مرکز کا کہنا ہے کہ بغاوت کے قانون کو دوبارہ جانچنے کی ضرورت نہیں
نئی دہلی، مئی 8: مرکز نے ہفتہ کے روز ہندوستان میں بغاوت کے قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اسے دوبارہ جانچنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں ایک تحریری جواب میں مرکز نے کہا کہ تین ججوں کی بنچ تعزیرات ہند کی دفعہ 124A کی درستگی کا جائزہ نہیں لے سکتی، جو کہ غداری سے متعلق ہے، کیوں کہ ایک آئینی بنچ نے پہلے ہی 1962 کے فیصلے میں اسے درست قرار دیا ہے۔
دفعہ 124A کہتی ہے کہ جو کوئی بھی ’’ہندوستان میں قانون کے ذریعہ قائم کی گئی حکومت کے تئیں عدم اطمینان پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے‘‘ اسے بغاوت کے جرم کا مرتکب قرار دیا جاسکتا ہے۔‘‘
تاہم صحافیوں، کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ چوں کہ اس قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے اس لیے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
مرکز کی نمائندگی کرنے والے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا ’’قانون کے غلط استعمال کی مثالیں کبھی بھی آئینی بنچ کے پابند فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا جواز نہیں بنیں گی۔‘‘
چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا اور جسٹس سوریہ کانت اور ہما کوہلی پر مشتمل سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بنچ منگل کو نوآبادیاتی دور کے اس قانون کی درستگی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرے گی، جب یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ کیدار ناتھ سنگھ کیس میں 1962 کے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کے لیے درخواستوں کو بڑی بنچ کے پاس بھیجا جانا چاہیے یا نہیں۔
1962 کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ نے کہا تھا کہ عوامی اقدامات پر تنقید یا حکومتی کارروائی پر تبصرے اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کے تحت آتے ہیں جب تک کہ تبصرے ’’لوگوں کو قانون کے ذریعے قائم کی گئی حکومت کے خلاف تشدد کے لیے نہیں اکساتے۔‘‘
دی ہندو کی خبر کے مطابق اس فیصلے نے دفعہ 124A کو تعزیرات ہند کا حصہ رہنے کی بھی اجازت دی تھی۔
ہفتہ کو مرکز نے دلیل دی کہ 1962 کا فیصلہ پابند ہے۔
سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا ’’اسے [1962 کے فیصلے] کو ایک پابند نظیر کے طور پر سمجھا جانا چاہیے جس میں کسی حوالہ کی ضرورت نہیں ہے۔ تقریبا چھ دہائیوں سے آئینی بنچ کے ذریعہ اعلان کردہ طویل عرصے سے طے شدہ قانون پر شک کرنے کے بجائے اس کا علاج کیس ٹو کیس کی بنیاد پر بدسلوکی کو روکنے میں ہے۔‘‘
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق مہتا نے اس الزام کا جواب دیا کہ یہ قانون آزاد ہندوستان میں اپنی مطابقت کھو چکا ہے۔
مہتا نے کہا ’’یہ قانون میں ایک طے شدہ پوزیشن ہے کہ ایک فیصلہ جو وقت کی کسوٹی کا مقابلہ کرتا ہے اور میکانکی طور پر نہیں بلکہ بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اس پر عمل کیا جاتا ہے، اس پر آسانی سے شک نہیں کیا جا سکتا۔‘‘