اڈیشہ ریل سانحہ: اسباب و اسباق

بھارتی ریلوے کی تاریخ کا تیسرا سب سے بڑا حادثہ،انسانی غلطیاں کارفرما!

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

اڈیشہ کے بالاسور میں پیش آنے والے ریل حادثے کی ویڈیوز کو دیکھنے کے بعد نیند اور ہوش دونوں اڑ جاتے ہیں۔ ہلاک ہونے والے تقریباً تین سو لوگوں کے پسماندگان پر رحم آتا ہے اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی لوگوں کے لیے دعا نکلتی ہے۔ ہندوستانی ریلوے کی تاریخ میں پیش آنے والا یہ تیسرا سب سے بڑا حادثہ ہے۔ اس سے قبل 1981کے اندر ایک پسنجر ٹرین بہار (سہرسا) میں بھاگمتی ندی میں گر گئی تھی ۔ اس میں 800 لوگوں کی ہلاکت کا اندازہ لگایا گیا تھا کیونکہ زیادہ تر لاشیں ندی میں بہہ گئی تھیں۔ اس کے بعد 1995 کے اندر اترپردیش کے فیروز آباد میں ایک حادثہ پیش آیا۔اس میں کالندی ایکسپریس اپنے آگے کھڑی پرشوتم ایکسپریس ٹکراگئی۔ اس وقت 358 لوگوں نے جان گنوائی جبکہ بالاسور میں تادمِ تحریر 288لوگوں کے موت کی خبر آچکی ہے۔ ان کے علاوہ زخمیوں میں سے کتنے لوگ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے یہ کوئی نہیں جانتا۔ اس طرح کے سانحات سے بچنے کی خاطر لازم ہے کہ اس حادثے کے اسباب کا پتہ لگاکران سے سبق سیکھا جائے ورنہ یہ منحوس سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
حالیہ حادثے کے بعد ملک کے باشندوں کو پتہ چلاکہ ملک میں ایک اشونی ویشنو نام کے وزیر ریلوے بھی پائے جاتے ہیں ۔ یہ انکشاف یوں ہوا کہ حادثے کے تقریباً ڈھائی گھنٹے بعد جب وزیر اعظم نے پہلا ٹویٹ کیا تو اس میں ان کا ذکر تھا۔ وہ اس قدر سعادت مند ہیں کہ مودی جی کا ردعمل سامنے آنے تک چپیّ سادھے رہے حالانکہ فی زمانہ ذرائع ابلاغ اس قدر تیز ہوگئے ہیں کہ چند منٹوں میں انہیں اس کی اطلاع مل گئی ہوگئی مگر اٹھارہ گھنٹے کام کرنے والا وزیر اعظم یا تو آرام فرما رہا تھا یا کسی ایسی میٹنگ میں مصروف تھا کہ جس کے آگے اتنابڑا حادثہ بھی غیر اہم ہوگیا۔ خیر ڈھائی گھنٹے کی مجرمانہ خاموشی کے بعد جب وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ انہوں نے وزیر ریلوے سے بات کرکے حالات سے واقفیت حاصل کی تو اس کے بیالیس منٹ بعد اشونی ویشنو نے ہلاک ہونے والوں کا معاوضہ اور زخمیوں کے لیے امداد کی رقومات کا اعلان کیا۔ اس کے بعد مزید تین گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد وزیر ریلوے کو خیال آیا کہ حادثے کی تحقیق ہونی چاہیے تو اعلیٰ سطحی تفتیش کا حکم دے دیا۔ اگلی صبح موقع واردات پر پہنچ گئے ۔ یہ سانحہ نہ ہوتا تو انہیں اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ہی نہیں ملتا کیونکہ فی الحال دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں 140 کروڑ بھیڑوں کو ہانکنے کے لیے ایک چرواہا کافی ہے۔
وزیر ریلوے کے لیے سب سے سہل اور بے ضرر کام نئی ریل گاڑی کو ہری جھنڈی دکھانا ہوسکتا ہے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی بیچارے اشونی ویشنو کو اس کا موقع بھی نہیں دیتے۔ جس شام یہ سانحہ پیش آیا اسی روز دوپہر میں ٹویٹ کرکے یہ بتایا گیا کہ اگلے دن ویڈیو لنک کے ذریعے گوا-ممبئی وندے بھارت ایکسپریس کو مودی جی ہری جھنڈی دکھانے والے تھے۔ اس ٹویٹ میں وزیر ریلوے اشونی ویشنو کا کوئی ذکر نہیں تھا حالانکہ وہ تقریب مڈگاؤں اسٹیشن پر منعقد کی گئی تھی اور وہاں موجود رہنے کا حکم وزیر موصوف کو دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم کے لیے اس روز گوا آنا ممکن نہیں تھا مگر کیا مجال کہ وہ وہاں موجود ہونے کے باوجود اشونی ویشنو ہری جھنڈی دکھانے کی جرأت کرتے۔ اس لیے دلی میں براجمان نریندر مودی کو ویڈیو لنک کے ذریعہ یہ کام سونپا گیا تاکہ نئی ریل کے ساتھ اخبارات میں جب یہ خبر چھپے تو ساتھ میں وزیر وزیراعظم کا ہنستا ہوا نورانی چہرا بھی ہو ۔ عوام کومحسوس کرایا جائے کہ گویا سمراٹ مودی نے اس ٹرین کی قیمت ٹیکس کی رقم سے نہیں بلکہ اپنی جیب خاص سے ادا کی ہے۔
اس حادثے کے بعد وزیرریلوے کو گوا کے بجائے اڈیشہ جانا پڑا۔ وزیر اعظم کو اعلیٰ سطحی نشست میں شرکت کرنی پڑی ۔ اس لیے مذکورہ تقریب منسوخ کردی گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے شوق سے پہلی ٹرین میں ٹکٹ مختص کرنے والوں کے ہاتھ مایوسی آئی۔ بظاہر اس معاملے کا حادثے سے براہِ راست تعلق نہیں لیکن کاموں کا ارتکاز اگر ایک فرد اور اس کے دفترتک محدود ہوجائے تو گاڑی کے پٹری سے اترنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔اس موقع پر بی جے پی کے سابق رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی نے نااہل اور چاپلوس لوگوں کو منتخب کرنے پر مودی کی تنقید کرنے کے بعد وزیر ریلوے کااستعفیٰ طلب کیا ۔ اس تبصرے پر اندھ بھکتوں کی فوج راشن پانی لے کر اپنے ہندوتو نواز دانشور پر چڑھ گئی اور اتنا پیٹا کہ رُلا دیا لیکن دوسرے دن جب وزیر ریلوے پریس کے سامنے آئے تو ان کے پاس نہ وجوہات کا علم تھا اور نہ حادثہ زدگان کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ ۔ وہ بیچارے پورا وقت مودی مودی کرتے رہے ۔ اس سے سبرامنیم سوامی کے الزام کی تصدیق ہوگئی۔ اس پر سوامی تو خیرپھولے نہیں سمارہے ہوں گے مگر بیچارہ سنگھ پریوار سوچ رہا ہوگا کہ ایسے اقتدار کے ہونے سے اس کا نہ ہونا بہتر تھا کم ازکم اس کی نااہلی کو سرِ بازارطشت ازبام نہیں ہوتی ۔
ذرائع ابلاغ کے اس تیز رفتار دور میں سرکار دربار نے قابلِ تشویش سرد مہری کا مظاہرہ کیا ۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ ان کی زبان تو خرگوش کی مانند بولیٹ ٹرین کی رفتار سے چلتی لیکن جب کام وقت آتا ہے تو یہ لوگ کچھوے کو بھی شرمندہ کردیتے ہیں۔آج کل عام مسافر جی پی ایس کی مدد سے چند سیکنڈ میں یہ جان لیتا ہے کہ کون سی گاڑی کہاں ہے؟ وقت پر ہے یا تاخیر سے چل رہی ہے۔ اس اندوہناک حادثے کی کرونولوجی دیکھیں تو قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ محض خبر کے آنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ اس وقت تک دوسری ٹرین کے پڑی سے اترنے کی اطلاع نہیں ملی تھی۔ مال گاڑی کے پٹری سے اترنے کی خبر تین گھنٹے بعد رات دس بجے آئی۔ابتداء میں صرف تیس لوگوں کی موت کا اندازہ تھا جو رات دیر گئے بڑھ کر دو سو پر پہنچ گیا ۔ اس کو دیکھ کے ایسا لگتا ہی نہیں کہ کل یگ ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے ’تریتا یُگ‘ میں یہ سب ہورہا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا بیان نہ صرف تاخیر سے آیا بلکہ اس میں حساسیت کا شدید فقدان تھا۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا ’’اڈیشہ میں ٹرین حادثے سے دکھی ہوں۔ دکھ کی اس گھڑی میں میرے خیالات سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ میں زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں۔ ریلوے کے وزیر اشونی ویشنو سے بات کرکے صورتحال کا جائزہ لیا۔ جائے حادثہ پر امدادی کام جاری ہے اور متاثرہ افراد کی ہر ممکن مدد کی جا رہی ہے۔‘‘ اس ٹویٹ کا اگر دیگر رہنماوں مثلاً صدر مملکت دروپدی مرمو ، ممتا بنرجی ، پرینکا گاندھی یا جے پی نڈا سے موازنہ کیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے ایک سر سری کا ٹویٹ کردیا جو تین لوگوں کی ہلاکت پر بھی کیا جاسکتا تھا ۔ وزیر اعظم سے پہلے بیان دینے کی جرأت تو خیر صدر مملکت بھی نہیں کرسکیں لیکن بعد میں انہوں نے جو بیان دیا اس میں دردمندی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے لکھا:’’بالاسور، اڈیشہ میں ایک بدقسمت ریل حادثےکے سبب جانوں کے ضیاع کی بابت جان کر گہرا غم ہے۔ میرا دل سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہے۔ میں امدادی کارروائیوں کی کامیابی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں‘‘۔
ممتا بنرجی نے بھی اسی طرح دکھ کا اظہار کرنے کے بعد لکھا کہ وہ اڈیشہ سرکار اور جنوب مشرق ریلوے کے ساتھ مل کر کام کررہی ہیں نیز 5-6 ممبران کی ایک ٹیم بھی موقع واردات پر بھیج رہی ہیں۔ پرینکا گاندھی نے ہلاک ہونےوالوں کے پسماندگان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ زخمیوں کی صحتیابی کے لیے دعا کرنے کے بعد کانگریسی کارکنان کو راحت کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دی ۔مودی سے اچھا بیان تو نڈا نے دیا۔ انہوں نے بھیانک حادثے سے انتہائی رنج و غم کے باعث دل کے اداس ہونے کی بات کہی۔ اس کے بعد انہوں نو سالہ تقریبات کو ایک دن کے لیے منسوخ کرنے کا اعلان کیا مگر کارکنان کو کچھ کرنے کے لیے نہیں کہا کیونکہ وہ لوگ خدمت خلق بھول چکے ہیں۔ ان کو تو صرف دنگا فساد میں مزا آتا ہے۔ بی جے پی کی ٹرول آرمی کے لیے حادثے کے جمعہ کو ہونا اسے مسلمانوں سے جوڑنے کے لیے کافی تھا ۔ اپنی مذموم کوشش میں وہ پاس کی ایک عمارت کو مسجد قرار دے کر اس میں اسلامی دہشت گردی کا زاویہ تلاش کرنے لگے لیکن بھلا ہو زبیر کے ’آلٹ نیوز‘ کا کہ انہوں نے سٹیلائٹ تصویر کو زوم کرکے بڑا کیا تو پتہ چلا وہ ’اسکون مندر‘ ہے ۔ اس طرح پھر سے یہ فرقہ پرست اوندھے منہ گر گئے۔ قدرت انہیں بار بار سبق دیتی ہے مگر یہ لوگ مان کر نہیں دیتے۔ ایک منی ٹرک میں لاشوں کو ایک دوسرے پر پھینکنے والی ویڈیو سے ان کی ذہنیت کا پتہ دیتی ہے۔ انسانی لاشوں کی ایسی بے حرمتی دنیا میں کہیں نہیں ہوئی ہوگی۔
اڈیشہ کے بالاسور ضلع میں بہانگا بازار اسٹیشن کے قریب ہونے والے حادثے میں کورومنڈیل ایکسپریس اور ایس ایم وی ٹی-ہاوڑہ سپر فاسٹ ایکسپریس کے 17 ڈبے پٹری سے اتر گئے تھے۔ آگے چل کر معلوم ہوا کہ ایک مال گاڑی اور ایکسپریس ٹرین کے تصادم کی وجہ سے واقعہ پیش آیا یعنی اس میں تین ٹرینیں ملوث تھیں ۔ تین ٹرینوں کے اس تصادم کو مختلف انداز میں سمجھا رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق جائے واردات پر ایک مال گاڑی آؤٹر لائن پر کھڑی تھی۔ اس دوران ہاوڑہ سے چنئی جانے والی کورومنڈیل ایکسپریس بہانگا بازار سے 300 میٹر پہلے پٹری سے اتری تو اس کا انجن مال گاڑی پر چڑھ گیا اور اس کی کئی بوگیاں تیسرے ٹریک پر گر گئیں۔اسی دوران ہاوڑہ-بنگلور ایکسپریس اس تیسرے ٹریک پر تیز رفتاری سے پہنچ کر کورومنڈیل ایکسپریس کے ڈبوں سے ٹکرا گئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی والے ہمیشہ ڈبل انجن سرکار کی بات کرتے ہیں لیکن یہاں تو ٹرپل انجن بلکہ ٹربل (مصیبت) انجن سرکار کا معاملہ ہوگیا۔ فی الحال منی پور اور اترپردیش وغیرہ میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں کےلوگوں پر اس طرح کی مصیبت آئے دن مسلط ہوتی رہتی ہے اور یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔
وزیر ریلوے اشونی کمار ویشنو نے بہاناگا ریلوے اسٹیشن پہنچ کر زخمی مسافروں کے بچاؤ اور علاج پرتوجہ مرکوز کردی ۔ اس دوران کسی نے مودی جی سے کہا ہوگا کہ ساری دنیا حادثے کی جانب متوجہ ہے۔ تمام ٹیلی ویژن کیمرے اس کی تفصیلات نشر کررہے ہیں لیکن وہ منظر سے غائب ہیں ۔ میڈیا کے پاس ان کے بے جان ٹویٹ کے سواکچھ نہیں ہے۔ نہ جانےکیوں ابتداء میں مودی جی وہاں جانا نہیں چاہتے یا حفاظتی تیاریاں مکمل نہیں ہوئی تھی لیکن کم ازکم ٹیلی ویژن پر خطاب تو کرہی سکتے تھے ۔ میڈیا کی رعایت کے لیے حادثے کے17؍ گھنٹے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں اعلی سطحی اجلاس کا انعقادکیا گیا تاکہ وہ حالات کا جائزہ لے سکیں ۔ اس طرح گودی میڈیا کو ایک کام مل گیا اور اس نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تصاویر نشر کرنا شروع کردی لیکن کوئی یہ نہیں بتا پارہاتھا اس نشست میں کیا فیصلے کیے گئے۔ اس میٹنگ سے بات نہیں بنی تو حادثےکے 21؍ گھنٹے بعد مودی جی نے جائے واردات کادورہ بھی کرڈالا ۔ اس طرح کم ازکم گودی میڈیا کو ناظرین کا دل بہلانےکے لیے کچھ ویڈیو کلپس مل گئیں۔
مرکزی وزیر ریل اشونی ویشنو نے دورے کے بعد اس حادثہ پر حیرانی اور فکر کا اظہار کرتے ہوئے اعلیٰ سطحی جانچ کے احکامات کا اعادہ کیا ۔ سرکاری رپورٹوں کی تیاری میں عام طور پر بہت تاخیر ہوتی ہے۔ اس دوران کچھ ماہرین نے اپنے تجربات کی بنیاد پر حادثے کے پیچھے کار فرما وجوہات پر اظہارخیال کیااور 5 ممکنہ اسباب کی نشاندہی کی ۔ سب سے پہلی وجہ درجہ حرارت بتائی گئی۔ ان کے مطابق درجہ حرارت 40 ڈگری کے پار چلے جا نے پر ریل کی پٹریاں زیادہ خطرناک ہوجاتی ہیں لیکن یہ تو عام سی بات ہے۔ اس کے سبب حادثات ہونے لگیں تو موسمِ گرما میں کوئی دن حادثے کے بغیر نہ گزرے۔ ویسے ریلوے کی تفتیشی رپورٹیں بھی اس کو اہم ترین سبب نہیں بتاتیں ۔ ماہرین کے نزدیک دوسری وجہ ٹیکنالوجی کی ناکامی ہو سکتی ہے۔ ریلوے کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے 2012 میں ’کوچ‘ (ڈھال) نامی تکنیک کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ دراصل پٹری میں استعمال کیا جانے والا ایک خود کارا ٓلہ ہے، جو ایک ٹرین کو دوسری سے طے شدہ دوری پر رکنے میں مدد کرتا ہے۔اس کی مدد سے اگر کوئی ٹرین یکساں پٹری پر آجائے تو ازخود بریکنگ سسٹم نافذ ہو جاتا ہے اور ٹرین رک جاتی ہے۔وزیر ریلوے نے انکشاف کیا کہ ہنوز اڈیشہ کے بالاسور میں ایسا نہیں ہو سکا ورنہ یہ حادثہ ٹل سکتا تھا۔
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ حادثے کی تیسری ممکنہ وجہ بروقت سگنل دینے میں ناکامی ہوسکتی ہے۔ نیشنل ریل ٹریک میں سگنلنگ کے اندر انسانی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ یہ خود بخود چلتا ہےلیکن سگنل آپریشن میں نقص یا سافٹ ویئر کی خرابی کے سبب یہ نظام فیل ہو سکتاہے یعنی دو ریل گاڑیاں ایک ہی لائن پر آسکتی ہیں۔ ایس صورتحال میں ٹرین کے اندر موجود ڈرائیور دوسری ٹرین کو دیکھ کر ایمرجنسی بریک لگاسکتا ہے، لیکن رفتار اگر بہت زیادہ ہوتو وہ ممکن نہیں ہوتا۔ ریل گاڑیوں کو دوران سفر پٹری بدلنی پڑتی ہے۔ فش پلیٹ دو پٹریوں کو جوڑتی ہے مگر یہ کھلی رہ جائے یا اس کا پینچ ڈھیلا ہوتو یہ حادثہ کی وجہ بن جاتی ہے۔حادثے کا ایک ممکنہ سبب دہشت گردی بھی ہوسکتا ہے۔ میڈیا کی مہربانی سے اس لفظ کے آتے ہی مسلمانوں کا خیال لوگوں کے ذہن میں آجاتا ہے مگر وہ سرخ راہداری کو بھول جاتے ہیں۔ دراصل اڈیشہ، مغربی بنگال، چھتیس گڑھ، آندھراپردیش اب بھی ماؤنوازوں سے متاثر ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی ٹریک کی فش پلیٹ کھول دے تو حادثہ ہوسکتا ہے ۔اس کی مثال گنیشوری ٹرین حادثہ ہے جس میں تقریباً 100 لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔
جرائم کا ریکارڈ رکھنے والا قومی کمیشن (این سی آر بی) ریلوے حادثات کے اعدادو شمار بھی شائع کرتا ہے۔ اس کے مطابق 2021 میں پچھلے سال کے مقابلہ 38.2 فیصد کا اضافہ ہو جو غیر معمولی ہے۔ اُس سال جملہ 17,993 حادثات میں سے سب سے زیادہ 3,488 وارداتیں مہاراشٹرمیں ہوئیں جو 19.4 فیصد بنتا ہے۔ مہاراشٹر کے بعد دوسرا نمبر مغربی بنگال کا ہے۔ کل ہند سطح پر ان حادثات میں ایک سال کے اندر 1,852 لوگ زخمی ہوئے مگر مرنے والوں کی تعداد16,431 تھی۔اکتوبر 2021 کے مہینے میں 1,729 لوگ جان بحق ہوئے۔ ریلوے کے محکمہ میں تحفظ کا شعبہ گینگ مین ، گارڈس، لیور مین، کیبن مین اور ڈرائیور پر انحصار کرتا ہے۔ اس عملہ کی تعداد میں کمی کا شکوہ ہمیشہ ہوتا ہے مگر اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ سوراجیہ جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق اس شعبے میں 2,500؍ اسامیاں خالی تھیں ۔کم افراد کی مدد سے زیادہ ریل گاڑیاں اگر تیز تر رفتار سے چلائی جائیں تو تھکے ماندے عملہ سے بھول چوک کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ وطن عزیز میں محنت کشوں کی کمی تو ہے نہیں کہ باہر سے لانا پڑا ۔ یہاں تو بیروزگاری کا سنگین مسئلہ ہے اس لیے اگر سرکار توجہ دے تو حادثات کو ٹالا جاسکتا ہے۔
ریل گاڑیوں کے اس اندوہناک حادثے پرابتداء میں اکثر جماعتوں نے سیاست سے پرہیز کیا مگر ترنمول کانگریس کے قومی جنرل سکریٹری ابھیشیک بنرجی اپنے غم وغصے پر قابو نہیں رکھ سکے۔ انہوں نے نریندر مرکزی حکومت پر تنقید کرتے ہوے کہا کہ مودی سرکار وندے بھارت ٹرینوں اور نو تعمیر شدہ ریلوے اسٹیشنوں کو اپنی حصولیابی قرار دےکر عوام کو گمراہ کرتی ہے۔ وہ سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے پروجیکٹوں کے افتتاح میں جلد بازی کرتی ہے۔ ایک طرف حکومت حزب اختلاف ، سپریم کورٹ کے ججوں، صحافیوں کی جاسوسی کرنے کے لیے پیگاسس جیسے سافٹ ویئر کا سہارا لیتی ہے، لیکن دوسری طرف ناخوشگوار واقعات کو روکنے کے لیے جی پی ایس اور اینٹی کولیشن ڈیوائسز کے نفاذ کو نظر انداز کرتی ہے۔ ان کے مطابق تکلیف دہ امر یہ ہے کہ غریب لوگوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، چاہے وہ نوٹ بندی ہو، جی ایس ٹی، جلد بازی میں لاک ڈاؤن، زراعت کے سخت قوانین ہوں یا ناکافی ریلوے کے حفاظتی اقدامات۔ ابھیشیک کا الزام ہے کہ اس دل دہلا دینے والے ٹرین حادثے میں جانی نقصان کے لیے بڑی حد تک وزیر اعظم ذمہ دار ہیں لیکن مودی جی نے اپنا پلہ جھاڑتے ہو اڈیشہ کا دورہ کرنے کے بعد اعلان کیا کہ تفتیش ہورہی اس کے بعد قصوروار کو بخشا نہیں جائے گا۔ تاہم اس سرکار کے لیے کسی اعلیٰ افسر کو پکڑ کر سزا دینا کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت ایک برج بھوش شرن سنگھ کو گرفتار کرنے سے قاصر ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 آج کل عام مسافر جی پی ایس کی مدد سے چند سیکنڈ میں یہ جان لیتا ہے کہ کون سی گاڑی کہاں ہے؟ وقت پر ہے یا تاخیر سے چل رہی ہے۔ اس اندوہناک حادثے کی کرونولوجی دیکھیں تو قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ محض خبر کے آنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ اس وقت تک دوسری ٹرین کے پٹری سے اترنے کی اطلاع نہیں ملی تھی۔ مال گاڑی کے پٹری سے اترنے کی خبر تین گھنٹے بعد رات دس بجے آئی۔ابتداء میں صرف تیس لوگوں کی موت کا اندازہ تھا جو رات دیر گئے بڑھ کر دو سو پر پہنچ گیا ۔ اس کو دیکھ کے ایسا لگتا ہی نہیں کہ کل یگ ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے ’تریتا یُگ‘ میں یہ سب ہورہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 جون تا 17 جون 2023