ہندوستان میں اقلیتوں کو کوئی خطرہ نہیں، ہمیں ساتھ رہنا ہوگا: موہن بھاگوت
نئی دہلی، اکتوبر 5: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے بدھ کے روز کہا کہ کچھ لوگ خوف پھیلا نے کا کام کر رہے ہیں، جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوؤں کی وجہ سے ہندوستان میں اقلیتوں کو خطرہ ہے۔
بھاگوت نے ناگپور میں اپنی سالانہ وجے دشمی کی تقریر کے دوران کہا ’’یہ نہ تو سنگھ کی فطرت ہے اور نہ ہی ہندوؤں کی۔ سنگھ بھائی چارے، دوستی اور امن کے ساتھ کھڑے ہونے کا عزم کرتا ہے۔‘‘
بھاگوت نے مزید کہا کہ ہندو راشٹر یا ہندو قوم کے تصور کو اب سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
بھاگوت نے کہا ’’بہت سے لوگ اس تصور سے متفق ہیں، لیکن وہ لفظ ‘ہندو’ کے مخالف ہیں اور وہ دوسرے الفاظ استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بس تصور کی وضاحت کے لیے ہم اپنے لیے لفظ ہندو پر زور دیتے رہیں گے۔‘‘
آر ایس ایس سربراہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جب سماج کو تقسیم کرنے کی کوششیں جاری ہیں، تو ایسے میں ’’ہمیں ساتھ رہنا ہوگا‘‘۔
بھاگوت نے دعویٰ کیا کہ مسلم کمیونٹی تک ان کی تنظیم کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی گئی ہیں اور وہ صرف ’’دہشت گرد قوتوں‘‘ سے ملک کا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔
بھاگوت نے کہا کہ ان کی تنظیم دوسروں کو فتح نہیں کرنا چاہتی۔
بھاگوت نے مزید کہا ’’ہم صرف فتح حاصل نہیں کرنا چاہتے اور اس لیے ہم طاقت چاہتے ہیں…لیکن لوگ ڈرتے ہیں، ‘ارے سنگھ والے ماریں گے‘ ، ’ہندو تنظیم سب کو باہر نکال دے گی‘۔ یہ غلط خبر پھیلائی گئی ہیں۔ اسی خوف کی وجہ سے پچھلے کچھ سالوں میں اقلیتی برادری کے کچھ لوگ ہم سے ملتے رہے ہیں۔ ہم بھی دوسری کمیونٹی کے لوگوں سے مل رہے ہیں۔‘‘
پچھلے مہینے بھاگوت نے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، ریٹائرڈ فوجی افسر ضمیر الدین شاہ، راشٹریہ لوک دل لیڈر شاہد صدیقی اور تاجر سعید شیروانی سے ملاقات کی تھی۔
اپنی بدھ کی تقریر میں بھاگوت نے ادے پور اور امراوتی میں ان دو آدمیوں کے قتل پر بھی بات کی، جنھوں نے مبینہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی معطل ترجمان نپور شرما کے پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصروں کی حمایت کی تھی۔
ان واقعات کو ’’گھناؤنے جرائم‘‘ قرار دیتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ اس سے پورا معاشرہ صدمے اور غصے میں ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’ادے پور واقعہ کے بعد مسلمانوں کے چند سرکردہ افراد نے اس واقعہ کے خلاف احتجاج کیا۔ اس قسم کے احتجاج کو مسلم معاشرے میں الگ تھلگ نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ان کے بڑے طبقے کی فطرت بن جانا چاہیے۔‘‘
بھاگوت نے کہا کہ قتل کے لیے پوری کمیونٹی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور ہر کسی کو ایسے واقعات کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اپنی تقریر میں بھاگوت نے یہ بھی کہا کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے ایک جامع پالیسی ہونی چاہیے اور اس کا اطلاق تمام برادریوں پر یکساں طور پر ہونا چاہیے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق بھاگوت نے کہا ’’جب 50 سال پہلے [آبادی] میں عدم توازن تھا تو ہمیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہوا ہے۔ آج کے دور میں مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اور کوسوو جیسے نئے ممالک بنائے گئے۔ لہٰذا جب آبادی میں عدم توازن ہوتا ہے، نئے ممالک بنتے ہیں۔ ملک پہلے بھی تقسیم ہو چکے ہیں۔‘‘
بھاگوت نے کہا کہ محدود وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے آبادی کی پالیسی بنائی جانی چاہیے۔ ’’ہندوستان میں 57 کروڑ نوجوانوں کی آبادی کے ساتھ، ہم اگلے 30 سالوں تک ایک نوجوان قوم رہیں گے۔ تاہم 50 سال بعد ہندوستان کا کیا ہوگا؟ کیا ہمارے پاس آبادی کو کھانا کھلانے کے لیے کافی کھانا ہوگا؟‘‘
آر ایس ایس سربراہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خواتین کو مساوی حقوق اور مواقع فراہم کیے بغیر ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا۔ بھاگوت نے کہا کہ ’’ہمیں خواتین کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے اور انھیں اپنے فیصلے خود کرنے کی آزادی کے ساتھ بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘
مشہور کوہ پیما سنتوش یادو بدھ کے روز سالانہ تقریب میں مہمان خصوصی تھیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب آر ایس ایس کی تقریب میں ایک خاتون مہمان خصوصی نے شرکت کی۔
بھاگوت نے خواتین کو تمام جگہوں پر مساوی حقوق دینے کی وکالت کی۔