فلسطین :سارے عالم کی آزمائش

مسئلہ فلسطین کو بھول کر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والوں کے لیے تازیانہ عبرت

ڈاکٹر ساجدعباسی

صہیونی ظالموں کواللہ کی طرف سے ڈھیل ان کی بدترین تباہی کاپیش خیمہ ہے
تادمِ تحریر اہلِ غزّہ پر اسرائیل کی طرف سے بموں کے ذریعے آگ برسائی جارہی ہے۔ کھانا ،پانی اور ادویات پر پابندی لگائی گئی ہے اور ہر بلڈنگ کو نشانہ بنایا جارہا ہے حتی ٰ کے ہسپتالوں پر بمباری کی جارہی ہے۔اب اس وقت بمباری سے زیادہ بھوک ،پیاس اور سرجری وعلاج کی عدم دستیابی سے غزّہ کے بچے ،عورتیں اورجوان شہید ہورہے ہیں ۔غزّہ کے بچوں میں بھی یہ یقین راسخ ہے کہ وہ حق پر ہیں اوروہ اپنی جانوں کو جنت کے عوض فروخت کررہے ہیں ۔ مجاہدین کے نزدیک ذلت ورسوائی کی زندگی سے شہادت کی موت بدرجہا بہتر ہے۔وہ آخری وقت تک لڑیں گے۔دوسری طرف صہیونیوں کے نزدیک یہ اسرائیلی ریاست کو بچانے کے لیے ان کی آخری لڑائی ہے جس میں وہ انتہائی سفاکی و سنگ دلی کے ساتھ حماس کی مزاحمت کو بالکلیہ طور پر ختم کردینا چاہتےہیں ۔لیکن حماس کی مزاحمت کو ختم کرنے سے زیادہ وہ غزہ میں بچوں اور عورتوں پر بمباری کررہے ہیں۔اس لڑائی کے بعد وہ ایک ایساملک چاہتے ہیں جہاں فلسطین کے کسی فرد کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ ہو۔ذراسی بھی مزاحمت دکھانے والے کو جینے کے حق سے محروم کردیا جائے گا۔تیسری طرف ان صہیونیوں کی اندھا دھند مدد کرنے والوں نے اپنی انسانیت کو اپنی سیاسی بقا کے لیے قربان کردیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے جو بھی اخلاقی حس ان کے اندر رکھی ہے اس کو انہوں نے کچل دیا ہے اور یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اسرائیل کو دنیا کے خطرناک ترین ہتھیار مہیاکردیے جائیں وہیں اہلِ غزّہ بنیادی امداد کو تک ترس جائیں۔ وہ حماس پر یہ کہہ کر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں اگر تم میں اہلِ غزّہ کو بچانا چاہتے ہوتو اپنی مزاحمت اور اپنے ہتھیاروں سے دستبردار ہوجاؤ۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ مشرقی فلسطین اور مغربی کنارے میں رہنے والے چار ملین مسلمان تو غیر مسلح ہیں اور وہ امن کے ساتھ جینے کے خواہاں ہیں لیکن ان کی زندگی کوبھی اجیرن بناکر رکھ دیا گیا ہے ۔کوئی بھی مسلح اسرائیلی آبادکار کسی بھی فلسطینی کو اذیت دے سکتا ہے اور اس کی جان بھی لے سکتا ہے ۔کسی کا بھی گھر مسمار کیا جاسکتا ہےیا کوئی بھی مسلح آباد کار بندوق کے زور پرکسی کو بے گھر کرسکتا ہے۔وہ جب چاہے مسجدِ اقصی ٰ میں گھس سکتے ہیں اور نمازیوں پر تشدد کرسکتے ہیں۔بغیر کسی سبب کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے اوران کو برس ہا برس تعذیب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو اتنا تنگ کردیا جائےکہ وہ اپنی سرزمین سے دستبردار ہوجائیں اور کسی اور مقام پر ہجرت کرجائیں ۔
صہیونی نہیں چاہتے کہ ایک بھی فلسطینی ارضِ فلسطین میں باقی نہ رہے ۔اگر رہنا چاہتا ہے تو وہ ذلت اور خوف کے سایہ میں رہے۔اس جنگ کے دوران دنیا میں مختلف رویّے سامنے آئے ہیں ۔ایک گروہ صہیونیوں کا ہےجو انتہائی سفاکی کے ساتھ معصوم فلسطینی شہریوں پر ان کو بھوکا اور پیاسا رکھ کر بمباری کے ذریعے آگ برسارہا ہے ۔دوسرا گروہ ان صہیونی درندوں کامددگاربنا ہوا ہے اور ان کو ہرطرح کی فوجی ومالی مدد کے لیے اپنے خزانے لٹارہا ہے ۔ تیسرا گروہ وہ ہے جو مسلمانوں کی ہلاکت پر خوش ہوکر جشن منا رہا ہے۔چوتھا گروہ ان مجاہدین کا ہے اور ان کے ساتھ پر عزم فلسطینی عوام ہیں جو مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیا ر ہیں جن میں بچے بھی ہیں جو جنت میں داخلے کا شعوررکھتے ہیں اور اس کے منتظر ہیں۔ پانچواں گروہ امتِ مسلمہ کا وہ طبقہ ہے جن کا دل مغموم و مضطرب ہے ۔اشکبار آنکھوں سے اپنی بے بسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہے ۔ان کے معمولات بدل چکے ہیں ۔جو اٹھتے بیٹھتے اللہ سے فریاد کررہے ہیں جیسے خودان کے گھر میں کوئی سانحہ پیش آیا ہو۔چھٹواں گروہ ان مسلمانوں کا ہے جو، ان حالات سے بے خبر اور بے حسی کا شکار ہیں ۔ساتواں گروہ غیر مسلموں میں سے انصاف پسند لوگوں کا ہے جو انسانیت کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ کر حق گوئی کا فرض انجام دے رہے ہیں ۔آٹھواں گروہ ان حکمرانوں کا ہے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن بے بسی محسوس کررہے ہیں ۔جو امداد بھیج بھی رہے ہیں لیکن ان کی امداد ظالموں کی اجازت کی منتظر ہے۔یہ حکمران اس لیے بے بسی محسوس کررہے ہیں کہ اسرائیل بہت چھوٹا ملک ہے لیکن نیوکلیر ہتھیاروں سے لیس ہے۔ اس چھوٹے سے ملک کے اطراف سارے مسلمان ملک ہیں جواگر جنگ کی لپیٹ میں آجائیں تو کئی ملک تباہ ہوسکتے ہیں ۔نواں گروہ ان مسلم ممالک کا ہے جن کے اسرائیلی حکومت سے سفارتی روابط ہیں اور ان حالات کے پیشِ نظر ابھی تک انہوں نے ان روابط کو منقطع نہیں کیا اور نہ ہی احتجاج کیا ۔دسواں گروہ ان عالمی طاقتوں کا ہے جو اپنے تجارتی و عسکری مفاد کے لیے بظاہر فلسطین کی حمایت اور مدد کا اعلان کررہے ہیں لیکن وہ بالفعل جنگ کو رکوانے اور ان تک امداد پہونچانے کا کوئی انتطام نہیں کررہے ہیں۔ان ممالک میں ایران کا رول بھی مشتبہ ہے جس نے عراق اور شام کے سنی مسلمانوں کا قتلِ عام کیا ہے ۔شاید وہ فلسطین کے شہیدوں کو اپنے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کررہا ہے۔اس ایک جنگ سے اللہ تعالیٰ نے ساری انسانیت کو امتحان میں ڈالا ہے۔ہم بھی اپنا جائزہ لیں ۔ ہمارے دل میں زخمی فلسطین کے لیے کتنا درد ہے؟ہم ان کے لیے کتنی اور کس سوزِدل سے دعائیں کررہے ہیں ۔دعاؤوں میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ان دعاؤوں کے ذریعے ہماری ان مظلوموں سے دلی وابستگی قائم ہوتی ہے۔ہم صہیونی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں ۔لوگوں میں فلسطین کے مسئلہ کو اجاگر کریں ۔یقیناًہم سے سوال ہوگا کہ ان مظلوموں کے لیے ہمارے کیا احساسات تھے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو انسانوں کے امتحان کے لیے بنایا ہے ۔دنیا میں ایک واقعہ ہوتا ہے لیکن اس ایک واقعہ میں بہت سارے انسانوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔ان میں سب سے زیادہ کامیاب وہ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو اللہ کے ہاتھوں فروخت کرکے جنت الفردوس کا سودا کرلیا ہے: إِنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے اُن کے نفس اور اُن کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ اُن سے (جنّت کا وعدہ) اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناوٴ اپنے اُس سودے پر جو تم نے خدا سے چُکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔سورۃ التوبہ ۱۱۱۔
ظالم صہیونیوں کا خود ساختہ عقیدہ ہے کہ جب مقصدِ اقصیٰ کو منہدم کرکے ہیکلِ سلیمانی تعمیر کیا جائے گا تو اس وقت ان کا مسیح آئے گا جس کے بعد یہودیوں کی ساری دنیا میں حکومت قائم ہوگی۔ان کے نزدیک نعوذباللہ عیسی علیہ السلام جھوٹے مسیح ہیں اور وہ ’اصل مسیح ‘ یعنی مسیح دجال کے منتظر ہیں ۔دوسرا گروہ ان عیسائیوں کا ہےجنکا تعلق Protestants سے ہے اور جو Zionist evangelical Christians کہلاتے ہیں ۔ ان کا عقیدہ یہ ہےکہ جب اعظم ترین یہودی ریاست greater Israelکا قیام ہوگا اورمسجدِ اقصیٰ کی جگہ پر ہیکلِ سلیمانی تعمیر ہوگا تو اس وقت عیسی علیہ السلام دوسری مرتبہ دنیا میں تشریف لائیں گے ۔اس عقیدہ کی بنا پر وہ یہودیوں کے عزائم کو پوراکرنے میں ان کے ممدومعاون بن رہے ہیں۔یہ عجیب بات ہے کہ عیسائیوں نے کئی صدیوں تک یہودیوں کو اپنے یورپی ممالک میں بسنے نہیں دیا اس بنا پر کہ انہوں نے عیسیٰ مسیح کو قتل کیا تھا ،لیکن آج عیسائیوں میں سے ایک گروہ یہودیوں کا حامی بنا ہوا ہے۔یہ دراصل قرآن میں لکھی گئی پیشین گوئی ہے کہ یہودیوں پر ہمیشہ ذلت و مسکنت چھائی رہے گی الّا یہ کہ ان کو اللہ کی طرف سے اور انسانوں کی طرف سے سہارا ملے گا : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُواْ إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَآؤُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُواْ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللهِ وَيَقْتُلُونَ الأَنبِيَاءبِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ ۔ یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار ہی پڑی ، کہیں اللہ کے ذمّہ یا انسانوں کے ذمّہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے، یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں، ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے، اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو نا حق قتل کیا۔ یہ ان کی نا فرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے۔سورۃ آل عمران ۱۱۲۔
اس آیتِ مبارکہ میں یہودیوں کو دونوں طرح کی پناہ ملنے کا ذکرہے۔ ۱۴۵۰ سال قبل قرآن کی اس آیت میں ایسی پیشین گوئی کی گئی جو آج کے حالات پر بالکل چسپاں ہوتی ہے جو ۱۹۴۸ ء سے مشرق وسطی ٰ میں پیش آرہے ہیں۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں یہودیوں کا سب سے بڑا سہارا برطانیہ تھا جو اُس زمانے کا سپر پاور تھا۔۱۹۴۸ء میں برطانیہ نے ناجائز یہودی ریاست کو جنم دیا۔۱۹۴۸ ء کے بعد سے امریکہ نے اس ناجائز ریاست کی پرورش وافزائش لے رکھی ہے ۔امریکہ کی صہیونی ریاست کو ظالمانہ حمایت دراصل اللہ کی مشیت کے مطابق ہے جو اس آیت میں پیش کی گئی ہےکہ یہود کو انسانوں کا سہارا ملے گا۔یہ ایسا سہارا ہے جس کی یہود کی پوری تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ۔امریکہ1946سے 2022تک اپنے محنتی عوام کے ٹیکس سے 243.9بلین ڈالر اسرائیل کو ادا کرچکا ہے اور ہتھیاروں کی سپلائی اس کے علاوہ ہے۔ یہ تو ہے حبل من الناس کا مطلب ۔سوال یہ ہے کہ حبل من اللہ کا کیا مطلب ہے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ظالم ریاست کے پیداہونے کے بعد اس کے روز افزوں وسیع تر ہونے کے اسباب اس طرح فرمائے ہیں کہ اس ریاست کے اطراف ایسی عرب حکومتیں قائم کردی گئیں جو اول روز سے اپنی عوام سے برسرِ پیکارہیں جو خود اپنی عوام پر ظلم ڈھاکر خارجی محاذ پر کمزور ہوکر اسرائیل کے مقابلے سرنگوں ہوتی گئیں ۔یہ بھی اللہ کی مشیت کا حصہ ہے کہ عرب عوام، خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد ایک صدی سے بدترین ڈکٹیٹرس کے استبداد کا شکارہیں ۔ذرا سی تنقید پر ان کو جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے اور شدید اذیت سے گزارا جاتا ہے اور بغیر مقدمات کے ان کو قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ساری دنیا کے ملکوں کے لوگ آزادیٔ اظہار مافی ضمیر سے بہرہ مند ہیں لیکن عرب ممالک کے عوام اس حق سے محروم رکھے گئےہیں ۔ان جابر حکمرانوں کی وجہ سے اسرائیل کو پنپنے کا موقعہ ملا ہے ۔اگر اسرائیل کے اطراف میں عرب ممالک کے حکمراں متحد ہوتے اور اپنی عوام کے خیر خواہ ہوتے ہوئے اپنی ریاستوں کو مضبوط بنائے ہوتے تو ایک دن بھی اسرائیل کی حکومت چل نہیں سکتی ۔مالدار مسلم ملکوں کے اتحاد سے تیل اور گیس کی سپلائی اسرائیل کو اگر بند کردی جائے تو اسرائیل کا وجودخطرہ میں پڑجائے گا۔اہلِ غزّہ کا اتنا خون بہنے کے بعد بھی ہمیں مسلم ملکوں میں اسرائیل کے خلاف مضبوط اتحاد کا ابھی تک کھل کر اظہار نظر نہیں آیا ۔اللہ کی مشیت کے تحت صہیونی حکومت کے اطراف ایسے بے توفیق حکمرانوں کا ہونا ’حبل من اللہ ‘ کی ایک شکل ہے ۔
سوال یہ ہے کہ حبل من اللہ اور حبل من الناس کی ضرورت گردشِ ایام کے اس موڑ پر کیوں پیش آئی؟اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ یہودی ریاست قائم ہواور اس کو پنپنے کا موقعہ دیا جائے تاکہ دنیا بھر سے انتہا پسند یہودی یہاں جمع ہوں یہاں تک کہ عیسی ٰعلیہ السلام کی آمد پر ان کے ہاتھوں ان یہودیوں کا قتل ہواور وہ ایک ہی جگہ ہو۔ یہودی حکمراں چاہتے ہیں کہ دنیا میں منتشر diaspora میں رہنے والے یہودی سب ایک جگہ جمع ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت اس طرح پوری ہوگی کہ مغضوب یہودیوں کا قتل عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں آسانی سے ہو ۔سوال یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں کیوں ان کو مارا جائے؟اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو کام ۲۰۲۳ سال قبل نامکمل رہ گیا تھا اس کو مکمل ہونا ہے ۔اللہ کی سنت کے مطابق رسولوں کا انکارکرنے والی اقوام کو عذاب کے ذریعے ہلاک کردیا گیا اور رسول اور ان کے ماننے والے ہی غالب رہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس سنت کو اس طرح بیان فرمایا ہے : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ ۔اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسُول غالب ہو کر رہیں گے۔ فی الواقع اللہ زبردست اور زورآور ہے۔
سورۃ المجادلہ ۲۱۔
چونکہ سیدنا عیسی ٰعلیہ السلام کو اٹھالیا گیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا انکارکرنے والوں پر اللہ کا عذاب نہیں آیا اس لیے اللہ تعالیٰ اس ادھورے کام کو قربِ قیامت پورا کرے گا ۔عیسیٰؑ کے ہاتھوں عذاب کی ایک حکمت یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیؑ کی رسالت کا نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کی والدہ پر بہت ہی برا بہتان لگا یا۔ یہ ہے اللہ کی اورانسانوں کی طرف سے حبلین (حبل من اللہ اور حبل من الناس )کی حکمت ۔سوال یہ ہے کہ یہ حبلین کب تک اس خبیث اور ظالم ریاست کو دستیاب رہیں گی۔ قربِ قیامت کی نشانیوں سے متعلق احادیث کا ماحصل یہ ہےکہ عیسیٰ علیہ السلام کی آمد تک اس ظالم ریاست کے ظلم کا تالاب بھرتا رہے گا اور پھر ان پر بدترین یلغار ہوگی ۔اللہ تعالیٰ کی سنت کو اس آیت میں پیش کیا جارہا ہے : وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمًا وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ۔یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں، ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں، پھر اُن کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔سورۃ آل عمران ۱۷۸۔
صہیونی ظالموں کے لیے یہ ڈھیل خودان کی بدترین تباہی کاپیش خیمہ ہے۔جبکہ فلسطینی شہداء ابدی کامیابی سے ہمکنار ہورہےہیں۔ ایک زخمی فلسطینی ماں سے جب اس کی زخمی بیٹی نےپانی مانگا تو ماں نے جواب میں کہا کہ بیٹی اور تھوڑا انتظار کرلو ہم جنت میں پانی سے سیراب ہونگے ۔ بچوں کی سرجری کے لیے سن کرنے کا انجکشن عدم دستیا ب ہونے کی صورت میں بچے قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سرجری کروارہے ہیں تاکہ ان کو تکلیف کا احساس نہ ہو۔یہ کیسی تلاوت ہے! اللہ کے یہ کیسے پر اسرار بندے ہیں ! ایک طرف یہود کا ناقابل ِ تصور ظلم ہے تو دوسری طرف عقل سے ماوراء اہل ِ غزّہ کا صبر۔ایک طرف جہنم کا استحقاق ہے تو دوسری طرف جنت کے اعلیٰ درجات کا استحقاق۔اللہ تعالی ٰ صرف اپنے علم کی بنیاد پر ،بغیر عمل کے جنت کا یا جہنم کا استحقاق عطا نہیں فرماتا ۔
چارو ناچارہر ایک اپنی منزل پہ جارہا ہے
کوئی جنت تو کوئی اپنی دوزخ بنارہا ہے
لوگ حماس کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں ۔کوئی ان کی شجاعت وہمت کی داد دے رہا ہے تو کوئی ان کے اقدام کو خودفلسطین کے لوگوں کے لیے تباہ کن بتارہا ہے۔ان کا استدلال یہ ہے کہ اقدام کے بجائے وہ صبر اختیارکرتے اور اللہ کے فیصلے کا انتظار کرتے تو اتنی تباہی نہ ہوتی ۔حماس اور اسرائیل کے درمیان قوت کا کوئی تناسب نہیں ہے ۔اتنی بڑی طاقت اس پر مزید امریکہ کی مدد ہوتو کیسے یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کامیابی کے لیے سورۃ الانفال آیت ۶۶ میں ۱:۲ کی نسبت بتلائی ہے یعنی دشمن کے مقابلے میں اس کی آدھی قوت ہوتو مقابلہ کیا جائے ورنہ صبر سے اللہ کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے ۔یہ ایک نقطۂ نظر ہے ۔دوسرے نقطۂ نظر کو ہم سورۃ الحج کی آیات ۳۹ ،۴۰کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ۝ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ۝ اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں ، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئےصرف اِس قصُور پر کہ وہ کہتے تھے”ہمارا ربّ اللہ ہے۔“اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبداور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے ، سب مِسمار کر ڈالی جائیں۔اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔اللہ بڑا طاقتور اور زبر دست ہے۔سورۃ الحج ۳۹،۴۰۔
ان آیات کا فلسطین کی حالیہ جنگ پر صدفیصد انطباق ہوتا ہے۔نہ صرف ان کو گھروں سے نکالاگیا بلکہ ان پر عرصۂ حیات اتنا تنگ کردیا گیا کہ ان کو زندگی سے موت بہترمحسوس ہوتی نظر آتی ہے ۔ان غیرت مند مسلمانوں نے محسوس کیا کہ بتدریج اور گمنام اموات سےبہتر ہے کہ جرأت و پامردی سے جامِ شہادت نوش کرلیں تاکہ ان کو ابدی زندگی میں حقیقی راحت ملے ۔دوسرے یہ کہ مسئلہ فلسطین سے ساری دنیا واقف ہوجائے اورانصاف پسند لوگ جان لیں کہ یہودی فلسطین پر ناجائز طورپر ۷۰سال سے قابض ہیں ۔یہ بھی معلوم ہوکہ یہودی کتنے ظالم اورسفاک قسم کے لوگ ہیں ۔اس جنگ سے قبل مسئلہ فلسطین بھلا دیا گیا تھا اور حالت یہ ہوگئی تھی کہ مسلم ملک اس مسئلہ کو فراموش کرکے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے لگے تھے۔
مزید یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ جب بہت بڑا دشمن کمزور ملک پر حملہ کرنے والا ہو اور حملہ یقینی ہو تو اس صورت میں انتظار نہ کیا جائے بلکہ اقدام کیا جائے ۔خبروں کے ذریعے جب یہ یقین ہوگیا تھا کہ رومی سلطنت بہت بڑی فوج لے کر مدینے پر حملہ کی تیاری کررہی ہے اور مدینے کی چھوٹی سی ریاست کو نیست و نابودکرنے والی ہے تو رسول اللہ ﷺنے سب صحابہ کو جنگ کی تیاری کاحکم دے دیا ۔منافقین یہ سمجھ رہے تھے کہ اہلِ ایمان موت میں منہ میں جارہے ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل یہ ہواکہ رومی فوج تبوک کے مقام پر مقابلے پرنہیں آئی ۔ اس جنگ میں منافقین کھل کر سامنے آگئے تھے ۔اسی جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً وَجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ۔ نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔سورۃ التوبہ ۴۱۔
اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہےکہ چاہے طاقت کم ہو یا زیادہ جب دشمن کا حملہ یقینی ہوتو غفلت میں مارے جانے کے بجائے اقدامی پوزیشن اختیارکی جائے۔حماس کے ترجمان کہتے ہیں کہ اس بات کا قوی امکان موجود تھا کہ اسرائیل کسی نہ کسی بہانے سے حملہ کرنے والا تھا جس طرح ہر سال اسرائیل کی طرف سے غزّہ پر حملے ہوتے رہتے تھے۔
جب کسی کے گھر میں کوئی آفت ٹوٹ پڑتی ہے تو گھر کا ہر فرد بے چین و مضطرب ہوجاتا ہے ۔معمولات بدل جاتے ہیں ۔رجوع الی اللہ بڑھ جاتا ہے۔دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں ۔راتوں میں اٹھ کر تہجد کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ یقیناًاللہ دعاؤوں کو سنتا ہے اور مسائل حل ہوتے ہیں ۔ ان سنگین حالات میں ہم اللہ کی نافرمانی سے بچیں اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض ادا کریں تاکہ ہماری دعائیں قبول ہوں۔
جو دعائیں مجاہدین کے لیے خاص ہیں وہ یہاں پیش کی جارہی ہیں جن کو ہم اٹھتے بیٹھتے اور قنوتِ نازلہ میں پڑھ سکتے ہیں :
اللَّهُمَّ لا تَرْفَعْ لِلْيَهُود ِفي القُدسِ رَايَةً، ۔اے اللہ قدس میں یہود کے جھنڈے کو بلند نہ کر ۔
ولا تُحَقِّقْ لَهُم في غَزَّةَ غَايَةً۔اور غزہ میں ان کے مقاصدکو پورانہ کر۔
اللَّهُمَّ أَغِثْ أهلَ القُدْسِ وأهلَ غَزَّةَ وأهلَ فِلَسْطِينَ۔اے اللہ اہلِ قدس اہل فلسطین اوراہل غزہ کی مددفرما۔
اللَّهُمَّ اُشْدُدْ أَزْرَهُم، اللَّهُمَّ اِرْبِطْ على قُلُوبِهِم۔اے اللہ ان کی طاقت کو مضبوط کردے اور ان کے دلوں کو مضبوط کردے
اللَّهُمَّ اُنْشُرِ السَّكِينَةَ على قُلُوبِهِم۔ا ے اللہ ان کے دلوں پر سکون نازل فرما۔
اللَّهُمَّ أَنْزِلْ علَيِّهِمُ دِفْئًا وسَلامًا وأمْنًا وأمَانًا۔اے اللہ انہیں جذبہ ،سلامتی اور امن وامان عطافرما۔
اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ شُهَدَاءَهُم واشْفِ مَرْضَاهُم وَ جَرْحَاھُم۔اے اللہ ان کے شہداءکو قبول فرمااور ان کے مریضوں اورزخمیوں کو شفاعطافرما۔
اللَّهُمَّ ارْحَمْ الأُمَّهَاتِ الثَّكَالٰى مِنْهُم والأَرَامِلَ۔اے اللہ سوگوارماؤوں اور بیواؤوں پر رحم فرما۔
اللَّهُمَّ ارْحَمْ شُيوخًا رُكَّعًا وأطفالا رُضَّعًا وشَبابًا سُجَّدًا۔اے اللہ رکوع کرنے والے بوڑھوں پر اور شیرخواربچوں پرسجدہ ریزنوجوانوں پر رحم فرما۔
اللَّهُمَّ عَليكَ بالصَّهَايِنَةِ المُعْتَدِينَ وَمَنْ وَالاهُم وسَاعَدَهُم۔اے اللہ تو غاصب یہودیوں کو دیکھ لے اور جو ان کی حمایت اور مددکرتے ہیں۔
اللَّهُمَّ شَتِّتْ شَمْلَهُم وبَدِّدْ قُوَّتهُم وفَرِّقْ جَمْعَهُم۔اے اللہ ان کی وحدت کو پراگندہ کردے اور ان کی قوت کو ناکام بنادے اوران کے اتحاد کو پارہ پارہ کردے۔
اللَّهُمَّ أرِنَا فِيهِم ءَاثَارَ وَعَجَائِبَ قُدْرَتِكَ۔اے اللہ ان میں اپنی قدرت کے اثرات و عجائبات دکھادے۔
اللَّهُمَّ مَزِّقْهُم شَرَّ مُمَزَّقٍ يا رَبَّ العَالمَينَ۔اے اللہ ان کو بدترین طریقے سے تباہ کردےاے جہانوں کے رب۔
اللَّهُمَّ احْصِهِم عَدَدًا واقْتُلْهُم بَدَدًا وَلا تُغادِرْ مِنْهُم أَحَدًا۔ اے اللہ ایک ایک کا شمارکرکے ان کوماردے اور کسی کو نہ چھوڑ۔
وصلِّ اللَّهُمَّ عَلٰى نبيِّنا مُحَمَّدِ وَّعَلٰى آلِه وَصَحْبِه أجمعين ۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023