حکومت پاکستان نے عمران خان کی تقاریر نشر کرنے پر عائد پابندی ہٹائی
نئی دہلی، نومبر 6: دی ڈان کی خبر کے مطابق پاکستانی حکومت نے ہفتے کے روز سابق وزیراعظم عمران خان کی پریس کانفرنسوں کو نشر کرنے یا دوبارہ نشر کرنے سے روکنے کے لیے ٹیلی ویژن چینلز پر سے پابندی ہٹا دی۔
یہ پابندی پاکستان الیکٹرانک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے ہفتے کے روز لگائی گئی تھی۔ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے نے کہا کہ اس طرح کے مواد کو نشر کرنے سے شہریوں میں نفرت پیدا ہونے کا امکان ہے، یہ امن و امان کی بحالی کے لیے متعصب ہے، اس سے عوامی امن کو خراب کرنے اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا امکان ہے۔
پاکستان کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو حکم دیا کہ وہ آئین کی دفعہ 19 (آزادی اظہار) کے تحت درج قانونی تقاضوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
دی ڈان کی خبر کے مطابق اورنگزیب نے کہا ’’وزیراعظم نے عمران خان کے دور کی تلخ روایات کو ختم کرکے ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ حکومت اس بات پر دھیان نہیں رکھتی کہ خان نے اپنے چار سال کے اقتدار میں سابق اپوزیشن رہنماؤں اور سیاست دانوں کے ساتھ کیا کیا۔‘‘
2020 میں، جب خان ملک کے وزیر اعظم تھے، پاکستان الیکٹرانک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی نے چینلز کو مفرور اور اشتہاری مجرموں کی تقاریر، انٹرویوز اور عوامی خطابات نشر کرنے سے روک دیا تھا۔
ہفتہ کو جاری کردہ ایک نوٹس میں ریگولیٹری اتھارٹی نے کہا کہ خان نے اپنی تقاریر کے دوران ’’قتل کی منصوبہ بندی کے لیے بے بنیاد الزامات لگا کر ریاستی اداروں کے خلاف سازشیں کیں۔‘‘
جمعرات کو وزیر آباد میں ایک ریلی کے دوران ایک نامعلوم حملہ آور کی جانب سے ان پر متعدد گولیاں چلنے کے بعد خان کو ٹانگ میں گولی لگی تھی۔
دی ڈان کی خبر کے مطابق حملے کے فوراً بعد عمران خان نے شہباز شریف، پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور پاکستانی فوج کے ایک سینئر جنرل پر ان کے قتل کی کوشش کا الزام لگایا۔ خان نے مطالبہ کیا کہ وہ فائرنگ کی منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر مستعفی ہو جائیں۔