عمران خان کے دورہ بیجنگ کے دوران چین کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر میں ’’یک طرفہ کارروائیوں‘‘ کے خلاف ہے

نئی دہلی، فروری 7: پاکستان کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں چین نے اتوار کو کہا کہ وہ کشمیر میں ’’کسی بھی طرح کے یکطرفہ اقدامات کی مخالفت کرتا ہے جو صورت حال کو پیچیدہ بناتے ہیں۔‘‘

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ونٹر اولمپکس 2022 کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے 3 فروری سے 6 فروری تک بیجنگ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انھوں نے چینی صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کی چیانگ سے ملاقات کی۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے چین کو جموں و کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کیا، جس میں اس موضوع پر اس کے تحفظات بھی شامل ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’چینی فریق نے اس بات کا اعادہ کیا کہ مسئلۂ کشمیر تاریخی تنازعہ ہے اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر، متعلقہ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کی بنیاد پر مناسب اور پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔‘‘

چین اور پاکستان دونوں نے کہا کہ ’’پرامن اور خوش حال جنوبی ایشیا تمام فریقوں کے مشترکہ مفاد میں ہے۔‘‘

بیان کے مطابق ’’انھوں نے علاقائی تعاون کو فروغ دینے اور خطے میں دیرپا امن، استحکام اور مشترکہ خوش حالی کے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے بات چیت اور تمام تصفیہ طلب تنازعات کے حل کی اہمیت پر زور دیا۔‘‘

خان نے کہا کہ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پی ای سی) نے پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ جمعہ کے روز دونوں ممالک نے سی پی ای سی کے حصے کے طور پر صنعتی تعاون کے ایک فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے۔

چین اور پاکستان نے گوادر پورٹ کو سی پی ای سی کا مرکزی ستون اور علاقائی روابط میں اہم نوڈ کے طور پر بھی بیان کیا۔

خان نے ایک الگ بیان میں الزام لگایا کہ جموں و کشمیر میں ’’مظالم‘‘ کیے جا رہے ہیں اور ’’آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارتی کی ہندوتوا ذہنیت کو آگے بڑھاتے ہوئے‘‘ اقلیتوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’بھارت کی تیزی سے بڑھتی عسکریت پسندی‘‘ علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے۔

بھارت کا مسلسل موقف رہا ہے کہ پورا جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور خطے میں کسی بھی بیرونی مداخلت کی مخالفت کرتا ہے۔

5 فروری 2020 کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ وی مرلی دھرن نے لوک سبھا کو بتایا تھا کہ سی پی ای سی غیر قانونی ہے کیوں کہ یہ ’’جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے گزرتا ہے جو پاکستان کے غیر قانونی قبضے میں ہیں۔‘‘

مرلی دھرن نے کہا تھا ’’حکومت نے جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں غیر قانونی طور پر پاکستان کے زیر قبضہ علاقوں میں ان کی سرگرمیوں کے بارے میں چینی فریق کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ ایسی سرگرمیاں بند کر دیں۔‘‘