نپور شرما: سپریم کورٹ نے تمام ایف آئی آرز یکجا کرکے انھیں دہلی پولیس کو منتقل کیا
نئی دہلی، اگست 10: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز بھارتیہ جنتا پارٹی کی معطل ترجمان نپور شرما کے خلاف ان کے پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصروں کے لیے دائر پہلی اطلاعاتی رپورٹوں کو یکجا کر دیا۔
جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی پاردی والا پر مشتمل بنچ نے حکم دیا کہ شرما کے خلاف درج مقدمات کو دہلی منتقل کیا جائے۔
بنچ نے کہا ’’ہم ہدایت دیتے ہیں کہ تمام ایف آئی آرز کو تحقیقات کے مقصد کے لیے دہلی پولیس کو منتقل کیا جائے اور ایک جگہ جمع کیا جائے۔ دہلی پولیس کی IFSO [انٹیلی جنس فیوژن اینڈ اسٹریٹجک آپریشنز] ایک خصوصی ایجنسی معلوم ہوتی ہے اور اگر اس کے ذریعہ تحقیقات کی جائیں تو بہتر ہوگا۔‘‘
عدالت نے اس عبوری تحفظ کو بھی بڑھا دیا جو اس نے شرما کو 19 جولائی کو تحقیقات مکمل ہونے تک دیا تھا۔
پیغمبر اسلام کے بارے میں شرما کے تبصرے، جو 26 مئی کو ٹائمز ناؤ ٹیلی ویژن چینل پر ایک مباحثے کے دوران کیے گئے تھے، جون میں ملک کے کئی حصوں میں تشدد اور بدامنی کا باعث بنے۔ ہندوستان کو کئی خلیجی ممالک کی طرف سے سفارتی غصے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
بی جے پی کی معطل رہنما کے خلاف مہاراشٹر میں پانچ، مغربی بنگال میں دو اور دہلی اور تلنگانہ میں ایک ایک ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔
اس نے مطالبہ کیا تھا کہ یا تو اس کے خلاف مختلف ریاستوں میں درج پہلی اطلاعاتی رپورٹس کو رد کر دیا جائے، یا انھیں ایک ساتھ جوڑ کر دہلی منتقل کر دیا جائے۔
بدھ کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ اس کا حکم ان ایف آئی آرز یا شکایتوں پر بھی نافذ ہوگا جو مستقبل میں شرما کے خلاف ان کے تبصروں کے سلسلے میں درج کی جا سکتی ہیں۔
بنچ نے شرما کو اپنے خلاف درج ایف آئی آرذ کو منسوخ کرنے کی درخواست کے سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی آزادی بھی دی۔
سینئر ایڈوکیٹ میناکا گروسوامی نے مغربی بنگال حکومت کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ شرما کو اس کیس میں دائرۂ اختیار منتخب کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اس نے یہ بھی نشان دہی کی کہ شرما کے خلاف پہلی ایف آئی آر ممبئی میں درج کی گئی تھی۔
گروسوامی نے کہا ’’پہلی ایف آئی آر مہاراشٹر میں درج کی گئی تھی اور وہ ریاست جہاں سب سے زیادہ اثر محسوس کیا گیا، مغربی بنگال ہے۔ دہلی اس فہرست میں نہیں ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میرا دوست [شرما کا وکیل] دہلی کی طرف کیوں زور دے رہا ہے؟‘‘
انھوں نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ شرما کے خلاف مقدمات کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے۔
گروسوامی نے بنچ سے کہا ’’اس مسئلے کی نوعیت پر غور کریں جس نے ہماری جمہوریت پر اثر ڈالا ہے۔ کچھ ریاستیں درخواست گزار کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس کے بیانات نے قانون کی حکمرانی کو داغدار کیا ہے اور ماحول کو خراب کیا ہے۔‘‘
جسٹس کانت نے جواب دیا کہ عدالت شرما کے خلاف دھمکیوں کی وجہ سے مداخلت کرنے پر مجبور ہوئی۔ انھوں نے گروسوامی کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کی تجویز کو بھی یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ اس سے غیر ضروری دباؤ پیدا ہوگا۔
19 جولائی کو شرما کو سپریم کورٹ نے ان کے خلاف دائر مقدمات میں گرفتاری سے عبوری تحفظ فراہم کیا تھا، جب اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی جان کو واقعی خطرہ ہے۔
اس سے پہلے یکم جولائی کو جسٹس کانت کی سربراہی والی بنچ نے شرما پر سخت تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ اسے اپنے تبصروں کے لیے ملک سے معافی مانگنی چاہیے تھی۔
ججوں نے زبانی طور پر یہ بھی کہا تھا کہ شرما ملک میں کشیدگی کے لیے اکیلے ہی ذمہ دار ہے اور یہ کہ ایک قومی سیاسی پارٹی کا ترجمان ہونے کے ناطے کسی کو بھی ’’ایسی پریشان کن باتیں‘‘ کہنے کی آزادی نہیں ملتی۔
ججوں نے شرما سے ہائی کورٹس سے رجوع کرنے کو کہتے ہوئے کہا تھا ’’یہ بالکل بھی مذہبی لوگ نہیں ہیں، یہ اشتعال دلانے کے لیے بیان دیتے ہیں۔‘‘