آیا اور مولانا نے شوریٰ کی ہدایت کے مطابق کام شروع کردیا۔اس دوران مولانا مودودی سے باقاعدہ اس کام کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔مولانا مودودی نے اس کی اجازت نہیں دی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ مختصر حواشی کے ساتھ ترجمۂ قرآن کی اشاعت خود ان کے پیش نظر ہے۔مولانا مودودی کا ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی شائع ہوا تو جماعت کے اکابرین بشمول مولانا صدر الدین اصلاحی نے محسوس کیا کہ حواشی بہت زیادہ مختصر ہونے کی وجہ سے وہ ضرورت پوری نہیں ہوئی جسے تلخیص تفہیم القرآن کے لیے محسوس کیا گیا تھا۔چنانچہ مولانا اصلاحی نے پھر سے مولانا مودودی سے رجوع کیا اور تفہیم القرآن کی تلخیص کی ضرورت دلائل دے کر اس کام کی اجازت طلب کی۔مولانا مودودی نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ یہ کام مولانا صدر الدین اصلاحی ہی کریں گے۔مولانا کی اجازت ملنے کے بعد جماعت کی مجلس شوریٰ نے اپنے اجلاس منعقدہ 17-22 فروری 1978 میں مولانا سے اس کام کو مکمل کرنے کی گزارش کی۔مولانا نے تقریباً تین سال میں تفہیم القرآن کی بقیہ چار جلدوں کی تلخیص تیار کردی۔تلخیص پر مولانا اصلاحی کے قلم سے جو پیش لفظ ہے اس پر 13؍ جنوری 1981ء کی تاریخ درج ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے قبل مولانا تلخیص کے کام سے فارغ ہوچکے تھے‘‘۔
تفہیم القرآن کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا صدر الدین اصلاحی نے لکھا ہے:
’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی مشہور زمانہ تفسیر تفہیم القرآن وقت کی ایک بہترین تفسیر ہے۔یہ تفسیر موجودہ دور کے ذہن کو قرآن حکیم اور اس کے بیان کردہ حقائق اور تعلیمات کے بارے میں جس طرح یقین واطمینان کی ٹھنڈک سے بہرہ ور کرتی ہے وہ اسی کا حصہ ہے۔یہ پڑھنے والوں کے اندر صرف قرآن کا فہم ہی نہیں پیدا کرتی ہے بلکہ طالبانِ حق کو ایمان کی تازگی اور عمل کی سرگرمی بھی عطا کرتی ہے اور ان کے اندر داعیانہ جذبات کو حرکت میں لاتی ہے‘‘۔
تلخیص کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دین کا مفاد اور اسلام کا دعوتی مزاج تقاضا کرتا ہے کہ ایسی گراں قدر تفسیر کی اشاعت وسیع سے وسیع پیمانے پر ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ ہاتھوں تک پہنچے، لیکن ایک تو یہ تفسیر ابھی صرف اردو زبان میں ہے، دوسرے چھ ضخیم جلدوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ان دونوں باتوں کے نتیجے میں غیر اردو داں حلقے تو اس سے فائدہ بالکل اٹھا ہی نہیں سکتے اور اردو جاننے والوں کے لیے بھی اس کی افادیت عملاً اتنی نہیں ہوسکتی جتنی ہونی چاہیے۔اس صورتحال کو دیکھ کر جماعت اسلامی ہندکی مرکزی مجلس شوریٰ نے طے کیا کہ اس طویل تفسیر کی ایک جامع تلخیص تیار کرلی جائے جو صرف ایک جلد میں آسکے اور اسے صرف اردو میں ہی نہیں بلکہ ملک کی دوسری تمام اہم زبانوں میں منتقل کراکے شائع کیا جائے تاکہ اس سے فائدہ اٹھانے کی راہ میں آنے والی دشواریاں ختم ہو جائیں۔ لوگوں کے لیے اس کا حاصل کرنا، بلکہ بالعموم ہر وقت ساتھ رکھنا بھی آسان ہو جائے۔ پھر ایک ہی مجلد میں ہونے کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہو کہ تلاوت قرآن کی ضرورت بھی اس سے پوری ہوتی رہے‘‘۔
تلخیص تفہیم القرآن میں مولانا صدر الدین اصلاحی نے جن امور کو پیش نظر رکھا ہے اس پر ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اپنے ایک مقالہ میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔اس کی روداد ڈاکٹر ندوی کے الفاظ میں ملاحظہ ہو:
کسی بھی کتاب کی تلخیص ایک انتہائی نازک اور بہت زیادہ ذمہ داری کا کام ہے۔اس میں ایک طرف عبارت کا خلاصہ پیش نظر رہتا ہے تو دوسری طرف اس پر بھی نظر رکھنی ہوتی ہے کہ مصنف کی منشا پوری ہو اور کوئی اہم بات چھوٹنے نہ پائے۔مولانا کے کام کو درج ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
-1 تفہیم القرآن کے کل حواشی کی تعداد 6094ہے سورہ عصر میں صرف ایک حاشیہ ہے اور سب سے زیادہ حواشی سورہ بقرۃ میں (243) ہیں۔تلخیص میں پوری شدت سے یہ التزام کیا گیا ہے کہ تفہیم کا کوئی ایک حاشیہ بھی کلیۃً چھوٹنے نہ پائے۔
-2 مختصر کیے ہوئے حواشی کی ایک قسم تو وہ ہے جو حذف واختصار کے بعد بھی تمام تر مصنف کے اپنے ہی الفاظ پر مشتمل ہیں۔دوسری قسم ان حواشی کی ہے جن میں کہیں کہیں ایک دو لفظ یا ایک آدھ جملے مولانا اصلاحی کے بڑھائے ہوئے ہیں۔یہ اضافے حواشی کے بعض حصے حذف کیے جانے کے بعد باقی ماندہ عبارتیں باہم مربوط کرنے کے لیے ناگزیر تھے۔اس اضافہ کو اس طرح کے بریکٹ[] میں رکھا گیا ہے تاکہ وہ مصنف کے الفاظ سے بالکل الگ اور ممیز رہیں۔
3 -مولانا مودودی نے اپنے آخری دور حیات میں ’’ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی‘‘ کے نام سے قرآن مجید کا جو ترجمہ تھوڑے سے مختصر ترین حواشی کے ساتھ علیحدہ سے ایک جلد میں شائع کیا تھا،اس کے حواشی اگرچہ تفہیم القرآن کے ہی حواشی کا اختصار ہیں لیکن اس میں انہوں نے کچھ حواشی بالکل نئے سرے سے بھی لکھے ہیں جو تفہیم القرآن میں نہیں تھے اور نہ اب بھی ہیں۔ مولانا اصلاحی نے مولانا مودودی کے منشا کے مطابق اس تلخیص میں ان نئے حواشی کا اضافہ بھی کردیا ہے۔انہیں ذیلی نمبر (مثلاً حاشیہ نمبر 6؍الف) لگاکر درج کیا گیا ہے۔
4 -مولانا مودودی نے ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی میں تفہیم القرآن کے حواشی کو صرف مختصر ہی نہیں کیا ہے بلکہ ان میں کچھ کے اندر تھوڑی بہت لفظی ترمیمات بھی کی ہیں چوں کہ اس کی حیثیت نظر ثانی شدہ اور اصلاح یافتہ مسودہ تحریر کی ہے اس لیے تلخیص میں انہیں بدلی ہوئی عبارتوں کو لیا گیا ہے۔اسی طرح حواشی میں اگرچہ تفہیم ہی کا ترجمہ ہے لیکن کہیں کہیں جزوی ترمیم بھی ہے اس لیے تلخیص میں اس ترمیم شدہ کو اختیار کیا گیا ہے۔
مولانا اصلاحی نے اقوال مفسرین، واقعات سیرت، احادیث، فقہ، تاریخ، بائبل اور اسرائیلی روایات، عربی اشعار وغیرہ سے متعلق تفہیم القرآن کے وہ حصے عموماً حذف کردیے ہیں جو اگرچہ معلومات کے اعتبار سے اہم تھے لیکن تفہیم آیات میں ان کی بنیادی اہمیت نہیں تھی اور ان کے بغیر بھی آیات کا مفہوم سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں پیش آتی تھی۔
ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی جامعی نے اپنے ایک مقالہ میں تلخیص تفہیم القرآن کی مندرجہ ذیل خصوصیات بیان کی ہیں:
-1 یہ مولانا مودودیؒ کی دونوں کتاب تفہیم القرآن اور ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی کی جامع ہے۔
2 -اس میں تمام غیر ضروری تفصیلات سے پاک دعوتِ دین، اصلاح حال، ایمان کی تازگی اور روح کی پاکیزگی کے لیے تمام ضروری سامان موجود ہیں۔
-3 اس میں تفہیم القرآن کا ہر چھوٹا بڑا حاشیہ موجود ہے۔
4 -تلخیص میں شامل ترجمہ وتفسیر کی حیثیت نظر ثانی شدہ ایڈیشن کی ہے جب کہ یہ خصوصیت خود تفہیم القرآن میں نہیں پائی جاتی۔
5 -اس کے آخر میں فہرستِ موضوعات تلخیص تفہیم القرآن شامل کر دیا گیا ہے جس سے ہر خاص وعام کے نزدیک اس کی قدر وقیمت بڑھ گئی ہے۔ (مولانا صدر الدین اصلاحی حیات وخدمات:ص۲۶۲)
تلخیص تفہیم القرآن کا پہلا ایڈیشن 1984ء میں منظر عام پر آیا۔اب تک اس کے ایک درجن سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔اب تک یہ ایک جلد میں 1175 صفحات پر مشتمل جہازی سائز میں شائع ہوتا رہا تھا جو متداول تراجم وتفاسیر کے مقابلہ میں بڑا بھی تھا اور وزنی بھی۔2017ء میں مرکزی قیادت کے مشورے سے اسے عام سائز میں دو جلدوں میں شائع کیا گیا ہے اور دونوں جلدوں کے صفحات میں یکسانیت ہے۔یعنی جلد اول میں 1159 جب کہ جلد دوم میں 1152، اس طرح دونوں جلدوں کی مجموعی ضخامت2311 صفحات ہے۔
اپنی مذکورہ خصوصیات کی بنا پر تلخیص تفہیم القرآن ان لوگوں کے لیے نایاب تحفہ ہے جو مولانا مودودیؒ کے فکر سے آگاہی اور قرآنی ذوق کی آب یاری کے خواہش مند ہوں۔ رمضان کی مبارک ساعتوں میں اس کا مطالعہ مزید سعادتوں کا باعث ہوگا۔
***

 

***

 تلخیص تفہیم القرآن بیش قیمت خصوصیا ت کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے نایاب تحفہ ہے جو مولانا مودودیؒ کے فکر سے آگاہی اور قرآنی ذوق کی آب یاری کے خواہش مند ہوں۔ رمضان کی مبارک ساعتوں میں اس کا مطالعہ مزید سعادتوں کا باعث ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 مارچ تا 06 اپریل 2024