قیس یوپی میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

لالہ رام دیو اور بھوگی آدتیہ ناتھ سیاسی رنگ منچ کے کھلاڑی

ڈاکٹر سلیم خان

عوام کے لیے الگ قانون اور حکومت نوازوں کے لیے الگ
للن ہریانوی نے کلن جئے پوری سے کہا  "دیکھا تم نے یہ لوگ آسارام اور رام رحیم کے بعد اب بابا رام دیو کے پیچھے پڑ گئے”
"اچھا تو کیا تمہارا لالہ رام دیو بھی کسی سیکس اسکینڈل میں پھنس گیا؟”
"جی نہیں، ایسی بات نہیں ہے لیکن تم ہمارے بابا کو لالہ کہہ کر ان کی تو ہین کر رہے ہو”
"کیوں اس میں تضحیک کی کیا بات ہے؟” تمہاری دکان کے مالک گھسیٹا رام تو اپنا تعارف کراتے ہوئے خود کو بڑے فخر سے لالہ کہتے ہیں”
للن بولا "جی ہاں مجھے پتہ ہے۔ ہم لوگ جب انہیں لالہ جی پرنام کہتے ہیں تو ان کا سینہ پھول کر کپّا ہوجاتا ہے لیکن بابا جی کو تم ایسا نہیں کہہ سکتے”
"کیوں نہیں کہہ سکتے؟ آخر اس کی کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیے”
"بھئی ہمارے بابا جی بھگوا وستر دھارن کرکے دھرم کرم کا کام کرتے ہیں دھندہ بیوپار نہیں کرتے” 
کلن نے سوال کیا۔ "اچھا تو کیا پتانجلی کا کاروبار کوئی ڈھونگی بابا چلاتاہے؟ خیر یہ بتاو کہ تمہارے لالہ جی کے پیچھے کون پڑ گیا؟”
"وہی ہندو دھرم کے دشمن اور کون؟” پچھلے دنوں بابا جی نے کہا تھا نا کہ سناتن کو ختم کرنے والے خود فنا ہو جائیں گے”
"اچھا تو کیا اسٹالن نے لالہ رام دیو کو ہی مٹانے کا بیڑہ اٹھا لیا؟ کہیں ان کے خلاف کوئی مقدمہ وقدمہ تو نہیں ٹھونک دیا؟”
"ارے نہیں بھیا اس اسٹالن کے بچے بلکہ بیٹے دیاندھی کو تو ہم ہی لوگ عدالت میں پریشان کر رہے ہیں۔ وہ ہمارا کیا بگاڑے گا؟”
"اچھا تو پھر کس کے ہتھے چڑھ گیا تمہارا لالہ رام دیو؟”
"کوئی آئی ایم اے ہے جس نے ایک سال قبل بابا جی کے خلاف ایک فرضی مقدمہ  درج کرا دیا تھا”
"آئی اے ایم  نہیں ایم آئی ایم ہوگی۔ تلنگانہ کا انتخاب سامنے ہے اس لیے بیرسٹر اویسی نے تمہارے لالہ رام دیو کے خلاف کوئی شوشہ چھوڑ دیا ہوگا”
"یار کلن تم سمجھتے کیوں نہیں؟ کیا تم نے مجھے اتنا بیوقوف سمجھ رکھا ہےجو  ایم آئی ایم اور آئی ایم اے کا فرق نہیں جانتا ہو؟”
"دیکھو یار للن، تم کتنے بڑے احمق ہو یہ تو خود بھی نہیں جانتے پھر میں کیسے جان سکتا ہوں؟ خیر آئی ایم اے جو بھی ہے اس کا لالہ رام دیو سے کیا بیر؟”
"بھیا یہ کوئی انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن ہے۔ مجھے تو لگتا ہے یہ سب رام کے دشمن ہیں۔ رام دیو کو آسارام پھر رام رحیم کے اس جیل میں بھیجنا چاہتا ہے”
"اچھا تو تمہاری رام بھکت سرکار کیا کر رہی ہے؟ وہ انہیں بچا کیوں نہیں سکی؟ رام مندر پر سیاست کرنے والی ایسی پاکھنڈی حکومت پر لعنت ہے”
للن بولا، "یار تم تو موقع پاتے ہی لعنت ملامت کرنے لگتے ہو لیکن یہ سوال میرے بھی ذہن میں کھٹک رہا ہے کہ آخر ہماری سرکار کیا کر رہی ہے؟”
"بھیا، تم نے سنا ہوگا چور چور موسیرے بھائی۔ یہ سب مجرم ہیں اپنی حکومت کو دیکھ کر ان کے حوصلے بلند ہوگئے اور یہ لوگ لوٹ مار میں جٹ گئے”
للن نے سوال کیا "وہ تو ٹھیک ہے پھر بھی حکومت انہیں قانون کے چنگل سے چھڑانے میں کیوں ناکام ہوگئی؟”
"بھائی کوشش تو کی لیکن جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو سرکار نے اپنی کرسی بچانے کے لیے ہاتھ کھڑے کردیے اور انہیں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا”
للن نے کہا "ان لوگوں نے چونکہ موجودہ   سرکار کو اقتدار میں لانے کے لیے ہاتھ بٹایا تھا، اس لیے یہ احسان فراموشی درست نہیں لگتی”
"آسارام نے سبھی اہم رہنماوں کو آشیرواد  دیا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواتین کی عزت لوٹنے لگے۔ پاپ کا گھڑا تو پھوٹ ہی جاتاہے”
"جی ہاں جنسی استحصال کا لائسنس تو کسی کو نہیں مل سکتا اس لیے رام رحیم بھی جیل گیا مگر بابا رام دیو نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی”
"ارے بھیا، اس کے کرتوت ابھی سامنے نہیں آئے لیکن اس کا وہ عوامی بیان تو تم نے پڑھا ہی ہوگا کہ خواتین بغیر کپڑے کے بھی اچھی لگتی ہیں”
"ہاں یار نائب وزیر اعلیٰ کی اہلیہ سمیت سینکڑوں عورتوں کے سامنے وہ بات سن کر میں چونک پڑا تھا لیکن چونکہ روحانی شخصیت ہیں اچھی نیت سے کہا ہوگا؟”
"نیت کو کون جانتا ہے، دنیا میں بھلے برے کا فیصلہ تو عمل کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ میں اچھی نیت سے تمہاری جیب کاٹ لوں تو کیا تم میرا شکریہ ادا کروگے؟”
"اچھی نیت سے جیب کاٹنا سمجھ میں نہیں آیا”
"فرض کرو کہ میرے پاس رقم نہیں ہے اور مجھے اپنے بچے کی فیس بھرنا ہے تو میں نے تمہاری جیب صاف کرلی۔ اب تم کیا کروگے؟”
"بھیا میں تو پولیس میں شکایت کروں گا مگر ہمارا بابا رام دیو کوئی جیب کترا تھوڑی ہے؟”
"بھیا للن جیب میں رقم ہی کتنی ہوتی ہے جو جیب کترا مالا مال ہوجائے۔ وہ ڈکیت تو لوگوں کو بیوقوف بناکر ہزاروں کروڑ کا مالک بن گیا ہے”
"ارے بھائی، اس ملک میں کاروبار کرنا کوئی پاپ ہے کیا؟ بابا رام دیو نے پتانجلی کی دوائیوں اور یوگاسن کی مدد سے تجارت کی اس میں کیا غلط ہے؟”
"اچھا للن یہ بتاو کہ تم یوگا اور آیوروید کے بارے میں کیا جانتے ہو؟”
"وہی جو رام دیو ٹیلی ویژن پر آکر بتاتے ہیں۔ سانس لینا اور چھوڑنا۔ پیٹ پھلانا اور پچکانہ وغیرہ۔ اسی طرح  کے علاج کو آیوروید جڑی بوٹیوں سے علاج کہتے ہیں۔
یہی تو فرق ہے کہ یوگا نامی ورزش خود کو صحت مند رکھنے کے لیے کی جاتی ہے اور آیوروید سے بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔ ان دونوں کا کیا لینا دینا؟”
"کیوں صحت اور بیماری میں کیا کوئی تعلق نہیں ہے؟”
"بھیا جب یوگ کسی کو صحتمند رکھنے میں ناکام ہوجائے تو آیوروید کی ضرورت پڑتی ہے یعنی ایک کے خاتمہ پر دوسرے کی شروعات ہوتی ہے”
"اچھا تو کیا ان دونوں کو ملا کر باباجی اپنے بھکتوں کو بیوقوف بنایا کرتے ہیں؟”
"اور نہیں تو کیا؟ اب پتانجلی کا تیل، گھی اور ٹوتھ پیسٹ اس میں کون سی جڑی بوٹیوں کا علاج ہے؟ یہ تو رام نام کی لوٹ ہے بھیا لوٹ سکو تو لوٹ لو”
"وہ تو ٹھیک ہے مگر آئی ایم اے کو ان کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟”
وہ ایسا ہے کہ تمہارے لالہ رام دیو نے اپنا مال بیچنے کی خاطر ایلوپیتھی پر اوٹ پٹانگ بہتان تراشی شروع کردی اور عوام کو گمراہ کرنے بلکہ اکسانے لگا”
للن بولا "ارے بھائی، ہمارے بابا لوگوں کی جان سے کھلواڑ سے کیسے کرسکتے ہیں؟
انٹرنیٹ پر دیکھو اس لالہ نے کورونا کی ویکسین کے بارے میں اور اس کے علاج سے متعلق کیسی غلط سلط باتیں پھیلائیں؟”
"اچھا تب تو اس کے چکر میں آکر مرنے والوں کا وہ قاتل ہو گیا۔ لیکن بابا نے لوگوں کو کورونا کی وبا سے بچانے کے لیے کچھ کیا بھی یا نہیں؟”
"جی ہاں، کورونل نام کی ایک نقلی دوا بنائی جو غیر قانونی تھی۔ اس کو عدالتی کارروائی کے بعد بازار سے ہٹانا پڑا” 
"اچھا تو کیا اسی لیے انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے عدالت سے رجوع کیا تھا؟”
"اس سے بھی سنگین الزامات ہیں۔ اس نے ایلوپیتھی کو سازش اور قاتل قرار دیا۔ اس سے معاشرے میں ڈاکٹروں کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا؟”
"یار وباء کے دوران اپنی جان پر کھیل کر لوگوں کا علاج کرنے والوں کے خلاف ہمارے بابا نے ایسا کیوں کیا؟”
"یہ غلیظ حرکت اپنی تجارت چمکانے کے لیے کی گئی تھی للن۔ ایسے قاتلوں کو بیچ چوراہے پر پھانسی دینی چاہیے”
"اسی لیے تو عدالتِ عظمیٰ نے اس پر اتنا سخت تبصرہ کیا کہ اگر وہ اس طرح کی غلط بیانی جاری رکھے گا تو ہر سامان پر ایک کروڑ روپے کا جرمانہ لگایا جائے گا”
"یار کلن مجھے تو وہ مسلمان جج کی شرارت لگتی ہے”
کلن نے کہا "یار میں یہ تو نہیں جانتا  لیکن اگر عدالت میں تم جج ہوتے تو لوگوں کی جان سے کھلواڑ کرنے والے کے ساتھ کیا سلوک کرتے؟”
للن کچھ دیر سوچ کر بولا "میں تو اس کو پھانسی دے دیتا”
"اب بولو کہ اس مسلمان جج نے سختی کی یا نرمی سے کام لیا؟”
"ہاں یار کلن میں سوچتا ہوں کہ آخر سرکار اس حرام خوری پر کارروائی کیوں نہیں کرتی، وہ حلال مصنوعات کے پیچھے کیوں پڑی ہوئی ہے؟”
"بھیا للن حرام خوروں سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ ایسا کرنے سے نوٹ اور ووٹ دونوں ملتے ہیں تو کیوں نہ کیا جائے؟”
"ووٹ اور نوٹ والی بات سمجھ میں نہیں آئی؟”
"بھائی دیکھو، حلال کی مخالفت سے خوش ہوکر تم جیسے اندھ بھکت ووٹ دیتے ہیں اور رام دیو جیسوں کو تحفظ دینے والے منافع میں سے نوٹ بناتے ہیں”
"ہاں یار یہ تو ڈبل انجن سرکار کا ڈبل  استحصال ہے”
"اور نہیں تو کیا مگر اس کھیل کا ایک تیسرا فائدہ بھی ہے”
"تیسرے فائدے والی بات بھی سمجھ میں نہیں آئی”
"ارے بھیا پتانجلی کے اشتہارات کی مدد سے میڈیا کو اپنی گود میں رکھا جاتا ہے”
"ہاں بھائی کلن وہی میں سوچ رہا تھا کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ میڈیا میں کیوں نہیں آتا؟”
"ایسا نہیں ہے للن۔ میڈیا کے اندر لالہ رام دیو کی پریس کانفرنس تفصیل سے شائع ہوتی ہے”
للن نے حیرت سے پوچھا "اچھا چوری اور سینہ زوری۔ یار کمال ہے مودی جی تو پریس کانفرنس نہیں کرتے مگر اس معاملے کے بعد رام دیو بابا نے کر دی؟”
"جی ہاں اس نے کہا کہ یہ اسے بدنام کرنے کی سازش ہے؟ الزامات ثابت ہوجائیں تو وہ سو کروڑ روپے جرمانہ ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہے بلکہ پھانسی چڑھ جائے گا”
للن نے کہا "یہ باتیں تو اس کو عدالت   میں کرنی چاہئیں پریس کانفرنس میں کیوں کر رہا ہے؟”
"بھیا اڈانی کو بھول گئے۔ اس نے بھی اپنی بدعنوانی چھپانے کے لیے ملک کے خلاف سازش کا شور مچایا تھا۔ یہ بھی اسی قبیل کا بدمعاش ہے”
للن بولا "یار پھانسی والی پیشکش تمہیں  یاد ہے؟ نوٹ بندی کے بعد چوارہے پر پھانسی کی پیشکش تو اس کے آقا پردھان نے بھی کی تھی”
"یار للن، اڈانی تو ٹھیک ہے لیکن تم بابا رام دیو کو پردھان جی کا غلام کیسے کہہ سکتے ہو؟”
"کیوں؟ کیا کوئی آقا ایک سے زیادہ غلام نہیں رکھ سکتا؟ اور پھر جیسی مودی کی خدمت بابا رام دیو نے کی اس کے آگے تو اڈانی بھی فیل ہے”
"وہ کیسے؟ اڈانی کی کمائی سے مودی نے الیکشن کی مہم چلائی۔ اس کے جہاز میں بیٹھ کر احمد آباد سے دہلی گئے اور اب سرکار چلا رہے ہیں”
"ہاں للن، لیکن حکومت سازی کے لیے نوٹ کے ساتھ ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے اور رام دیو نے تو 2011 سے بدعنوانی کے خلاف مہم چھیڑ دی تھی”
"تو کیا سرکاری بدعنوانی کے خلاف تحریک چلانا کوئی جرم ہے؟”
"جی نہیں لیکن اس معاملے میں تفریق و امتیاز نیت کے کھوٹ کو بے نقاب کرتا ہے”
للن نے پوچھا "بھیا تمہاری بات اوپر سے نکل گئی”
"دیکھو منموہن سنگھ کے زمانے میں جھوٹے الزامات پر تحریک چلانے والے بابا رام دیو سے جب 2015 میں بدعنوانی  سے متعلق پوچھا گیا تو جانتے ہو اس نے کیا کہا؟”
"نہیں یار پڑھا بھی ہوگا تو یاد نہیں۔ اتنے سال پرانی بات کہاں یاد رہتی ہے؟”
"اس نے کہا تھا کہ میں سائنس داں اور سنت ہوں اس لیے بدعنوانی پر کچھ نہیں کہوں گا”
"یار کمال ہے، تو کیا کانگریس کے زمانے میں وہ سیاست داں تھے؟”
"بھیا سیاست داں تو اب بھی ہے مگر چولا بدل لیا ہے۔ اس نے 2018 میں انکشاف کر دیا تھا کہ نریندر مودی بہت جلد نیرو مودی کو واپس لے آئیں گے”
"اچھا! چار سال تو گزر چکے ہیں، اب وہ اس کے لیے تحریک کیوں نہیں چلاتے؟”
"ارے بھیا تحریک چلانا تو دور جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ پٹرول سستا کیوں نہیں ہوا تو بھڑک جاتا ہے اور مارنے کو دوڑتا ہے”
"کمال ہے یار، پرنب کے ڈر سے جو عورتوں کا لباس پہن کر بھاگ گیا تھا وہ اب اتنا بڑا شیر بن گیا ہے؟”
"جی ہاں وقت وقت کی بات ہے۔ اب تو اس نے اراولی کے جنگلات کی زمین خرید کر پلاٹنگ بھی شروع کردی ہے”
"لیکن جنگل کی زمین خریدنا تو ممنوع ہے؟”
جی ہاں، لیکن یہ قوانین ہم جیسے لوگوں کے لیے ہیں۔ اڈانی کو کان کنی کرنی ہو یا رام دیو کو زمین بیچنی ہو تو قانون کے اندر لچک پیدا ہوجاتی ہے”
"یار کلن، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ سب کے لیے یونیفارم کوڈ نافذ کرنے والے  اڈانی اور رام دیو پر یکساں قانون کیوں  نافذ نہیں کرتے”
"بھیا اس ملک میں دو قانون ہیں ایک حکم رانوں کے لیے اور دوسرا ان کے مخالفین یا رعایا کے لیے”
"جی ہاں وہ تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں” بدعنوان رہنماوں کے پارٹی بدل کر حزب اقتدار جماعت میں شامل ہوتے ہی سارے پاپ دھل جاتے ہیں”
کلن بولا "اور رام دیو بابا تو اپنے ہی آدمی ہیں۔ ان کا بال بیکا کون کرسکتا ہے؟”
"ارے بھیا، ان پر کوئی کارروائی تو دور انہیں باقاعدہ تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جیسا کہ حلال کا معاملہ اٹھا کر ڈھونگی جی کر رہے ہیں”
"یہ درمیان میں ڈھونگی جی کہاں سے آگئے؟”
"اورے وہی تمہارے یوگی مہاراج جن کو لوگ بھوگی جی بھی کہتے ہیں”
"یار مجھے تو لگتا ہے کہ اگر خدانخواستہ  مودی کے بعد یوگی جی ان کی جگہ لے لیں تو اڈانی کو رام دیو سے بدل دیا جائے گا”
للن نے کہا "ہاں بھائی، سیاست میں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے”
"جی ہاں یوگی اور رام دیو کی رام ملائی جوڑی بھی غضب کی ہے۔ ایک حرام کی سیاست کرتا ہے اور دوسرا حرام خوری کی تجارت کرتا ہے”
للن نے کہا "یار ان پر تو غالب کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
قیس یوپی میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 دسمبر تا 9 دسمبر 2023