100 سے زیادہ سابق بیوروکریٹس نے پرگیہ ٹھاکر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا
نئی دہلی، جنوری 7: سرکاری ملازمین کے ایک گروپ نے ہفتہ کے روز بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکن پارلیمنٹ پرگیہ ٹھاکر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جس نے ہندوؤں کو گھروں میں ہتھیار رکھنے کی ترغیب دی تھی۔
25 دسمبر کو کرناٹک کے شیو موگا شہر میں ہندو جاگرانا ویدیکے کی طرف سے منعقد ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے بھوپال کے رکن پارلیمنٹ نے کہا تھا کہ ہندوؤں کو ان پر اور ان کے وقار پر حملہ کرنے والوں کو جواب دینے کا حق ہے۔
ٹھاکر نے اجتماع سے کہا تھا کہ ’’اپنے گھروں میں ہتھیار رکھیں، اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم سبزیاں کاٹنے کے لیے استعمال ہونے والی چھریاں ضرور رکھیں۔ اگر کوئی ہمارے گھر میں گھس کر ہم پر حملہ کرے تو اسے منہ توڑ جواب دینا ہمارا حق ہے۔‘‘
اس نے ہندوؤں پر بیہ بھی زور دیا تھا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ’’لو جہاد‘‘ سے بچائیں۔
ہفتہ کے روز سابق سرکاری ملازمین نے کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ کے بینر تلے جاری ایک بیان میں کہا کہ سیاق و سباق اور ’’لو جہاد‘‘ کے اصطلاح کے استعمال سے کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ ٹھاکر اپنے تبصروں سے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی تھی۔
انھوں نے مزید کہا ’’یہ بھی ممکن ہے کہ وہ عیسائیوں اور دیگر غیر ہندو برادریوں کے خلاف بھی وارننگ دے رہی ہو۔ اگرچہ پرگیہ ٹھاکر نے اپنے خلاف مجرمانہ الزامات عائد کیے جانے سے بچنے کے لیے اپنے الفاظ کو چالاکی سے چن لیا ہے، لیکن یہ بھیس صرف ایک پتلا ہے۔ وہ واضح طور پر غیر ہندو برادریوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہی ہے اور ان کے خلاف تشدد کی وکالت کر رہی ہے۔‘‘
اس بیان پر دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ، ہندوستانی انتظامی خدمات کے سابق افسران ہرش مندر، جولیو ریبیرو اور ارونا رائے سمیت 103 ریٹائرڈ سرکاری ملازمین نے دستخط کیے ہیں۔
سابق بیوروکریٹس نے کہا کہ ٹھاکر کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے کیوں کہ اس نے نہ صرف تعزیرات ہند کے تحت متعدد جرائم کا ارتکاب کیا ہے بلکہ اس نے ہندوستان کے آئین کو برقرار رکھنے کے لیے ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے اپنے حلف کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اس کی اشتعال انگیز نفرت انگیز تقریر اور نفرت پھیلانے کی اس کی بار بار کی کارروائیوں سے اس نے ممبر پارلیمنٹ ہونے کا اخلاقی حق کھو دیا ہے۔‘‘
دستخط کنندگان نے لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کو ایوان زیریں کی اخلاقیات کی کمیٹی کے پاس کارروائی کے لیے بھیجیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ حقیقت کہ پولیس نے ممبر پارلیمنٹ کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لیے ایف آئی آر درج کی ہے، کارروائی کرنے کے لیے کافی بنیاد ہونی چاہیے۔‘‘
28 دسمبر کو ٹھاکر کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153A (مذہب اور نسل کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور 295A (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی حرکتیں جو کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے اس کے مذہبی جذبات کو مجروح کریں) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
سابق سرکاری ملازمین نے اپنے بیان میں کہا کہ ہندوستانی معاشرہ ’’اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کا شکار ہو چکا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’زہر کی یومیہ خوراک‘‘ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر غیر ہندو برادریوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف ڈالی جاتی ہے۔
سابق سرکاری ملازمین نے بی جے پی لیڈر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے پر شیوموگا پولیس کی ستائش کی اور امید ظاہر کی کہ حکام عدالت میں چارج شیٹ داخل کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھیں گے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ٹھاکر نے اپنے بیان سے ہنگامہ برپا کیا ہو۔ مئی 2019 میں ٹھاکر نے مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو محب وطن قرار دیا تھا۔ اس نے اپنی پارٹی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی طرف سے تنقید کے بعد معافی نامہ جاری کیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بعد میں کہا کہ وہ ٹھاکر کے تبصروں کے لیے ’’انھیں کبھی دل سے معاف نہیں کر سکیں گے۔‘‘