پارلیمنٹ نے جنگلات کے تحفظ سے متعلق قانون میں ترمیم کے بل کو منظوری دے دی
نئی دہلی، اگست 2: راجیہ سبھا نے بدھ کے روز جنگلات کے تحفظ کے قانون میں ایک متنازعہ ترمیم کو منظوری دے دی، جس میں زمین کے کئی زمروں کو اس قانون کی دفعات سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
جنگلات کے تحفظ (ترمیمی) بل کو ایوان میں مختصر بحث کے بعد منظور کر لیا گیا، جب اپوزیشن نے منی پور میں نسلی تشدد کے خلاف اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے واک آؤٹ کیا تھا۔
اس بل کو قبل ازیں 26 جولائی کو لوک سبھا نے بغیر کسی تبدیلی کے پارلیمانی مشترکہ کمیٹی کی منظوری کے چھ دن بعد منظور کیا تھا۔
یہ بل 1980 کے جنگلات کے تحفظ کے قانون میں ترمیم کرتا ہے تاکہ جنگل کی کچھ اراضی کو اس قانون کے دائرۂ کار سے خارج کیا جا سکے۔ اس میں بین الاقوامی سرحدوں کے ساتھ 100 کلومیٹر کے اندر واقع جنگلاتی اراضی، ریل کی پٹڑی یا عوامی سڑک کے ساتھ 0.10 ہیکٹر اراضی وغیرہ شامل ہیں۔
راجیہ سبھا میں بل پر بحث کے دوران مرکزی وزیر ماحولیات بھوپیندر یادو نے کہا ’’ہندوستان مستقبل کے بنیادی ڈھانچے پر اس طرح کام کر رہا ہے کہ ہمارے جنگلات پریشان بھی نہ ہوں اور رابطوں کے ذرائع بھی بڑھ سکیں۔‘‘
وزیر نے کہا کہ بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ علاقوں میں پانچ ایکڑ تک اراضی کو اس قانون سے مستثنیٰ کرنے کا انتظام متعارف کرایا گیا ہے تاکہ آدیواسی برادریوں کے لیے اسکول اور ڈسپنسریوں جیسی بنیادی سہولیات کو یقینی بنایا جا سکے۔
یادو نے مزید کہا کہ یہ قانون چڑیا گھر اور ماحولیاتی سیاحت کو غیر جنگلاتی سرگرمیاں قرار دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ’’ہم ایک ایسا ماحول بنانا چاہتے ہیں جہاں مقامی لوگ آمدنی پیدا کر سکیں اور وہ زیادہ سے زیادہ ماحولیاتی سیاحت کی سرگرمیوں میں حصہ لیں، کیوں کہ وہ تمام جنگلی جانوروں کے بارے میں روایتی معلومات رکھتے ہیں۔‘‘
تاہم کئی ماہرین ماحولیات نے الزام لگایا ہے کہ یہ بل محض جنگل کی زمین کے تجارتی استحصال کی سازش ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’مرکزی حکومت کی طرف سے پیش کردہ ’’عوامی افادیت‘‘ جیسی اصطلاحات مبہم ہیں اور غلط استعمال کی گنجائش رکھتی ہیں۔
وہیں بدھ کے روز کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے کہا کہ اس بل کا سفر ’’قانون سازی کے عمل کو مکمل طور پر کیسے خراب کیا جائے‘‘ پر ایک کیس اسٹڈی کی طرح ہے۔