سی اے اے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سپریم کورٹ نے مرکز سے جواب طلب کیا
نئی دہلی، ستمبر 13: سپریم کورٹ نے پیر کے روز شہریت ترمیمی قانون 2019 کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کے بیچ کو الگ کرنے کی ہدایت جاری کی اور مرکز کو نوٹس جاری کیا کہ وہ درخواستوں کو تقسیم کرنے کے بعد چار ہفتوں کے اندر اپنا جواب داخل کرے۔
پی ٹی آئی کے مطابق چیف جسٹس یو یو للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ کی بنچ نے اس معاملے کی سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کر دی اور زبانی طور پر کہا کہ اس کیس کو تین ججوں کی بنچ کے پاس بھیجا جائے گا۔
اس قانون کے خلاف 200 سے زیادہ مفاد عامہ کی درخواستیں دائر کی گئی ہیں، جو بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے چھ غیر مسلم مذہبی برادریوں کے پناہ گزینوں کو اس شرط پر شہریت فراہم کرتا ہے کہ وہ چھ سال سے ہندوستان میں مقیم ہوں اور 31 دسمبر 2014 تک ملک میں داخل ہوئے ہوں۔
تاہم اس قانون پر عمل درآمد ہونا باقی ہے کیوں کہ کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے اس کے قواعد اب تک وضع نہیں کیے گئے ہیں۔ مئی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ وبا ختم ہوتے ہی یہ قانون نافذ کر دیا جائے گا۔
درخواست گزاروں نے دلیل دی ہے کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو فروغ دیتا ہے اور آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
اے این آئی کے مطابق اس قانون کے خلاف درخواستیں پہلی بار 18 دسمبر 2019 کو سماعت کے لیے آئی تھیں۔ کیس کی آخری سماعت 15 جون 2021 کو ہوئی تھی۔
جنوری 2020 میں سپریم کورٹ نے مرکز کو عرضیوں کا جواب دینے کے لیے چار ہفتوں کا وقت دیا تھا۔
مارچ 2020 میں داخل کردہ 129 صفحات پر مشتمل حلف نامے میں مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کسی بھی شہری کے قانونی، جمہوری اور سیکولر حقوق کو متاثر نہیں کرتا ہے اور یہ کہ پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کردہ قانون ’’عدالتی جائزے کے دائرۂ کار کے اندر نہیں آ سکتا۔‘‘
مرکز نے کہا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون صرف پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والے ظلم و ستم کا شکار کمیونٹی کے ارکان کو راحت فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
تاہم ناقدین کو خدشہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کا، نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے ساتھ جوڑ کر، ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے غلط استعمال کیا جائے گا۔