پیگاسس تنازعہ: ’’اگر رپورٹس درست ہیں تو الزامات سنگین ہیں‘‘، سپریم کورٹ نے مرکز کو اگلی سماعت میں حاضر ہونے کے لیے کہا
نئی دہلی، اگست 5: سپریم کورٹ نے آج کہا کہ ملک میں سیاست دانوں، صحافیوں اور کارکنوں کی نگرانی کے لیے مرکزی ایجنسیوں کے ذریعے اسرائیلی پیگاسس سپائی ویئر استعمال کرنے کی خبریں اگر درست ہیں تو یہ الزامات سنگین ہیں۔
نگرانی کے الزامات کی تحقیقات کی درخواستوں کے ایک گروپ کی سماعت کے دوران عدالت نے یہ مشاہدہ کیا۔ یہ درخواستیں ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، دی ہندو کے سابق ایڈیٹر این رام، ایشین کالج آف جرنلزم کی چیئرپرسن سشی کمار، راجیہ سبھا کے رکن جان برٹاس اور ایڈوکیٹ ایم ایل شرما نے دائر کیا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی سربراہی میں بنچ نے وکلا کو ہدایت دی کہ وہ اپنی درخواستوں کی ایک کاپی مرکز کو پیش کریں۔ اس معاملے کی اگلی سماعت منگل کو ہوگی اور مرکز کو سماعت میں حاضر ہونا ہوگا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق عدالت نے کہا کہ سچ سامنے آنا چاہیے۔ ’’ہم نہیں جانتے کہ (ممکنہ اہداف میں) کس کے نام ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ پیگاسس کے مبینہ غلط استعمال کا معاملہ جولائی میں اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب پیرس میں قائم ایک میڈیا ادارے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل کی جس میں 50،000 سے زیادہ فون نمبر تھے جن کی نگرانی کئی ممالک کر رہے تھے۔
انھوں نے یہ فہرست انڈین نیوز ویب سائٹ دی وائر اور 16 دیگر میڈیا تنظیموں کے ساتھ پیگاسس پروجیکٹ کے حصے کے طور پر شیئر کی۔
بھارت میں نگرانی کے ممکنہ اہداف کی فہرست میں 40 سے زائد صحافی، دو مرکزی وزیر، کانگریس لیڈر راہل گاندھی، بھارت کے سابق الیکشن کمشنر اشوک لوسا اور سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگانے والی سپریم کورٹ کی ایک سابق ملازمہ بھی شامل ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج ارون مشرا، صنعت کار انل امبانی اور سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن کے ڈائریکٹر آلوک ورما بھی نگرانی کے ممکنہ اہداف میں شامل تھے۔