صدر اور وزراء عام شہری ہونے کے طور پر ہتک عزت کے مقدمات دائر کر سکتے ہیں: سپریم کورٹ

نئی دہلی، اکتوبر 18: سپریم کورٹ نے پیر کے روز کہا کہ صدر، نائب صدر یا کوئی دوسرا سرکاری ملازم نجی شہریوں کے طور پر بھی ہتک عزت کی شکایت درج کر سکتا ہے، اور ایسا کرنے کے لیے اسے حکومت کی طرف سے منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔

جسٹس ایس عبدالنذیر اور وی راما سبرامنیم کی بنچ نے دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کی طرف سے دائر کردہ مجرمانہ ہتک عزت کے مقدمے میں انھیں پیش کیے گئے سمن کو منسوخ کرنے سے انکار کرنے والے دہلی ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما منوج تیواری کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے یہ حکم سنایا۔

اپنی درخواست میں تیواری نے دلیل دی تھی کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 199 کے تحت صدر، نائب صدور، گورنر، وزراء اور دیگر سرکاری ملازمین کے لیے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنے کا ایک خاص طریقۂ کار ہے۔

اس شق میں کہا گیا ہے کہ پبلک پراسیکیوٹر کو سرکاری عہدوں پر فائز افراد کی جانب سے کارروائی شروع کرنے کے لیے ریاست یا مرکزی حکومت سے منظوری حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ دریں اثنا ایک نجی شہری کو صرف مقامی مجسٹریٹ کے پاس شکایت درج کرانے کی ضرورت ہے، جیسا کہ سسودیا نے کیا ہے۔

تاہم سپریم کورٹ نے تیواری کے ان دلائل کو مسترد کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 199 کے تحت دفعات ان حقوق کے علاوہ ہیں جو سرکاری ملازمین کو نجی شہری کے طور پر حاصل ہیں۔

عدالت نے کہا ’’اس نے کبھی بھی اپنا حق صرف اس وجہ سے نہیں کھویا کہ وہ ایک عوامی ملازم بن گیا ہے اور محض اس وجہ سے کہ اس کے فرائض کی سرکاری ادائیگی سے متعلق الزامات ہیں۔‘‘

2019 میں سسودیا نے تیواری کے ساتھ ساتھ بی جے پی لیڈر پرویش سنگھ اور وجیندر گپتا کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا جنھوں نے الزام لگایا تھا کہ عام آدمی پارٹی 2,000 کروڑ روپے کے گھوٹالے میں ملوث ہے۔

تیواری نے دعویٰ کیا تھا کہ دہلی میں کلاس رومز کی تعمیر پر 2,000 کروڑ روپے اضافی خرچ کیے گئے جب کہ وہ 892 کروڑ روپے میں تعمیر کیے جا سکتے تھے۔

نومبر 2019 میں ایک ٹرائل کورٹ نے تینوں بی جے پی لیڈروں کو بطور ملزم طلب کیا تھا۔ انھوں نے اس سمن کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، جس نے نچلی عدالت کے حکم کو برقرار رکھا۔ اس کے بعد بی جے پی قائدین نے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔