
پہلگام میں دہشت گرد حملے کے دوران انسانیت کا روشن چہرہ
’کشمیریت‘ اور انسانیت نوازی کی متعدد مثالیں۔ نفرت پھیلانے والوں کے لیے ایک سبق
محمد مجیب الاعلیٰ
پہلگام کے پر فضا ماحول میں پیش آنے والے دہشت گرد واقعے نے جہاں دلوں کو زخمی کیا وہیں کشمیری عوام کی بے مثال انسان دوستی، ہمدردی اور مہمان نوازی نے نئی تاریخ رقم کی۔#Kashmiriyat ہیش ٹیگ کے ساتھ سوشل میڈیا پر ان مقامی مسلمانوں کی بے لوث قربانیوں کو سراہا جا رہا ہے جنہوں نے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر حملے کے شکار سیاحوں کی مدد کی۔
جب گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونجنے لگی اور سیاح دہشت زدہ ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگے تب یہی کشمیری مسلمان آگے بڑھے۔کسی نے زخمیوں کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر محفوظ مقامات تک پہنچایا، کسی نے اپنے ہوٹلوں اور گھروں کے دروازے پناہ گزینوں کے لیے کھول دیے۔ ایمبولینس گاڑیوں کی کمی محسوس ہوئی تو مقامی نوجوان اپنی ذاتی گاڑیاں لے کر میدان میں اتر آئے۔ زخمیوں کو فوری ابتدائی طبی امداد دینے والے بھی یہی مقامی مسلمان تھے، جو نہ کسی مذہب کا سوچ رہے تھے نہ کسی تفریق کا۔ ایسی بے مثال انسان دوستی کی کئی جھلکیاں منظر عام پر آئیں۔ مثال کے طور پر سید عادل حسین شاہ جو علاقے کے معروف گھوڑے والے تھے، سب کچھ چھوڑ کر آگے بڑھے۔ انہوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر زخمیوں اور خواتین و بچوں کو محفوظ مقام تک پہنچایا۔ عینی شاہدین کے مطابق، عادل حسین شاہ نے کئی سیاحوں کو گھوڑے پر سوار کروا کے انہیں گولیوں کی زد سے نکالا۔
جب دہشت گردوں نے ان پر براہ راست نشانہ باندھا، تب بھی وہ سیاحوں کی ڈھال بن کر کھڑے رہے۔ آخرکار، ان کے سینے پر گولی لگی اور وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔
ان کی شہادت نے نہ صرف مقامی لوگوں کی آنکھیں نم کر دیں، بلکہ ملک بھر میں کشمیری عوام کی انسان دوستی اور قربانی کا پیغام پھیلا دیا۔
سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگوں نے سید عادل حسین شاہ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا:
"یہی ہے اصل کشمیریت — دوسروں کے لیے اپنی جان قربان کر دینا۔”
عادل حسین شاہ کی قربانی آج پوری وادی کے لیے ایک روشن مثال بن چکی ہے۔
ان کا نام ان تمام بہادروں میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے نفرت کے مقابلے میں محبت، دہشت کے مقابلے میں انسانیت کا چراغ روشن رکھا۔
ان کے اس عظیم جذبے نے دنیا کو بتا دیا کہ کشمیریوں کے دل آج بھی محبت، قربانی اور بھائی چارے سے لبریز ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فاموں پر ہزاروں افراد نے ان کشمیریوں کی بے مثال ہمدردی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا:
"دہشت گردوں نے نفرت کے بیج بوئے مگر کشمیریوں نے محبت کا پھول کھلا دیا۔”
سوشل میڈیا پر ایک ور دل دہلا دینے والی ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ایک کشمیری نوجوان، پسینے میں شرابور، اپنے کندھوں پر ایک زخمی سیاح کو اٹھائے، بے خوف دوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ پس منظر میں گلوگیر آواز میں ایک مصرع بار بار گونجتا ہے: ’’جہلم رویا۔۔۔ جہلم رویا۔۔۔‘‘۔
یہ نوجوان اپنی آخری توانائیاں صرف کرتے ہوئے سیاح کو ہسپتال تک پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ جب اس کارنامے کے بارے میں اس سے سوال کیا گیا تو اس کی آواز رندھ گئی۔ اس نے بتایا:
’’ماں اور بیٹا دونوں زخمی پڑے تھے۔ ماں کو ایک دوسرے گھوڑے والے نے کسی شخص کے تعاون سے ہسپتال پہنچایا اور میں نے ان کے بیٹے کو یہاں کے دواخانے میں داخل کرایا۔ قتل تو انسانیت کا ہوا ہے، پورے کشمیر کا قتل ہوا ہے۔ ہم تو یہ سوچتے ہیں صاحب کہ اچھا ہوتا، ان کے بدلے میں وہ ہمیں ہی مار ڈالتے، مگر ان بے گناہوں پر یہ ظلم نہ ڈھاتے۔ ہم نے زندگی میں ایسا واقعہ پہلی بار دیکھا ہے، سر! پورے کشمیر میں ماتم چھایا ہوا ہے، ہر گھر میں، ہر بازار میں غم کی فضا ہے۔‘‘
اس نوجوان کی باتیں کشمیر کے اجتماعی درد اور کشمیریوں کی انسان دوستی کا زندہ ثبوت ہیں۔ یہ ویڈیو نہ صرف ایک فرد کی قربانی کو اجاگر کرتی ہے بلکہ پوری وادی کے زخمی دل کی گواہی بھی دیتی ہے۔
میجر جنرل امن نائک، جو بھارتی فوج میں سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں، وادی کشمیر کی مٹی سے جڑے ایک سپوت ہیں۔ وہ یہیں پیدا ہوئے، یہیں پروان چڑھے اور اپنی پیدائشی سرزمین کی نبض کو دل کی گہرائیوں سے سمجھتے ہیں۔ ان کا طویل عسکری تجربہ اور کشمیر کے تہذیبی مزاج سے گہرا ربط، انہیں موجودہ صورتحال کو پرکھنے اور اس کے پیچیدہ پہلوؤں کو سمجھانے کی ایک منفرد صلاحیت عطا کرتا ہے۔ پہلگام کے اندوہناک حملے کے بعد میجر جنرل امن نائک نے اپنے ایک مضمون میں گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:
"یہ بزدلانہ حملہ نہ صرف معصوم جانوں پر حملہ تھا، بلکہ ’کشمیریت‘ کی اس صدیوں پرانی روح پر بھی کاری ضرب تھی جو انسانیت، مہمان نوازی اور رواداری کی بنیاد پر استوار ہے۔”
وہ تفصیل بیان کرتے ہیں کہ بیسارن کی خوبصورت چراگاہوں میں جب بےخبر سیاح فطرت کا حسن دیکھنے آئے تھے، تب پانچ سے چھ مسلح دہشت گرد فوجی وردیوں میں ملبوس ہو کر جنگل سے برآمد ہوئے اور سیاحوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ حملہ آور سیکیورٹی اہلکاروں کا بھیس اختیار کیے ہوئے تھے؛ وہ سیاحوں سے نام اور شناخت پوچھتے، پھر نہایت قریب سے انہیں گولی مار دیتے۔ یہ کوئی جنگی تصادم نہ تھا، نہ ہی سکیورٹی کارروائی کا ردعمل — بلکہ یہ ایک کھلی نسل کشی تھی، جس کا مقصد خوف اور دہشت پھیلانا، کشمیر کی شناخت کو مجروح کرنا اور انسانیت پر وار کرنا تھا۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
"کشمیریت، جس کی بنیاد مہمان نوازی، رواداری اور محبت پر ہے، ہمیشہ ہر آنے والے کو بانہوں میں سمیٹتی آئی ہے۔ یہ حملہ اسی مقدس روایت کو زخمی کرنے کی مذموم کوشش تھی۔ یہ نہ صرف معصوم سیاحوں پر حملہ تھا بلکہ ان ہزاروں کشمیریوں کی روزی روٹی پر بھی وار تھا جن کی زندگیاں سیاحت پر منحصر ہیں۔” ان کے مطابق سال 2024 میں وادی کشمیر نے 35 لاکھ سے زیادہ سیاحوں کا خیرمقدم کیا جس سے مقامی معیشت کو نئی جان ملی اور خیر سگالی کے جذبے کو فروغ حاصل ہوا تھا۔ بیسارن کا یہ سانحہ برسوں کی محنت اور امید کو ضائع کرنے کی ایک سنگین سازش تھی — ان وادیوں میں خوف کا سایہ پھیلانے کی کوشش تھی جہاں کبھی قہقہے گونجا کرتے تھے۔ انہوں نے کشمیری عوام سے اپیل کی کہ وہ دہشت گردی اور نفرت کے پھیلائے گئے زہر کو یکسر مسترد کر دیں۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
"وادی بھر میں نکالی جانے والی شمع بردار ریلیاں اور دہشت گردی کے خلاف اٹھنے والی آوازیں اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ کشمیری عوام نے اس ظلم کو دل سے رد کر دیا ہے۔ یہ حملہ افراد پر نہیں، کشمیریت کی روح پر حملہ تھا۔ اس سانحے کے خوف کا مقابلہ اجتماعی عزم اور اتحاد سے کرنا ہوگا۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہوگا کہ کشمیر آج بھی محبت اور خوبصورتی کی سرزمین ہے۔”
آخر میں وہ رقم طراز ہیں:
"ہر کشمیری، ہر ہندوستانی اور ہر صاحبِ ضمیر انسان کو چاہیے کہ وہ اس سفاکیت کی بھرپور مذمت کرے۔ ان چھببیس معصوم جانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہی ہے کہ ہم امن، یکجہتی اور کشمیریت کی ازلی قدروں سے دوبارہ عہدِ وفا کریں۔ بیسارن کی انہی سرسبز چراگاہوں میں جہاں خون کی ہولی کھیلی گئی امید کے نئے بیج بوئے جائیں۔
اجتماعی قوت اور اخلاص کے ساتھ کشمیر ایک بار پھر انسانیت کا روشن چراغ بن کر دنیا کے سامنے سرخرو ہوگا۔”
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 مئی تا 10 مئی 2025