قضیہ فلسطین اور اس کی شرعی حیثیت

مسجد اقصیٰ کی حفاظت دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے مسلمان کے لیے کیوں ضروری ؟

محمد جرجیس کریمی

ساری عالمی طاقتیں فلسطینیوں کے سامنے عاجز ہیں مگر مجاہدین کے حوصلوں میں تھوڑی سی بھی کمی نہیں
فلسطین اور بیت المقدس کو مذہبی حیثیت سے نمایاں مقام حاصل ہے۔ امت مسلمہ کے تمام مسالک فرقوں اور ان کے مکاتب فکر کا اس بات پر اتفاق ہے، اسلامی ماخذ میں بیت المقدس کی مختلف فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور امت پر اس کا دفاع، اس کی حمایت اور اس کا تحفظ واجب ہے۔
بیت المقدس کی اس اہمیت کی مختلف اسباب ،وجوہ اور دلائل ہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی نے ان دلائل کو مختلف عناوین کے تحت بیان کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
بیت المقدس قبلہ اول
مسلمانوں کے لیے اور ان کے شعور اور مذہبی فکر میں سب سے پہلی چیز جس کی نمائندگی ہوتی ہے وہ قبلہ اول ہے، جس کی طرف رسول اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرامؓ نے نماز ادا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔اسراء ومعراج کی رات میں نماز فرض کی گئی۔ یہ واقعہ نبوت ﷺ کے دسویں سال یعنی ہجرت سے تین سال پہلے پیش آیا۔ مکہ میں مسلمان مسلسل اس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے اور مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد بھی دس ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں اور خانہ کعبہ یعنی مسجد حرام کی طرف رخ کرنے کا حکم دیے دیا گیا۔(البقرہ:150)
یہ بات عیاں ہے کہ تبدیلی قبلہ کی وجہ سے مدینہ کے یہودیوں نے کافی ہنگامہ برپا کیا تھا اور قرآن نے ان کو جواب بھی دیا تھا کہ تمام سمتیں اللہ کی ہیں اور وہی طے کرتا ہے کہ ان میں سے کون سی سمت اس کی نماز پڑھنے کے لیے ہو اور یہ محض لوگوں کی آزمائش کے لیے ہے کہ کون اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اتباع کرتا ہے اور کون نہیں کرتا ہے۔ اسی لیے قبلے کو تبدیل کیا گیا۔
بیت المقدس کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ یہ اسرا ء اور معراج کی سرزمین ہے۔ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک آخری مرحلے کا سفر ہوا، پھر معراج کا آغاز بیت المقدس سے کیا گیا جس میں آپ نے آسمانوں سے آگے عرش اور سدرۃ المنتہیٰ تک سفر کیا۔اللہ تعالی چاہتا تو یہ سفر مکہ ہی سے ہو سکتا تھا مگر ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کے خاص منصوبہ اور مصلحت کے تحت اس کا آغاز بیت المقدس سے کیا گیا۔قران مجید نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے :
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ( الاسرا:1)
مسجد اقصیٰٰ سے معراج کا سفر طے ہونا گویا اس بات کی دلیل تھی کہ رسول اکرم ﷺ کو تمام رسولوں کی امامت کا منصب عطا کیا جائے گا اور دنیا کی مذہبی قیادت، اسرائیل سے منتقل ہوکر ایک نئی قوم، ایک نئے رسول اور ایک نئی کتاب کی طرف منتقل ہونے کا اعلان بھی تھا۔ ایک عالمی قوم، ایک عالمی رسول اور ایک عالمی کتاب۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اس بابرکت ذات نے قرآن نازل کیا ہے جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے تاکہ وہ تمام جہانوں کو ڈرانے والا ہو۔(فرقان:1)
بیت المقدس تیسرا بڑامقدس شہر:
اسلام میں بیت المقدس تیسرا سے زیادہ قابل احترام شہر ہے۔اسلام میں پہلا شہر مکہ معظمہ ہے، جسے اللہ تعالی نے مسجد حرام سے نوازا ہے، اسلام کا دوسرا شہر، مدینہ طیبہ ہے، جسے اللہ تعالی نے مسجد نبوی سے نوازا ہے جس میں روضہ رسول بھی موجود ہے اور اسلام میں تیسرا محترم شہر، یروشلم ہے، جسے اللہ تعالی نے مسجد اقصیٰ ٰسے نوازا ہے اور اللہ تعالی نے اس کے ارد گرد برکت دی ہے۔ احادیث کے مطابق کسی بھی شخص کے لیے مخصوص مسجد کی طرف سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے مگر تین مساجدکی طرف۔ان میں سے ایک مسجد اقصیٰ ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے دنیا کی ساری مسجدوں کی حیثیت برابر ہے، لیکن پھر بھی مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰٰ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
قرآن مجید نے مسجد اقصیٰ کی اہمیت اور اس کی برکت کے بارے میں مسجد نبوی کی تعمیر سے پہلے اس کی وضاحت کی تھی اور ہجرت سے کئی سال پہلے اس کو بیان کیا تھا۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنی مختلف احادیث کے ذریعے اس کی تصدیق کی ہے اور صریح قرآن کی آیات اس پر دال ہیں۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مسجد حرام میں ایک نماز، دوسری مسجدوں کے مقابلے میں ایک لاکھ نمازوں سے بہتر ہے اور مسجد نبوی میں ایک نماز، دوسری مسجدوں میں ایک ہزارنمازوں سے افضل ہے اور مسجد اقصیٰ میں ایک نماز پانچ سو نمازوں سے افضل ہے۔ایک سوال کے جواب میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ روئے زمین پر سب سے پہلے، مسجد حرام کی تعمیر کی گئی تھی اور اس کے بعد مسجد اقصیٰ کی تعمیر ہوئی تھی۔
بیت المقدس نبوت اوربرکت کی سرزمین:
بیت المقدس کی ایک فضیلت یہ ہے کہ یہ نبیوں اور رسولوں کی سرزمین رہی ہے اور مختلف انبیاء کے ذریعے اس میں برکتیں نازل کرنے کا حوالہ قرآن مجید کے اندر دیا گیا ہے۔ پہلا حوالہ واقعہ معراج کے موقع پر دیا گیا :
الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ (سورہ الاسراء۱)
ابراہیم خلیل اللہ سے کہا گیا ہے کہ ہم نے فلسطین کی سرزمین کے اندر برکت عطا کی ہے ارشاد ہے:
وَ نَجَّیْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا لِلْعٰلَمِیْنَ.(الانبیاء 17)
حضرت موسی علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو لے کر دریا پار کر کے آئے تو انہیں ارض فلسطین ہی میں پناہ دی گئی تھی اور وہاں ان کے لیے برکتیں نازل کی گئی تھیں، جس کا حوالہ قرآن مجید کے اندر دیا گیا ہے ارشاد ہے۔
وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَاؕ-وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ بِمَا صَبَرُوْاؕ- (الاعراف:137)
حضرت سلیمانؑ کے واقعے میں بھی ارض مقدس کا تذکرہ موجود ہے، یہ بات سب جانتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ کو ایسی حکومت عطا کی گئی تھی کہ دنیا میں اور کسی کو ایسی حکومت عطا نہیں کی گئی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَةً تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَاؕ-وَ كُنَّا بِكُلِّ شَیْءٍ عٰلِمِیْنَ (الانبیاء 18)
واقعہ سبا میں بھی ارض فلسطین میں برکت عطا کیے جانے کا تذکرہ موجود ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَ جَعَلْنَا بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ الْقُرَى الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَّ قَدَّرْنَا فِیْهَا السَّیْرَؕ-سِیْرُوْا فِیْهَا لَیَالِیَ وَ اَیَّامًا اٰمِنِیْنَ.(سبا:18)
مذکورہ آیت میں قری سے مراد شام اور فلسطین کی زمین ہے، اللہ نے اس سے شام کی سر زمین مراد لیا ہے۔حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت کے مطابق اس سے مراد بیت المقدس ہے۔علامہ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے قرآن مجید میں سورہ تین کے اندر جس میں تین اور زیتون اور بلد امین کی قسم کھائی گئی ہے اس سے مراد بیت المقدس ہی ہے۔
*بیت المقدس جہاد اور تیاری جہاد کا مقام:
مسلمانوں کے نزدیک بیت المقدس جہاد اور تیاری جہاد کا مقام ہے جیسا کہ مسجد اقصیٰ کے بارے میں قرآن مجید کی وضاحت اس میں نماز پڑھنے کی فضیلت اور رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ فضائل اور خوشخبریوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس اسلام کے ہاتھوں فتح ہوگا اور یہ مسلمانوں کے لیے ہوگا۔چنانچہ خلیفہ وقت حضرت عمرؓ بن الخطاب کے ذریعے سے یہ پیشن گوئیاں پوری ہوئیں اور بیت المقدس فتح ہوا اور وہاں پر خلیفہ دوم نے عیسائیوں سے ایک معاہدہ بھی کیا،جسے تاریخ میں ’معاہدۂ عمری ‘کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس معاہدے پر مسلمانوں کے نمایاں کمانڈر، خالد بن ولید،عبدالرحمن بن عوف،عمرو بن العاص اورمعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے دستخط کیے تھے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی آخر الزماں ﷺ کو آگاہ کیا تھا کہ اس مقدس سرزمین پر دشمنوں کا قبضہ ہو جائے گیا یا اس پر حملے کی کوشش کی جائے گی اسی لیے اسے محفوظ رکھنا، اس کے دفاع کے لیے جنگ کی خواہش مند تھے تاکہ دشمنوں کے ہاتھ نہ لگ جائے اور اگر اس سے آزاد کرنا ان کے ہاتھ لگنا مقدر تھا، اس نے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان آنے والی جنگ کے بارے میں بھی بتایا اور یہ کہا کہ آخر میں فتح مسلمانوں کی ہوگی، اور یہ کہ ہر چیز مسلمانوں کی حمایت کرے گی، یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی بولیں گے اور کہیں گے کہ یہاں یہودی چھپا ہے اس کو مارو۔
بیت المقدس پر یہود کا دھیرے دھیرے قبضہ:
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مسلمان ان تلخ واقعات کے نتائج بھگت رہے ہیں جو گزشتہ سو سالوں کے درمیان پیش آئے اور نتائج میں سب سے اہم اور تلخ نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر دھیرے دھیرے مکمل قبضہ جما لیا۔معلوم منصوبہ بندی کے تحت ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق اور ڈھائی کروڑ سے زیادہ عربوں کے سامنے اور ڈیڑھ ارب سے زیادہ امت مسلمہ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مدد اور حمایت سے نہ صرف یہ کہ مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ بلکہ اسرائیل اس سے بڑھ کر دھیرے دھیرے پورے فلسطین پر اپنا قبضہ جما رہا ہے اور فلسطین میں قوم یہود کی آبادیاں قائم کر رہا ہے ۔
سب سے پہلے 1897 میں سوئٹزرلینڈ کی شہر باسل میں پہلی صیہونی کانگریس منعقد ہوئی تھی اور ایک بین الاقوامی صیہونی ادارے کا ظہور عمل میں آیا تھا اور پھر 1917 میں معاہدہ بالفور کا واقعہ پیش آیا۔جس میں فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کا قیام منظور کیا گیا تھا،پھر 1947 میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا،جس میں 1948 میں باقاعدہ اسرائیل ایک ملک کی حیثیت سے قائم ہو گیا، نیز پانچ جون 1967 کی معروف یروشلم عرب بینک اور دیگر قبضے کے حادثات پیش آئے۔ اس طرح مکمل 1977 میں صدر سادات کے اسرائیلی دورے کے موقع پر بالکل ظاہر ہو گیا کہ فلسطین کے مسئلے میں عرب موقف میں کمزوری آرہی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں کی سرزمین پر ناجائز قبضے کی کلہاڑی چلتی رہتی ہے اور مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائی کا عمل بھی جاری ہے۔ ادھر گزشتہ دومہینوں سے باقاعدہ اسرائیل کی جارحیت جاری ہے۔ جس میں بیسیوں ہزار فلسطینی مرد، عورتیں اور بچے مارے گئے ہیں اور 50 ہزار زخمی ہیں، ان کے مکانات منہدم کر دیے گئے، اب تک چار ایٹم بم کے برابر غزہ پر گولا بارود پھینکا گیا ہے، غرض یہ کہ دنیا کی بعض بڑی طاقتوں نے اسرائیل کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرنے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ عرب ممالک آج بھی تردد کے شکار ہیں اور سوائے مذمتی بیان دینے کے اور کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔البتہ فلسطینیوں نے شجاعت اور بہادری کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جنہیں دیکھ کر دنیا انگشت بدنداں ہے۔ دنیا کے ماہرین جنگ حیرت زدہ ہیں کہ وسائل و ذرائع سے عاری مٹھی بھرچند لوگ دنیا کی طاقت ور ترین فوج کا مقابلہ کیسے کررہے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کی ہمیشہ غیب سے مدد فرماتا ہے ۔
***

 

***

 مسلمانوں کے نزدیک بیت المقدس جہاد اور تیاری جہاد کا مقام ہے جیسا کہ مسجد اقصیٰ کے بارے میں قرآن مجید کی وضاحت اس میں نماز پڑھنے کی فضیلت اور رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ فضائل اور خوشخبریوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس اسلام کے ہاتھوں فتح ہوگا اور یہ مسلمانوں کے لیے ہوگا۔چنانچہ خلیفہ وقت حضرت عمرؓ بن الخطاب کے ذریعے سے یہ پیشن گوئیاں پوری ہوئیں اور بیت المقدس فتح ہوا اور وہاں پر خلیفہ دوم نے عیسائیوں سے ایک معاہدہ بھی کیا،جسے تاریخ میں ’معاہدۂ عمری ‘کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس معاہدے پر مسلمانوں کے نمایاں کمانڈر، خالد بن ولید،عبدالرحمن بن عوف،عمرو بن العاص اورمعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے دستخط کیے تھے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی آخر الزماں ﷺ کو آگاہ کیا تھا کہ اس مقدس سرزمین پر دشمنوں کا قبضہ ہو جائے گیا یا اس پر حملے کی کوشش کی جائے گی اسی لیے اسے محفوظ رکھنا، اس کے دفاع کے لیے جنگ کی خواہش مند تھے تاکہ دشمنوں کے ہاتھ نہ لگ جائے اور اگر اس سے آزاد کرنا ان کے ہاتھ لگنا مقدر تھا، اس نے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان آنے والی جنگ کے بارے میں بھی بتایا اور یہ کہا کہ آخر میں فتح مسلمانوں کی ہوگی، اور یہ کہ ہر چیز مسلمانوں کی حمایت کرے گی، یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی بولیں گے اور کہیں گے کہ یہاں یہودی چھپا ہے اس کو مارو۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جنوری تا 13 جنوری 2024