پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

مذہبی رواداری اور باہمی خیر سگالی کی شان دار مثال

ابن ایاز شاہ پوری

پنجاب میں سکھوں نے غیر آباد مساجد کی تعمیر نو کر کے مسلمانوں کے حوالے کیا
شاہی امام پنجاب مولانا محمد عثمان رحمانی سے ہفت روزہ دعوت کی خصوصی بات چیت
ہمارا ملک عرصہ دراز سے اپنی گنگا جمنی تہذیبی روایات اور مذہبی رواداری کے حوالے سے ساری دنیا میں ایک منفرد پہچان رکھتا ہے کیونکہ اس ملک کے باشندے مذہبی اختلافات سے پرے انسانیت، بھائی چارگی اور اتحاد و اتفاق کی اعلی مثالیں پیش کرتے رہے ہیں جس کو ساری دنیا تسلیم کرتی آئی ہے۔ لیکن پچھلے چند سالوں سے ملک کی بعض ریاستوں جیسے آسام، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور اتراکھنڈ وغیرہ میں پیش آنے والے متعصبانہ واقعات نے منافرت کے ماحول کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے ملک کی شبیہ عالمی پیمانے پر بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ابھی بھی ایسے لوگ یہاں رہتے بستے ہیں جن کے دلوں میں اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کا بھی حد درجہ احترام موجود ہے اور وہ اپنے عمل سے بھی وقتاً فوقتاً اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
بات ملک کے شمال مشرقی صوبہ پنجاب کی ہے جہاں کی اکثریت سکھ ہے اور دوسرے نمبر پر ہندو مذہب کے پیروکار ہیں جبکہ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ایک سے ڈیڑھ فیصد سے زیادہ نہیں ہے یعنی نہایت اقلیت میں ہیں۔ کئی گاؤں ایسے ہیں جن میں مسلمانوں کے صرف ایک یا دو گھر ہیں اور بعض ایسے بھی گاوں ہیں جہاں ایک بھی مسلمان کا گھر نہیں ہے اور جہاں مسلمان رہتے بستے ہیں وہاں ان کی مالی حالت بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ایسے ماحول میں وہاں کے غیر مسلموں نے مسلمانوں کے تئیں جس پیار و محبت اور اخوت و بھائی چارگی کے ساتھ مذہبی رواداری کی جو مثال پیش کی ہے وہ ملک کی تہذیبی اقدار کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ آج جب ملک میں بعض ریاستوں میں شرپسند عناصر کسی بھی مسجد کو ڈھا کر جشن مناتے نظر آتے ہیں تو وہیں پنجاب جیسی ریاست میں جہاں مسلمانوں کی نہایت قلیل تعداد ہے غیر مسلم ان کے لیے مساجد تعمیر کر کے ان کو گویا تحفے میں دے رہے ہیں۔ چنانچہ پچھلے دنوں پنجاب کے ضلع بھٹنڈہ کے گاؤں بخت گڑھ سے یہ خبر آئی ہے کہ وہاں کے ایک مقامی سکھ کسان امن دیپ سنگھ کی طرف سے عطیہ کردہ 250 مربع میٹر زمین پر ایک نئی مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا ہے جس کے لیے اسی قصبے کے رہائشیوں نے تقریباً دو لاکھ روپے اکٹھے کیے جبکہ پڑوسی دیہات کے مکینوں نے سمنٹ اور اینٹیں فراہم کیں تاکہ مسجد کا تعمیراتی کام بآسانی پایہ تکمیل کو پہنچ سکے۔ امن دیپ سنگھ نے اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ یہ بخت گڑھ کی زیر تعمیر مسجد اگلی عید تک مکمل تیار ہو جائے گی۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ منظر عام پر آیا ہے جب کانگریس کے ایک لیڈر جگ میل سنگھ نے جیتوال کلاں گاؤں میں مسجد کے لیے تقریباً 1200 مربع گز زمین عطیہ کی۔ ان سے متاثر ہو کر ان کے خاندان والوں نے مسجد کی تعمیر کے لیے اکیاون ہزار روپے کا عطیہ دیا جبکہ دوسرے قریبی گاؤں والوں نے بھی اجتماعی طور پر پانچ لاکھ روپے جمع کیے اور کسی ادارے یا تنظیم کی مدد کے بغیر مقامی مسلم و غیر مسلم افراد کے باہمی تعاون سے نئی مساجد تیار ہو رہی ہیں اور جو مساجد خستہ حال اور غیر آباد تھیں انہیں بھی مرمت کے بعد قابل استعمال بنایا جا رہا ہے۔
ان نئی مساجد کی تعمیر کے علاوہ بعض اداروں اور تنظیموں نے بھی اپنے اپنے طور پر اس سلسلے میں کام کیا ہے۔ لدھیانہ کی جامع مسجد کے شاہی امام مولانا محمد عثمان رحمانی لدھیانوی نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دراصل یہ مساجد کا سلسلہ ملک کی آزادی کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا۔ چونکہ پنجاب کے دیہاتوں میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے اور 1947 میں جب ملک کی تقسیم ہوئی تو اس وقت اکثر و بیشتر مسلمان ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے تھے اور ان کے جانے کے بعد وہاں کی اکثر مساجد لاوارث ہو گئی تھیں جنہیں لوگوں نے قبضے کر کے یا تو دوسری عبادت گاہوں میں تبدیل دیا تھا یا ذاتی کاموں کے لیے استعمال کرنے لگے تھے مثلا کسی نے اصطبل بنا لیا تو کسی نے رہائش گاہ بنالیا وغیرہ۔ بہت سی مساجد ایسی بھی تھیں جنہیں مقامی لوگوں نے محفوظ رکھا تھا حالانکہ ان کے آس پاس کوئی مسلمان نہیں تھا جو ان کی دیکھ بھال یا نماز کے لیے استعمال کرے۔چونکہ یہ غیر آباد مساجد عام طور پر وقف بورڈ کے تحت ہوتی ہیں اسی لیے جب انہیں آباد کرنا ہو تو مسجد پر قابض شخص سے گفت و شنید کی جاتی اور آپسی رضامندی کے بعد مناسب اگلا قدم اٹھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا کہ یہ اس کی اکلوتی رہائش گاہ ہے اگر اسے یہاں سے نکالا جائے تو وہ بے گھر ہو جائے گا تو ایسی صورت میں اس کی رہائش کا بھی انتظام کر دیا جاتا۔
مولانا کے کہنے کے مطابق آزادی کے بعد مفتی محمد احمد رحمانی صاحب نے ابتدائی جدوجہد کی پھر مولانا حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی سابق شاہی امام پنجاب اور دیگر مقامی مسلمانوں کی کوششوں سے کئی مساجد تعمیر ہوئیں اور خستہ حال و غیر آباد مساجد کی مرمت اور انہیں آباد کرنے کا کام بھی شروع ہوا۔ اس سلسلے میں گزشتہ پچھتر سالوں میں اب تک تقریباً ایک ہزار سے زائد مساجد پر کام ہو چکا ہے۔ وہاں کے مقامی لوگوں میں اس قدر بھائی چارگی پائی جاتی ہے کہ کسی گاؤں میں مسجد کی بنیاد رکھی جائے تو ایک ہی دن میں مقامی لوگوں کی طرف سے تعمیر کے لیے تقریباً سات سے آٹھ لاکھ روپے تک جمع ہو جاتے ہیں اور مزید ضرورت ہو تو وقف بورڈ کی طرف سے بھی تعاون کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عبادت کے ساتھ تربیت کے پہلو کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے اور پنجاب کی تقریباً ہر مسجد کے ساتھ مکتب کو منسلک کر دیا گیا ہے جہاں پر نونہالان ملت کو تعلیم بھی دی جاتی ہے اور ان کی ذہنی و اخلاقی تربیت بھی ہوتی ہے۔
جماعت اسلامی ہند نے بھی مقامی سطح پر کئی اقدامات کیے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند پنجاب کے امیر حلقہ جناب عبدالشکور نے کہا کہ یہ کام تقریباً چھتیس سال قبل شروع کیا گیا تھا۔ تقسیم ہند کی وجہ سے پنجاب کے دیہاتوں میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے تاہم یہاں مساجد کی ضرورت اس وقت بڑھ گئی جب کئی مسلم گجر برادری ہماچل پردیش کے جنگلات سے ہجرت کر کے پنجاب پہنچی، اسی طرح یو پی اور بہار کے مسلمان مزدور اور تاجر بھی روزگار کی تلاش میں پنجاب آئے۔ اس دوران جب امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک میں مقیم سکھ بھائی ان ممالک کے مسلمانوں سے رابطے میں آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ ترک شدہ مساجد ان مسلمانوں کو واپس دی جائیں جو دوسری ریاستوں سے پنجاب آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی آبادی کو مساجد بنانے اور ان کو آباد کرنے کی ترغیب ملی۔ چونکہ مہاجر مسلمان غریب تھے اور ان کے پاس ان ویران مساجد کو بحال کرنے کے لیے مناسب فنڈز بھی نہیں تھے اس لیے انہوں نے مقامی سکھوں اور ہندوؤں سے رابطہ قائم کیا۔ جلد ہی سکھوں کے گرودوارے پنجاب کے قصبوں اور دیہاتوں میں اس سرگرمی کی بنیاد بن کر ابھرے۔ گرودواروں کا مسلمانوں کی مدد کے لیے آگے آنا انسان دوستی کی بہترین مثال بنی۔ تقسیم ہند کے موقع پر بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ پورے پنجاب میں مالیر کوٹلہ ہی وہ واحد جگہ تھی جہاں کے مسلمانوں نے پاکستان ہجرت نہیں کی کیونکہ جب پورے پنجاب کو تشدد اور قتل و غارت گری کا سامنا کرنا پڑا تو سکھوں نے وہاں کے باشندوں کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ مالیر کوٹلہ اس وقت امن کا جزیرہ بنا رہا جب پورا پنجاب فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جل رہا تھا۔ آزادی کے بعد ان دیہاتوں میں جہاں مسجدیں دوسروں کے قبضے میں چلی گئی تھیں یا جہاں مسجدیں تھیں ہی نہیں حتی کہ مسلمانوں کے پاس نئی مسجد بنانے کے لیے زمین بھی نہیں تھی تو نیک دل مقامی سکھوں اور ہندوؤں نے انہیں مفت زمینیں فراہم کی تھیں اور اس کے لیے چندہ اکٹھا کرنے میں بھی مسلمانوں کی مدد کی تھی۔
جناب عبدالشکور نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند اس ضمن میں 1985 سے کام کر رہی ہے۔ بعد ازاں بہت سے دوسرے مسلم گروہوں نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا۔ تبلیغی جماعت کے ارکان کی آمد و رفت سے بھی مساجد کی بحالی کی مہم کو تقویت ملی۔ کیرالا کے کچھ مسلم گروپوں نے بھی اپنے فنڈز سے کئی مساجد تعمیر کیں۔
بہرحال پنجاب میں غیر مسلموں کی جانب سے مساجد کی بازآبادکاری کا جو کام ہو رہا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ ملک کی ان ریاستوں کے عوام کو جہاں مذہبی تعصب کو ہوا دے کر نفرت کا بازار گرم کیا جارہا ہے، پنجاب سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے ملک کو انگریزوں سے آزاد کرایا تھا ان کا جو خواب تھا اس کی تعبیر آج پنجاب میں نظر آنے لگی ہے، یہ تعبیر ملک کے ہر حصے میں نظر آنی چاہیے تاکہ یہاں امن و اخوت اور بھائی چارگی کا ماحول پیدا ہو اور ملک ترقیوں کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
***

 

***

 آج پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ واقعی قابل ذکر اور لائق تحسین امر ہے۔ بھارت کے مختلف علاقوں اور ریاستوں میں جہاں مذہبی تعصب کو ہوا دے کر نفرت کا بازار گرم کیا جارہا ہے انہیں پنجاب سے سبق لینے کی ضرورت ہے کیونکہ جن مجاہدینِ آزادی نے بھارت کو انگریزوں کے پنجۂ استبداد سے آزاد کرایا تھا انہوں نے اُس وقت جس قسم کے بھارت کا خواب دیکھا تھا وہ بھارت پنجاب میں نظر آتا ہے اور اسی بھارت کو ملک کے ہر حصے میں ہونا چاہئے تاکہ اخوت و بھائی چارگی کے پُر امن ماحول میں یہ ملک ترقیوں کی راہ پر گامزن رہ سکے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 جولائی تا 29 جولائی 2023