ندیم خان – بارہمولہ
اسکول انتظامیہ نے غیر مشروط معافی مانگی اور مسئلہ کی وضاحت بھی کی
پچھلے دنوں عروج پر رہنے والا مسئلہ حجاب کرناٹک اور ملک کی دیگر ریاستوں میں ابھی تھمنے بھی نہیں پایا تھا کہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے ریناواری علاقے میں وشوا بھارتی ہایئر سیکنڈری اسکول میں بھی کچھ اسی قسم کا معاملہ سامنے آیا جب اسکول میں پڑھنے والی مسلم طالبات نے الزام لگایا کہ انتظامیہ کی جانب سے انہیں عبایا پہننے سے روکا جا رہا ہے۔
کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے جہاں طالبات عموما حجاب یا عبایا پہنتی ہیں۔ یہ معاملہ پہلی بار پانچ جون کو پیر کی صبح اس وقت سامنے آیا جب سری نگر کے ‘وشوا بھارتی ہائر سیکنڈری’ اسکول کی عبایا پہننے والی طالبات کو اسکول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ طالبات کا کہنا ہے کہ پرنسپل نے ان کو یہ کہہ کر اسکول میں داخل ہونے سے روک دیا کہ وہ اس لباس میں اسکول نہیں آسکتیں۔ نتیجے میں گیارہویں اور بارہویں کلاس کی درجنوں طالبات نے جمعرات کے روز اسکول کے باہر اس کے خلاف احتجاج منظم کیا اور الزام لگایا کہ انتظامیہ نے اسکول کے احاطے میں داخل ہونے سے پہلے انہیں اپنے عبایہ اتارنے کا حکم دیا۔ اس خبر کی بعض ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جس میں ایک طالبہ کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’’جب میں جمعرات کی صبح اسکول آئی تو دربان نے ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس نے ہم سے کہا کہ اگر ہم حجاب پہننے پر اصرار کرتی ہیں تو ہمیں اسکول کے بجائے درس گاہ (اسلامی مدرسے) میں جانا چاہیے۔‘‘ اسکول میں 12ویں درجہ میں پڑھنے والی نوشیہ کا کہنا ہے کہ دو تین دن پہلے سے کہا جا رہا تھا کہ عبایا پہن کر اسکول نہیں آنا ہوگا، یہ یہاں پر قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے بعد طالبات پرنسپل کے پاس گئیں اور کہا کہ وہ عبایا کے بغیر اسکول نہیں آ سکتیں کیونکہ وہ اس کے بغیر محفوظ محسوس نہیں کرتیں۔ طالبات کی بات سننے کے بعد پرنسپل نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ہم کو اس سے کوئی مطلب نہیں۔ اگر آپ لوگوں کو کوئی مسئلہ ہے تو ہم آپ کو ڈسچارج سرٹیفکیٹ دے دیں گے پھر کسی دوسری جگہ داخلہ کرا لیجیے، لیکن یہاں اس کی (عبایا کی) اجازت نہیں دی جائے گی۔ 12ویں جماعت کی طالبہ رومیسہ جان نے دعوت نیوز کو بتایا کہ، "میں اسکول کے ٹاپرز میں سے ایک ہوں۔ اسکول انتظامیہ نے بدھ کو میرے والدین سے بات کی اور پھر اصرار کیا کہ ہمیں عبایا ہٹا دینا چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم جینز پہنیں۔ وہ ہمیں اپنی عبایوں کی وجہ سے غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے۔”
اسکول میں زیر تعلیم متعدد طالبات کے والدین اور کئی دیگر افراد نے اسکول کے اس فیصلے اور اس کے باہر پیش آنے والے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ بیشتر افراد نے اسکول انتظامیہ پر نکتہ چینی بھی کی ہے۔ ایک طالبہ کے والد عبدالمجید نے دعوت نیوز سے بات چیت میں کہا کہ اسکول انتظامیہ کا فیصلہ "اسلام کے اصولوں کے خلاف” ہے۔ انہوں نے کہا کہ "میں اپنی بیٹی کو عبایا پہنے بغیر اسکول جانے کی اجازت دینے کے بجائے گھر پر بٹھا کر رکھنا پسند کروں گا۔ وہ گھر میں عبایا پہنتی ہے، تو اسکول میں عبایا پہننے پر اسکول انتظامیہ کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔” ایک اور طالبہ کے والد جاوید احمد ڈار نے کہا کہ یہ فیصلہ اسکول انتظامیہ کی طرف سے بہت ہی غلط ہے، اور میں اپنی بیٹی کو عبایا کے بغیر اسکول نہیں بھیج سکتا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
چند طالبات سے ہم نے بات کی تو ان کا کہنا ہے کہ پرنسپل نے ان کی کسی بھی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور عبایا کو ناقابل قبول قرار دیا۔ طالبات نے پرنسپل سے یہاں تک کہا کہ اسکول میں لڑکے ہوتے ہیں اور کچھ تو سگریٹ بھی پیتے ہیں، ایسے میں طالبات بغیر عبایا کے اچھا محسوس نہیں کریں گی۔ لیکن پرنسپل نے ان سب باتوں کو نظر انداز کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اسکول انتظامیہ پہلے بھی کئی بار طالبات کو عبایا پہننے سے منع کر چکی ہے۔ اسکول انتظامیہ کی دلیل ہے کہ عبایا کی وجہ سے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ اسکول انتظامیہ اس معاملے میں اب سخت رویہ اختیار کر رہی ہے اور ہر حال میں ڈریس کوڈ کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔
فرحانہ ناز نے اسکول انتظامیہ سے اس بات پر بحث بھی کی اور کہا کہ وہ کسی بھی حال میں عبایا کے بغیر اسکول میں داخل نہیں ہوں گی۔ طالبہ نے کہا کہ ’’کیوں نکالوں میں عبایا؟ مجھے اسکول سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا حکم زیادہ عزیز ہے۔ میں عبایا نہیں نکالوں گی۔‘‘ طالبہ کا کہنا ہے کہ اسکول میں بہت سارے لڑکے ہوتے ہیں ان کی موجودگی میں بغیر عبایا کے کیسے رہا جا سکتا ہے؟ اسکول کی کئی طالبات نے اسکول انتظامیہ کے اس اقدام کی شدید مخالفت کی اور کہا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائیں گی۔
جب ہم نے نیشنل کانفرنس کے ترجمان تنویر صادق سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ حجاب پہننا ذاتی انتخاب ہونا چاہیے اور مذہبی لباس کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ "مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر میں اس طرح کے واقعات کا مشاہدہ کرنا بدقسمتی کی بات ہے۔ ہم اس کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور فوری اصلاحی کارروائی کی اپیل کرتے ہیں۔” کشمیر کے مفتی اعظم ناصر الاسلام نے دعوت نیوز کو بتایا کہ عبایا پہننے والی طالبات کو اسکول میں داخلے سے روکنے کا کوئی سرکاری حکم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ پہلے صرف لڑکیوں کا اسکول تھا جسے اب مخلوط کر دیا گیا ہے، لڑکیوں کو حجاب پہن کر اپنی عزت نفس کی حفاظت کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔”
کشمیر کی سیاسی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس فیصلے کو مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ اسکول کے اس فیصلے پر کئی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا اور طالبات نے اسکول کے باہر اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے پر عمل نہیں کریں گی، چاہے انہیں گھر پر ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے۔ تاہم ہنگامہ آرائی کے بعد نجی ملکیت والے اسکول کی انتظامیہ معذرت کی۔ اسکول کا کہنا ہے کہ احاطے میں عبایا پر پابندی لگانے کا کوئی انتظامی حکم نہیں تھا اور طالبات کو صرف ’ڈریس کوڈ‘ کی پابندی کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ہنگامے کے بعد دعوت نیوز نے اس اسکول کی پرنسپل نمروز شفیع سے اس معاملے پر بات کی تو انہوں نے کہا، ’’کچھ طالبات مختلف ڈیزائنوں کے ساتھ کثیر رنگوں کے عبایوں میں اسکول آتی ہیں، جو کہ اصول کے خلاف ہے۔ حجاب اسکول یونیفارم میں شامل ہے اور طالبات اسکول میں یونیفارم پہننے کی پابند بھی ہیں۔ ہم نے انہیں تین چوائسز دی ہیں۔ کوئی ان کے عبایوں کو نہیں ہٹا رہا ہے۔‘‘ پرنسپل نے یہ بھی کہا کہ طلبہ کے الزامات ’’مکمل طور پر بے بنیاد اور غلط بیانی پر مبنی ہیں۔‘‘ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ ’’اسکول انتظامیہ ہمیشہ معاشرے کے تمام طبقوں کے جذبات کا احترام کرتی ہے اور ڈریس کوڈ کے معاملے میں عبایا پہننے پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے لیکن شائستگی کے ساتھ طلبہ کو بتایا گیا ہے کہ وہ عبایا کے نیچے اسکول یونیفارم بھی پہنیں۔‘‘جبکہ پرنسپل کے اس بیان کے بعد طالبات اور ان کے سرپرستوں کی جانب سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ شاید طالبات کے احتجاج ،سرپرستوں کا مضبوط اقدام اور میڈیا کے سوالات کی وجہ سے اسکول انتظامیہ اپنے ہی بیان کاانکار کرنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔اس ضمن میں کشمیر کے مقامی لوگوں کے ذہن و دماغ میں کئی سارے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کشمیری تاریخ میں کبھی اس طرح کے امور انجام نہیں دئے گئے اگر اب یہ معاملات سر اٹھارہے ہیں تو اس کے پیچھے کی کیا وجوہات ہیں اور کن اسباب کے تحت فضا ء مکدر ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے ؟
اس سارے معاملے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام دشمن عناصر ہمیشہ انتظار میں رہتے ہیں کہ کس طریقے سے اسلام کو بدنام کیا جائے اور اس کے لیے وہ بس ایک موقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ ان حالات میں ایک حقیقی مسلمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کرے کہ اس کے کسی بھی فعل یا اقدام سے اسلام مخالفین کو اسلام کے خلاف زبان درازی کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ البتہ مذکورہ موضوع کے حوالے سے کشمیری طالبات کو چاہئے کہ وہ حجاب کا آزادانہ استعمال کرتے ہوئے اسکول یونیفارم کی بھی پابندی کرنے کی کوشش کریں تا کہ بے پردگی کی وجہ سے اسلامی حکم کی مخالفت نہ ہو اور اسکول انتظامیہ کو بھی کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ رہے ۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 جون تا 01جولائی 2023