قرآنی بیانیے میں تکرار کی نوعیت اور معنویت

آیات اور مفہوم کی تکرار کا ایک اہم مقصد نغمگی اور تذکیر

0

ابوفہد ندوی، نئی دہلی

سورہ رحمان میں ایک آیت فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ۳۱ بار دہرائی گئی ہے، سورۂ مرسلات میں ایک آیت وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ ۱۰ مرتبہ دہرائی گئی ہے، سورۃ الشعراء میں ایک آیت انَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ۸ مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ جبکہ اس آیت کا پہلا جز انَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً دیگر کئی سورتوں میں بھی آیا ہے، سورۃ الشعراء میں ہی ایک فقرہ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ ۸ مرتبہ دہرایا گیا ہے، پھر سورہ آل عمران آیت نمبر۵۰ میں اور سورہ زخرف آیت نمبر۶۳ میں بھی یہ فقرہ آیا ہے، اور سورۃ الشعراء میں ہی  ایک اور فقرہ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۵ بار آیا ہے۔ اسی طرح سورۂ قمر میں ایک آیت فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ ‏کم از کم ۴ مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ اسی سورہ میں ایک فقرہ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ۶ مرتبہ اور ایک دوسرا فقرہ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ ۴ مرتبہ آیا ہے۔
 بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ تکرار ہے اور معترضین کی مانیں تو یہ تکرارِ محض بھی ہے۔ لیکن اگر آپ قرآن کے اسلوب پر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ تکرار نہیں ہے یا کم از کم تکرارِ محض تو بالکل بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی بذات خود ایک اسلوب ہے اور اس کی غایتِ بیان میں صوتی حسن اور نغمگی پیدا کرنا بھی ایک بڑا سبب ہے، اسی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اس نوعیت کی تکرار سے نفس مضمون کو سامع یا قاری کے دل و دماغ میں جاگزیں کرنا مقصود ہوتا ہے۔
قرآن کا اسلوب ادبی اور ابلاغی ہے اور عربی زبان میں تکرار کو معانی کی ترسیل اور ابلاغ کے لیے ایک مؤثر ذریعہ سمجھا گیا ہے، ہمیشہ سے جو سننے والوں کے دلوں میں بات کو راسخ کرتا ہے۔ عربی زبان و ادب اور خاص طور پر اس کے خطابی اسلوب و بیانیے کے ابلاغی اور ترسیلی قواعد اور طرز ادا و پیش کش کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ قرآنی بیانیے میں تکرار بلا فائدہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فنکارانہ خوبی ہے جسے مخاطب کے حالات اور ضرورت کے مطابق برتا جاتا ہے۔ خطابی اسلوب میں یہ انداز دنیا کی ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ اور عربی زبان میں اسے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
قرآن کے اسلوب اور اندازِ پیش کش پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی بیانیے میں تکرار کی نوعیت تین طرح کی ہے۔ ایک نوعیت کی تکرار ہمیں سورہ رحمان، سورہ مرسلات، سورۃ الشعراء اور سورۃ القمر میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان سورتوں میں ایک آیت کو متعدد بار دہرایا گیا ہے۔ متعلقہ آیات برسر مضمون نقل کی گئی ہیں۔
دوسری نوعیت کی تکرار بعض فقروں اور الفاظ کی تکرار ہے۔ جیسے: الْقَارِعَةُ، مَا الْقَارِعَةُ، وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقَارِعَةُ (القارعۃ)  فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ (المدثر) فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (الم نشرح) أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى، ثُمَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى (القیامۃ) اس نوعیت کی تکرار حسنِ بیان  کے لیے، معانی کی شدت اور ترکیز کے لیے اور پھر نغمگی کو پایہ انتہا تک پہنچانے کے لیے  ہوتی ہے۔ اس میں مبالغہ اور تاکید خصوصی طور پر مطلوب ہوتی ہے۔ قاری کو نفس مضمون کی طرف متوجہ کرنا اور اس کی دلچسپی کو بنائے رکھنے کے لیے یہ ایک قابل قدر اور مہتم بالشان طرز ہے۔
تیسری نوعیت کی تکرار قرآن میں احکام و مضامین اور حکایات کے حوالے سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ یعنی ایک ہی حکم متعدد مقامات پر بیان ہوتا ہے جیسے نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کا حکم اور ایک ہی مضمون خاص کر آخرت کے حوالے سے متعدد مقامات پر بیان ہوتا ہے اور ایک ہی نبی کی حکایت متعدد سورتوں میں سیاق وسباق کے تحت مختلف اجزاء میں بیان ہوئی ہے۔
قرآنی بیانیے میں ان تینوں نوعیت کی تکرار کی اپنی اپنی علتیں اور حکمتیں ہیں، بادی النظر میں جو علتیں اور حکمتیں سمجھ میں آتی ہیں ان میں تذکیر، سیاق وسباق، حسن بیان، صوتی ردھم اور لحن کا حسن خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ البتہ کہیں پر ایک پہلو زیادہ نمایاں ہے اور کہیں پر دوسرا پہلو، کہیں پر سیاق کی اہمیت بڑھی ہوئی ہے اور کہیں پر حسنِ بیان اور صوتی ردھم کی معنویت زیادہ ہے۔ ان حکمتوں کا تنوع اور اختلاف تکرار کی نوعیت کو با معنیٰ اور پہلو دار بناتی ہے۔
پھر یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ یہ صرف قرآنی بیانیے کی ہی خصوصیت نہیں ہے بلکہ فی الواقع یہ زبان کی خصوصیت ہے اور کسی بھی زبان کے ادب و انشاء اور اسلوب و بیان کی خصوصیت ہے، دنیا کی ہر زبان میں یہ اسلوب پایا جاتا ہے اور نظم و نثر دونوں طرح کی اصناف سخن میں پایا جاتا ہے، جبکہ نظم میں تو یہ اسلوب اپنی انتہاؤں کو پہنچا ہوا ہے اور مبالغہ آرائی کی حد تک دنیا کی ہر زبان کی شاعری میں ملتا ہے۔
اہل عرب اس نوعیت کے اسلوب سے خوب واقف تھے، نزول قرآن سے پہلے بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں اور نزول قرآن کے بعد بھی۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی رقم طراز ہیں:
"نزول قرآن سے پہلے جاہلی ادب میں یہ تکرار کا اسلوب بکثرت استعمال ہوتا تھا۔ عرب شعراء اس اسلوب سے نہ صرف آشنا تھے بلکہ اپنے کلام میں حسب ضرورت اسے جگہ دیتے تھے۔ مثال کے طور پر عبید بن الابرص الاسدی (555ء) کہتا ہے:
نحمي حقيقتنا وبعضُ القومِ يسقط بينَ بينا
هلا سألت جموع كندة اذ تولوا این اینا
"ہم اپنی حقیقت کی حفاظت کرتے ہیں جبکہ بعض قومیں کمزور اور بزدل ثابت ہوتی ہیں۔ تم نے کیوں نہیں کندہ کے فوجیوں سے پوچھا جبکہ وہ پیچھے ہٹ رہے تھے کہ بھگوڑو کہاں بھاگے جا رہے ہو؟”
یہاں ان دونوں اشعار میں شاعر نے این این اور بَین بَین کی تکرار کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے استعمال کی ہے۔
اسی طرح عوف بن عطیہ بن خرع الربابی کہتا ہے:
و کادت فزارۃ لصلیٰ بنا فاولی فزارۃ اولیٰ فزارۃ
"قریب تھا کہ فزارہ ہم سے سکون اور ہمدردی حاصل کرتی، افسوس ہے فزارہ پر افسوس ہے فزارہ پر”
(بحوالہ : تکرار-قرآن کا ایک اہم اسلوب از عبید اللہ فہد فلاحی، سہ ماہی تحقیقات اسلامی، علی گڑھ، انڈیا)
اردو شاعری میں بھی یہ تکنیک بہت عام ہے۔ شاعر اپنی نظم کے مرکزی خیال یا جذبے کو اجاگر کرنے کے لیے ایک مصرعے کو بار بار دہراتا ہے، اور ہر دفعہ اس کے گرد نئے اشعار اور خیالات لاتا ہے۔ مثال کے طور پر فیض احمد فیض کی نظم "بول کے لب آزاد ہیں تیرے” میں لفظ "بول” کی تکرار ایک امید اور عزم کا احساس دلاتی ہے، اور ہر بار نیا تناظر اسے تقویت دیتا ہے۔ یا پھر اقبال کی نظموں میں "شکوہ” اور "جوابِ شکوہ” میں کلیدی خیالات کی تکرار ان کے فلسفیانہ پیغام کو گہرا کرتی ہے۔
اردو نظم میں بھی ایک مصرعہ کو جسے اصطلاح میں ترجیع بند کہا جاتا ہے، بار بار دہرایا جاتا ہے اور اس سے کلام میں حسن و توازن پیدا کیا جاتا ہے اور معنیٰ پر فوکس کیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے ایک ہی معنیٰ کی ترکیز مقصود ہوتی ہے تاکہ پڑھنے والے اور سننے والے کے ذہن میں یہ معنیٰ پوری طرح اتر جائیں۔ اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ اس نوعیت کی تکرار کلام کا حسن ہے اور اسلوب کی خصوصیت ہے، نہ کہ قرآنی بیانیے کی انفرادیت؟
اردو کے معروف شاعر اسد اللہ خاں غالبؔ کے کلام میں مضامین کی تکرار کے بعض نمونے ملاحظہ کریں:
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے
ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالبؔ
آخر تو کیا ہے اے نہیں ہے
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
خود قرآن نے اپنے بیانیے میں تکرار کی علت بیان کی ہے، ارشاد ہے: وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ )الذاريات: (٥٥‏ ترجمہ: "اے نبی! تم اہل ایمان کو یاد دہانی کراتے رہو کہ اس سے انہیں فائدہ ہوتا ہے” اس آیت کے لحاظ سے تکرار دراصل یاد دہانی کے لیے ایک کارگر علت کے طور پر اسلوب میں رکھی جاتی ہے۔ اسی بات کو قرآن نے ‘تصریف آیات’ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ سورۂ انعام میں ہے: اُنظُر کَیفَ نُصَرِّفُ الاٰیٰتِ لَعَلَّھُم یَفقَھُونَ (الانعام: ۶۵) ترجمہ: "دیکھو! ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان پر پیش کر رہے ہیں” یہی آیت سورہ انعام میں مزید دو جگہوں پر اور سورہ اعراف میں بھی ایک مقام پر آئی ہے۔ اور ہر جگہ اس آیت کا آخری فقرہ بدلا ہوا ہے، ایک جگہ ‘یشکرون’ ہے، دوسری جگہ ‘یعلمون’ اور تیسری جگہ ‘یفقھون’ ہے۔ دیکھیے قرآن نے اس بات کو بھی تکرار کے ساتھ بیان کیا ہے مگر ہر جگہ متن یکساں نہیں اور اسلوب ہر جگہ مختلف ہے اور ظاہر ہے کہ توارد تو مختلف ہے ہی اور پھر ہر جگہ سیاق و سباق بھی بدلا ہوا ہے، یہ گویا قرآن نے تکرار کی گرانی کو منہا کرنے کے لیے کیا ہے اور متن میں حسن و جاذبیت بڑھانے کے لیے بھی۔
اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی تکرار نظر آتی ہے ہرجگہ اس کا توارد مختلف ہوتا ہے، مقصد و غایت مختلف ہوتی ہے اور سیاق وسباق مختلف ہوتا ہے۔ مثلا اگر بسم اللہ الرحمن الرحیم کو سورہ فاتحہ کی پہلی آیت قرار دیں تو یہ آیت یہاں سورہ فاتحہ میں بھی موجود ہے اور سورہ نمل میں بھی موجود ہے۔ مگر آپ دیکھیں گے کہ دونوں جگہ توارد مختلف ہے۔ سورۂ فاتحہ میں اس کی نوعیت آغاز کلام کی ہے اور اس کے معانی دعائیہ پیرایہ بیان کے توارد کے حامل ہیں۔ جبکہ سورہ نمل کی آیت إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللہ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ‎﴿النمل: ٣٠﴾‏ کا آیت کا توارد اطلاعی اور خبریہ ہے۔ اور یہاں اس سے کئی پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ ایک تو خود ملکہ سبا اور اس کے درباریوں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایمان و عقیدے کے بارے میں پتہ چل جاتا ہے کہ حضرت سلیمان کس خیال کے آدمی ہیں، خط کے دوسرے حصے بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔ اور دوسرے اس سے انبیاء کرام کے انداز خطاب کا بھی پتہ چلتا ہے اور ان کی اس سنت کا بھی کہ وہ ہر کام اللہ کے نام سے شروع کرتے تھے۔
اسی طرح سورہ الرحمٰن میں مذکورہ آیت ۳۱ مرتبہ دہرائی گئی ہے اور ہر دفعہ یہ اللہ کی مختلف نعمتوں یعنی زمین و آسمان کی تخلیق، سمندر، ستارے، پھل، جن و انس کی پیدائش کے ذکر کے بعد آتی ہے۔ یہ تکرار سننے والے کو ایک تسلسل کے ساتھ اللہ کی نعمتوں پرغور کرنے اور ان کا شکر ادا کرنے کی طرف مائل کرتی ہے۔ یہ تکرار ایک مسحور کن لہجہ اور لحن پیدا کرتا ہے جو دل و دماغ میں گہرائی تک اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس نوعیت کی تکرار سے نہ صرف یہ کہ نفس مضمون قاری یا سامع کے دل و دماغ میں پیوست ہو جاتا ہے بلکہ یہ سماعتوں کے لیے بھی خوش گوار لحن پیدا کرنے میں بھی اپنا سا رول اداکرتی ہے۔ اس تکرار سے ایسا آہنگ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی طرف دل مائل ہوتے ہیں اور قاری یا سامع روحانی اور جذباتی ونفسیاتی طور پر اس کے ساتھ بندھ سا جاتا ہے۔
اسی طرح قرآن میں بعض مضامین، مثلاً انبیاء کی کہانیاں، اللہ کی قدرت کے دلائل اور آخرت کا ذکر بار بار آتا ہے لیکن ہر دفعہ ان میں سے ہر ایک کا تناظر اور زاویہ مختلف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قصہ مختلف سورتوں میں آتا ہے، لیکن ہر جگہ اس کا مقصد، نوعیت اور تناظر الگ ہے، کبھی فرعون کے مقابلے میں توحید کی دعوت ہے، کبھی بنی اسرائیل کی نا شکری کا ذکر ہے اور کبھی اللہ کی نصرت کا ثبوت پیش کیا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ تنوع اور توارد کا اختلاف تکرار کو با مقصد بناتا ہے اور تکرار بے فائدہ اور بلا ضرورت نہیں ٹھیرتی۔
اسی طرح سورہ البقرہ میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ذکر اللہ کی خلافت اور انسان کے مقام کے حوالے سے ہے، جبکہ سورہ الحجر (آیت: 26) یا سورہ طہٰ (آیت: 115تا126) میں وہی واقعہ شیطان کے تکبر اور اس کے نتائج کے تناظر میں آتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی نعمتوں کا ذکر کبھی شکر کی تلقین کے لیے تو کبھی کفرانِ نعمت کے انجام سے ڈرانے کے لیے اور کبھی توحید کے دلائل کے طور پر آتا ہے۔ یہ مختلف تواردات مماثل آیات کو مختلف الجہت بناتے ہیں اور قرآن کے پیغام کو مزید قابل تفہیم، قابل ادراک اور توجہ کے قابل بناتے ہیں۔
قرآن میں مختلف انبیاء جیسے حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم، حضرت نوح اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کے واقعات کئی سورتوں میں دہرائے گئے ہیں، لیکن ہر بار ایک نیا زاویہ، سبق، پیغام اور سیاق وسباق نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت موسیٰ اور فرعون کی داستان سورۃ البقرہ (آیات 49-50) سورۃ یونس (آیات 75-93) اور سورۃ طہ (آیات 9-98) میں مختلف انداز سے بیان ہوئی ہے۔ ہر جگہ توارد اور تخاطب مختلف ہے جیسے ظلم کے خلاف مزاحمت یا اللہ کی قدرت کا اظہار وغیرہ
اللہ کی صفات جیسے "رحمان” اور "رحیم”  قرآن میں بار بار آتی ہیں۔ ہر سورت کے آغاز میں "بسم اللہ الرحمان الرحیم” اس کی سب سے واضح مثال ہے۔ مگر ہر جگہ ان کا سیاق و سباق اور توارد مختلف ہے۔ رحمان و رحیم کی تکرار سے اللہ کی ‘رحمت’ کی اہمیت دلوں میں جاگزیں ہوتی ہے۔ اور قرآن کے طالب علم کو پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی اصل صفت یہی ہے اور کل کائنات اللہ کی اسی صفتِ رحمت کا مظہر ہے، اس کے بر عکس اللہ کی جو صفت غضب ہے وہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہے، صفت غضب وجہِ تخلیقِ کائنات نہیں ہے، وجہ تخلیق کائنات صفت رحمت ہی ہے۔ اور اسی بات کی یاد دہانی کے لیے قرآن کا آغاز صفات "رحمان و رحیم” سے ہوتا ہے۔ خود قرآن نے بھی اعلان کیا ہے:  وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ‎﴿الأعراف: ١٥٦﴾‏  یعنی اللہ کی رحمت ہر شئی کو محیط ہے جبکہ صفت غضب یا انتقام کے بارے میں قرآن نے کہا ہے: قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ‎﴿الأعراف: ١٥٦﴾‏ یہ اوپر والی آیت کا ہی پہلا حصہ ہے اور اس سے عذاب کی تخصیص اور رحمت کا عموم ثابت ہوتا ہے۔
قرآن میں جنت کی نعمتوں اور جہنم کے عذاب کا بار بار ذکر ملتا ہے تاکہ انسان کو نیکی کی ترغیب دی جائے اور گناہ سے روکا جائے۔ مثال کے طور پر سورہ الواقعہ (آیات 12-40) اور سورہ الطور (آیات 17-28) میں جنت کا بیان ملتا ہے، جبکہ سورہ الحاقہ (آیات 25-37) اور سورہ المدثر (آیات 27-30) میں جہنم کی تفصیلات دہرائی گئیں۔
قرآن میں نماز قائم کرنے اور اللہ کی عبادت کا حکم کئی بار آیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ البقرہ (آیت 43) سورہ النساء (آیت 103) اور سورہ طہ (آیت 14) میں "أَقِيمُوا الصَّلَاةَ” کا ذکر مختلف سیاق و سباق میں ملتا ہے۔
قرآن میں آسمان، زمین، سورج، چاند اور دیگر مخلوقات کے ذکر بار بار کیا گیا ہے تاکہ انسان اللہ کی تخلیق پر غور کرے۔ مثال کے طور پر سورۃ النحل (آیات 3-18) سورۃ یٰسین (آیات 33-40) اور سورۃ الشمس (آیات 1-6) میں کائناتی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
ہر زبان کے ادب میں اور بطور خاص شعری صنف سخن میں یہ بات بھی ملاحظہ کی جاتی ہے کہ ایک ہی معنیٰ کو پیرایہ اور عنوان بدل بدل کر بار بار بیان کیا جاتا ہے۔ فارسی زبان میں تو یہ طرز اسلوب و ادا اپنی انتہا پر نظر آتا ہے۔ مولانا روم کا شعر ہے:
یکے گنجے پدید آمد دکان زر کوبی
زہے صورت زہے معنیٰ زہے خوبی زہے خوبی
اس شعر میں ‘زہے’ اور ‘خوبی’ کی تکرار ہے۔ اور اس میں بھی یہی خوبی ہے۔ اس میں بھی معانی کی ترکیز ہے، بیان کا حسن ہے اور صوتی نغمگی کا ترفع مقصود ہے۔
اسی طرح امیر خسرو کی مشہور نظم ‘شب جائے کہ من بودم’ میں یہی کلیدی الفاظ بار بار دہرائے گیے ہیں۔
بو علی شاہ قلندر کی مشور غزل ہے، جس میں ہر شعر کے آخر میں ‘نمی دانم کجا رفتم’ آتابہے۔ اور اس کی وجہ سے انتہا درجے کی شعریت، سریت اور نغمگی پیدا ہو گئی ہے، نمونہ ملاحظہ کریں:
منم محو جمال او نمی دانم کجا رفتم
شدم غرق وصال او نمی دانم کجا رفتم
غلام روئے او بودم اسیر موئے او بودم
غبار کوئے او بودم نمی دانم کجا رفتم
بہ آں مہ آشنا گشتم ز جان و دل فدا گشتم
فنا گشتم فنا گشتم نمی دانم کجا رفتم
محمد ابراہیم ابرؔ مرزا پوری کی فارسی غزل کا یہ مطلع بھی دیکھیں، اس میں ‘کجا رفتم’ کی تکرار کیسی خوبی اور حسن پیدا کر رہی ہے:
دل اندر نور او بستم نمی دانم کجا رفتم
کجا رفتم کجا رفتم نمی دانم کجا رفتم
اس کے علاوہ شاعری میں مضامین کی تکرار سے تو کسی بھی شاعر کا کلام خالی نہیں ہے۔اور اس تکرار کو زیادہ برا بھی نہیں سمجھا جاتا بس یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک ہی معنیٰ کو کس شاعر نے کتنی ہنر مندی اور خوبصورتی کے ساتھ برتا اور بیان کیا ہے، حتیٰ کہ ایک ہی شاعر کے یہاں ایک ہی معنیٰ کی تکرار کے پس منظر میں بھی یہی دیکھا جاتا ہے کہ حسن و خوبصورتی کس میں زیادہ ہے۔
قرآن میں بھی اسی طرح ہے کہ ایک ہی حکم اور ایک ہی وقوعہ پیرایہ، توارد اور سیاق و سباق بدل بدل کر متعدد بار بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں تکرار کی ایک نمایاں علت یہ بھی ہے کہ قرآن موقع و محل کے اعتبار سے جستہ جستہ نازل ہوا ہے، یکبارگی نازل نہیں ہوا۔ اس لیے اس میں مخاطب اور حالات کی رعایت کی وجہ سے مضامین کی تکرار لازمی طور پر آگئی ہے۔ ایک موقع پر مخاطب کو ایک طرح کے حکم اور حکمت و نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے اور دوسرے وقت میں اسی مخاطب کو پھر اسی حکم اور حکمت و نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ایک ہی موقع پر ایک مخاطب کے لیے حکم اور خیر خواہی کا تقاضا الگ ہے اور دوسرے مخاطب کے لیے دوسرا تقاضا۔ اس لیے ایک ہی طرح کے احکام اور پند ونصائح کو بار بار بیان کیا گیا ہے البتہ یہ التزام ضرور کیا گیا کہ ہر جگہ اسلوب اور پیرایہ مختلف رہے تاکہ تکرارِ بے جا سے بچا جاسکے اور مخاطب کی گرانیِ طبع اور سمع خراشی کا باعث نہ ہو۔
قرآنی بیانیے میں مضامین کی تکرار کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ قرآن کا طالب علم جہاں سے بھی قرآن کھولتا ہے اور جتنا حصہ بھی پڑھتا اور مطالعہ کرتا ہے اسے بیشتر احکامات، تصورات اور نصح و خیر خواہی کی باتیں ایک جگہ جستہ جستہ مل جاتی ہیں، حتیٰ کہ حکایات اور واقعات پڑھتے ہوئے بھی اسے حکمت و موعظت اور انذار و تبشیر پر مبنی بیانیہ پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ اور اس طرح تکرار قرآن کے ایک بڑے اور اہم مقصد کو پورا کرتی ہے۔
لہذا یہ کہنا ہر طرح سے مناسب اور بجا ہے کہ قرآن میں تکرار بہت ہی سادہ نوعیت کی تکرار نہیں ہے بلکہ یہ بھی ہمیں قرآن کے لسانی، ادبی اور فنکارانہ معجزے کے طور پر دیکھنے کو ملتی ہے اور اس کی بھی اپنی بہت سی علتیں اور حکمتیں ہیں، جن میں سے بعض ہم معلوم کر سکتے ہیں اور کتنی معلوم بھی نہیں کرسکتے، قرآن میں تکرار مختلف سیاق و سباق میں آتی ہے اور قرآنی بیانیے میں خوبصورتی اور دلکشی پیدا کرتی ہے جس نے ماہرین لسانیات، مبصرین، اسکالروں اور علماء وفضلاء کو ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ کیا عرب اور کیا عجم جس نے بھی قرآن کو پڑھا ہے وہ اس کے متن کی دلکشی اور خوبصورتی و رعنائی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ہے۔ قرآن ہمیشہ اسی طرح اپنے قاری کو متاثر کرتا رہے گا، نہ اس کی رعنائی و دلکشی میں کچھ فرق آئے گا اور نہ اس کے معانی کبھی از کار رفتہ قرار دیے جا سکیں گے۔ 

 

***

 قرآن میں تکرار مختلف سیاق و سباق میں آتی ہے اور قرآنی بیانیے میں خوبصورتی اور دلکشی پیدا کرتی ہے جس نے ماہرین لسانیات، مبصرین، اسکالروں اور علماء وفضلاء کو ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ کیا عرب اور کیا عجم جس نے بھی قرآن کو پڑھا ہے وہ اس کے متن کی دلکشی اور خوبصورتی و رعنائی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ہے۔ قرآن ہمیشہ اسی طرح اپنے قاری کو متاثر کرتا رہے گا، نہ اس کی رعنائی و دلکشی میں کچھ فرق آئے گا اور نہ اس کے معانی کبھی از کار رفتہ قرار دیے جا سکیں گے۔ 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 مئی تا 10 مئی 2025