نتیش کمار: کمنڈل کے خلاف ٹھنڈی آنچ پر منڈل کی ہانڈی

علاقائی جماعتوں کا آمرانہ رویہ مسائل کو حل نہیں کرتا بلکہ جنم دیتا ہے

ڈاکٹر سلیم خان

نائیڈو اور نتیش کی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں!
منڈل اور کمنڈل کی لڑائی میں ہی اب ملک کی سیاست کا مستقبل پنہاں
نتیش کمار اور شرد پوار کا شمار ملک کے گھاگ سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے ہر اقدام سے قبل سوچ سمجھ کر پیش بندی کرتے ہیں۔ ان کے بڑے فیصلوں سے قبل جو چھوٹے موٹے اقدامات کیے جاتے ہیں اس سے سیاسی گلیاروں میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ پچھلے دنوں شرد پوار نے کیرالا کے رہنے والے پی سی چاکو کو قومی کارگزار صدر نامزد کرکے سب کو چونکا دیا کیونکہ این سی پی بنیادی طور پر مہاراشٹر کی علاقائی جماعت ہے، اسی طرح نتیش کمار نے اچانک جے ڈی یو رہنما سنجے جھا کو پارٹی کا قومی ورکنگ صدر مقرر کر کے یہی کیابکیونکہ صوبائی انتخابات بہت دور نہیں ہیں۔ دہلی میں جس نشست میں یہ بڑا فیصلہ کیا گیا اس میں نتیش کمار سمیت کئی سینئر لیڈر موجود تھے۔ قومی مجلسِ عاملہ کی نشست میں جنتا دل یونائیٹڈ نے ایک سیاسی قرارداد منظور کرکے نتیش کمار کو لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی جیت پر مبارکباد دی نیز، وزیر اعظم نریندر مودی کو این ڈی اے کی جیت پر تہنیت پیش کی مگر بی جے پی کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔
مبارک سلامت کی اس منافقت کے بعد نتیش کمار کی پارٹی نے دو مطالبات کر کے موجودہ حکومت کےساتھ تنازعات کی داغ بیل ڈال دی۔ ان میں سے پہلا مطالبہ بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ یا مخصوص پیکیج دینے کا ہے۔ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے والی بی جے پی اگر اپنی مرکزی حکومت کو بچانے کے لیے پہلے بہار اور پھر آندھرا پردیش کو بھی خصوصی درجہ دے دیتی ہے تو جموں کے اندر بی جے پی کے رائے دہندگان کیا سوچیں گے اور لداخ کا بودھ سماج اسے کیوں ووٹ دے گا؟ وادی کشمیر کے مسلمان تو بی جے پی کے الٹا لٹک جانے پر بھی ووٹ نہیں دیں گے اسی لیے اس نے وہاں سے امیدوار کھڑا کرنے کی بھی جرأت نہیں کی تھی۔ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کروانے کے بعد اس لحاظ سے ریزرویشن کی توسیع کرنا جے ڈی یو کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بی جے پی کے اندر بھی چونکہ اس کی کھلے عام مخالفت کی ہمت نہیں ہے اس لیے اس نے پٹنہ ہائی کورٹ کے چور دروازے سے اسے مسترد کروادیا۔ آر جے ڈی نے اس فیصلے کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کرنے کا اعلان کرکے نتیش کے لیے سنگین مسائل پیدا کر دیے۔ اس معاملے میں نتیش کمار کی کمزوری آر جے ڈی کے وارے نیارے کردیں گے۔
ریزرویشن کے دائرۂ کار بڑھانا بی جے پی کے لیے بہت بڑا دھرم سنکٹ ہے۔ وہ اگر اس کی حمایت کرے تو اس کے برہمن بنیا ووٹرس ناراض ہو جاتے ہیں اور مخالفت کرے نتیش کمار، چراغ پاسوان اور جتن رام مانجھی کا سیاسی وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس لیے جے ڈی یو نے اسے نویں شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ این ڈی اے کے اندر پڑنے والی اس دراڑ کا فائدہ اٹھا کر کانگریس نے اس کے اگلے ہی دن پارلیمنٹ میں پچاس فیصد کی حد سے زیادہ ریزرویشن فراہم کرنے کے لیے ایک قانون بنانے کا مطالبہ کردیا۔ اب یہ صورتحال ہے کہ بی جے پی کی خاموشی کے باوجود شیڈول کاسٹ (ایس سی) درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے لیے ریزرویشن کو پچاس فیصد سے بڑھا کر پینسٹھ فیصد کرنے کے بہاری فیصلے نے کئی سیاسی جماعتوں نے ہلچل شروع کر دی۔ بی جے پی کے کمنڈل میں ویسے تو پہلے ہی کئی سوراخ ہوچکے ہیں اب دیکھنا ہے کہ منڈل کی اس دھواں دھار بارش میں اس کا کیا حال ہوگا؟
ریزرویشن پر این ڈی اے میں شامل اتر پردیش کے اپنا دل ایس کی رہنما اور مرکزی وزیر انوپریا پٹیل نے یوگی حکومت کو خط لکھ کر ایک نیا بکھیڑا کھڑا کردیا۔ انوپریہ پٹیل کے سماج وادی پارٹی ایم پی لال جی ورما کی حمایت سے بی جے پی خیمے میں ہنگامہ ہوگیا ۔ لال جی ورما نے اہل نہ ہونے کی بنیاد پر محفوظ عہدوں کو ختم کرنے پر اعتراض کیا تھا۔ یو پی کی امبیڈکر نگر لوک سبھا سیٹ سے ایس پی ایم پی نے سرکاری نوکری میں تحفظ پر ایک پوسٹ لکھ کر ایسا طوفان مچایا کہ این ڈی اے اتحاد سے بھی انہیں حمایت ملنے لگی۔ لال جی ورما نے لکھا "ایس جی پی جی آئی لکھنؤ میں نیورولوجی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر کی دو سیٹیں تھیں جن میں ایک سیٹ یو آر (UN RESERVED) کے لیے تھی اور ایک سیٹ او بی سی کے لیے تھی۔ ڈاکٹر سرویش ورما اس کے لیے واحد امیدوار تھے۔ سرویش ورما نے اپنی پہلی کوشش میں ہی ایم بی بی ایس کوالیفائی کیا تھا اور اس کے بعد انہیں ڈی ایم نیورولوجی کے امتحان سے یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ وہ اس عہدے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ لال جی ورما نے پوچھا کہ بڑے اداروں میں ایسا کیوں ہوتا ہے جہاں او بی سی سیٹوں پر او بی سی امیدواروں کا داخلہ نہیں کرکے سیٹیں خالی چھوڑ دی جاتی ہیں؟ کیا او بی سی ہونا ہی ڈاکٹر سرویش کا جرم ہے؟‘‘لال جی ورما کی تائید میں مرکزی حکومت کی وزیر انوپریہ پٹیل نے یو پی حکومت کو لکھا کہ او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی کے عہدوں کے لیے ریزرویشن کو اس بنیاد پر ختم نہیں کیا جانا چاہیے کہ ان عہدوں کے لیے امیدوار موزوں نہیں ہیں بلکہ اس عہدے کو اس وقت تک خالی رکھا جائے جب تک کہ اس زمرے کا کوئی موزوں امیدوار نہ مل جائے۔ قومی انتخابات کے دوران انڈیا اتحاد نے ریزرویشن کو ایک بڑا مسئلہ بنا کر بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کی مگر بی جے پی اس کو مسلم ریزرویشن کا نام دے کر پسماندہ سماج کو ڈراتی رہی کہ وہ لوگ تمہارا حق چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ان کے جیتے جی مذہبی بنیاد پر ریزرویشن ناممکن ہے لیکن اب ان کو جھک کر ایسا کرنا پڑے گا ورنہ سرکار گر جائے گی اور وہ جھولا اٹھا کر جانے کے لیے مجبور کردیے جائیں گے۔
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے حال ہی میں بی جے پی پر ملک میں پسماندہ ریزرویشن کے خلاف کام کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی ریزرویشن کی بنیادی روح کے خلاف چھیڑ چھاڑ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی والے ریزرویشن کے بنیادی اصولوں کے خلاف مسلسل کام کر رہے ہیں۔ اکھلیش یادو نے یہ بھی کہا کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ باشعور شہری ان کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں۔انہوں نے آئین کو بچانے کے لیے ووٹ دینے والوں کو یقین دلایا کہ اگر آئین پر حملہ ہوا تو سماج وادی پارٹی عوام کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں ہم سب کا مطالبہ تھا کہ مردم شماری کرائی جائے، مردم شماری کے مطابق سب کو حقوق اور عزت ملنی چاہیے، آئین کی پاسداری کا یہی تقاضا ہے۔ یہ بات 49 کے ایمرجنسی کے دوران آئین کی برخواستگی پر ٹسوے بہا کر نہیں چھپائی جاسکتی ۔
کانگریس نے بھی بڑی مہارت سے اس اختلاف کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ایکس پر پوسٹ میں لکھا کہ لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران اپوزیشن پارٹیاں کہتی رہی ہیں کہ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے لیے ریزرویشن سے متعلق سبھی ریاستی قوانین کو نویں شیڈیول میں شامل کیا جانا چاہیے۔ رمیش نے جے ڈی یو کے ذریعہ 29 جون کی جانب سے کیے جانے والے اس مطالبہ کا خیر مقدم کیا اور ریاست اور مرکز دونوں میں اس کی اتحادی جماعتوں کی توجہ اس سنگین معاملے میں بی جے پی کی مکمل خاموشی کی جانب مبذول کروائی۔سابق مرکزی وزیر نے آگے بڑھ کر کہا کہ ویسے تو ریزرویشن قوانین کو 50 فیصد کی حد سے باہر نویں شیڈول میں لانا بھی کوئی مستقل حل نہیں ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کے 2007 میں ایسے قوانین کو عدالتی نظرثانی کا تابع کرچکا ہے یعنی جو ہائی کورٹ میں ہوا وہی اوپر بھی ہو سکتا ہے۔
جئے رام رمیش کے مطابق اس مقصد کے لیے آئینی ترمیمی قانون کی ضرورت ہے۔یعنی چار سو پار کرنے کے بعد ریزرویشن کو ختم کرنے والوں کو اب اس کی حد بڑھانی ہوگی ورنہ سرکار گر جائے گی کیونکہ اس مطالبے کی حمایت بی جے پی کے سارے حامیوں کی مجبوری ہے۔کانگریس کے اس موقف کو سیاسی ابن الوقتی کے خانے میں ڈالنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اگست 2021 میں جب کانگریس اور ترنمول کانگریس نے پیگاسس مسئلے پر بحث کرنے کی تجویز پیش کی تو اسپیکر نے اسے مسترد کرکے دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) برادریوں کی فہرست بنانے کا اختیار ریاستوں کو دینے سے متعلق آئین کے 127 ویں ترمیمی بل میں سبھی کو الجھانے کی کوشش کی۔ اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپوزیشن نے الزام لگایا تھا کہ عوام کے دباؤ میں اس بل کو دو سال پہلے کی گئی غلطیوں کو سدھارنے کے لیے مجبوراً لانا پڑا ہے۔ کانگریس نے اسی وقت سرکار سے ریزرویشن کے لیے 50 فیصد کی حد کو ہٹانے کے لیے بل لانے کا مطالبہ کیا تھا ۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی عمر تقریباً 75 سال ہوچکی ہے اور ان کی جسمانی صحت کے ساتھ دماغی توازن بھی ڈانواں ڈول ہے۔ اس لیے ان کے بعد جے ڈی یو کا لیڈر کون ہوگا اس سوال پر پارٹی کو تشویش ہے۔ ایک زمانے میں انہوں نے آر سی پی سنگھ کو پارٹی کی مکمل کمان سونپی تھی لیکن اختلافات کی وجہ سے انہیں الگ کر دیا گیا تھا۔ رام چندر پرساد سنگھ جے ڈی یو کے قومی صدر بنے مگران کی اپنی مرضی سے مودی کابینہ میں وزیر بن جانے کے سبب نتیش کمار ناراض ہوگئے اور انہیں صدر کے عہدے سے ہٹوا دیا۔ آگے چل کر انہیں ایوانِ بالا میں بھی نہیں بھیجا گیا جس کی وجہ سے وہ وزارتی عہدہ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 2015 کے اسمبلی انتخابات میں پرشانت کشور سے نتیش کمار اتنے خوش تھے کہ انہیں پارٹی کا نائب صدر بنا کر بہار حکومت میں وزیر مملکت کا درجہ بھی دے دیا، لیکن جب پرشانت کشور نے خود کو کنگ میکر کہ کر نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنانے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی تو انہیں بھی ٹھکانے لگا دیا گیا۔علاقائی جماعتیں چونکہ ایک فرد کی ذاتی ملکیت ہوتی ہیں اس لیے ان کے سارے فیصلے اسی کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ ایسے میں نتیش کمار کے علاوہ کسی اور کی مجال نہیں تھی کہ وہ سنجے جھا کو کارگزار صدر بنانے کا اعلان کرے۔
ویسے آج کل قومی جماعتوں کا بھی حال اچھا نہیں ہے۔ کانگریس میں وہی ہوتا ہے جو سونیا یا راہل گاندھی چاہتے ہیں نیز، بی جے پی کے اندر بھی مودی و شاہ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہوتا۔ اس طرح ملک میں سیاسی جماعتوں کی نجکاری مکمل ہوچکی ہے۔ جے ڈی یو کی مجلس عاملہ میں تنظیم سے متعلق قرارداد میں کہا گیا کہ نتیش کمار کی قیادت میں جے ڈی یو نے 2025 میں بہار اسمبلی انتخابات لڑنے کا عہد کیا ہے اور جھارکھنڈ انتخابات میں بھی مضبوطی سے لڑنے کا اعلان کیا۔ ایک تجویز میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں پارٹی وزراء سے کارکنوں کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنے کی تلقین کی گئی کیونکہ سرکار دربار میں جاکر اکثر لوگ اپنے رائے دہندگان کو بھول جاتے ہیں۔
جنتا دل یونائیٹڈ کے رکن پارلیمنٹ سنجے جھا نے قومی کارگزار صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نتیش کمار کی تعریف کرنے کے بعد شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ ہمارے قومی صدر سی ایم نتیش کمار نے انہیں بہت بڑی ذمہ داری دی ہے۔ وہ بولے بہار کے حالیہ الیکشن میں این ڈی اے نے 40 میں سے 30 سیٹیں جیتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے 243 اسمبلی سیٹوں میں سے 177 پر برتری حاصل ہوئی ہے۔ پچھلے سال دسمبر کے اواخر میں لالن سنگھ کو ہٹا کر نتیش کمار خود جے ڈی یو کے قومی صدر بنے تو انہوں نے انڈیا محاذ سے نکل این ڈی اے میں شمولیت اختیار کی۔ اب اسمبلی انتخابات سے قبل سنجے جھا کو ذمہ داری سونپ کر وہ کیا کرنے والے ہیں کوئی نہیں جانتا۔ آیا رام گیا رام کی اصطلاح یوں تو ہریانہ میں ایجاد ہوئی مگر اس کو بام عروج پر پہنچانے کا کام نتیش کمار نے کیا۔ امسال جنوری میں موصوف نے نویں بار بہار کے وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔انہیں اپنے مذکورہ کارنامہ کا ایسا احساس تھا کہ ان کے سمیت 9 لوگوں نے عہدہ اور رازداری کا حلف لیا تھا ۔اس لیے بعید نہیں کہ عنقریب جب دسویں بار یہ رسم ادا کی جائے تو اپنے نو رتنوں کے ساتھ وہ دس نمبری بن جائیں گے۔
اس سے قبل نتیش کمار اپنی سرکار و دربار کی چوبیس سالہ مدت کار میں آٹھ بار بہار کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہو چکے تھے۔ بہار کا وزیر اعلیٰ بننے سے قبل وہ اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت مرکزی حکومت میں وزیر تھے۔ مودی 3.0 میں توقع تھی کہ وہ مرکزی حکومت میں کوئی اہم وزارت سنبھالتے مگر گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر مودی نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا۔ مرکزی حکومت میں چھوٹے موٹے عہدے پر فائز ہونے پر بہار جیسی اہم ریاست کا وزیر اعلیٰ بنے رہنے کو نتیش کمار نے ترجیح دی ہے۔ آئندہ سال صوبائی انتخاب میں اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنے کے لیے ان کا پٹنہ میں رہنا زیادہ مفید ہے۔ نتیش کمار کے علاوہ چندرا بابو نائیڈو کو بھی مرکز میں خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ واجپائی کے زمانے میں چونکہ ٹی ڈی پی کا اسپیکر تھا اس لیے یہ توقع تھی اس بار یہ عہدہ ان کے پاس جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا ۔
نتیش اور نائیڈو کے عدم اصرار سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دل سے اس حکومت کے ساتھ نہیں ہیں اور عارضی قیام کے دوران عہدے کی خاطر لڑنے بھڑنے کے بجائے صحیح وقت کے منتظر ہیں۔ نتیش کے لیے سرکار گرانے کا بہترین موقع پسماندہ ریزرویشن اور نائیڈو کے لیے مسلم ریزرویشن کا ہوگا۔ اس بیچ کانگریس کو نائب اسپیکر کے عہدے سے محروم رکھنے کے لیے بی جے پی نے راجناتھ سنگھ سے ممتا بنرجی کو فون کروایا کہ وہ غیر کانگریس نائب اسپیکر بنانے کے لیے تیار ہے۔ اس پر ممتا بنرجی نے ایودھیا سے منتخب ہونے والے اودھیش سنگھ پاسی کا نام پیش کرکے نہلے پر ایسا دہلا مارا کہ راجناتھ سنگھ بالکل اناتھ ہوگئے۔ اس لیے کہ کمنڈل کے مقابلے منڈل کی فتح کے سب سے بڑی علامت اودھیش سنگھ ہیں اور ان کا نائب اسپیکر بننا بی جے پی کو ہمیشہ ایودھیا کی ناکامی یاد دلاتا رہے گا۔ کمنڈل اور منڈل کی یہ لڑائی ہی ملک کی سیاست کا مستقبل طے کرے گی۔

 

***

 نتیش اور نائیڈو کے عدم اصرار سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دل سے اس حکومت کے ساتھ نہیں ہیں اور عارضی قیام کے دوران عہدے کی خاطر لڑنے بھڑنے کے بجائے صحیح وقت کے منتظر ہیں ۔ نتیش کے لیے سرکار گرانے کا بہترین موقع پسماندہ ریزرویشن اور نائیڈو کی خاطر مسلم ریزرویشن کاہوگا۔ اس بیچ کانگریس کو نائب اسپیکر کے عہدے سے محروم رکھنے کی خاطر بی جے پی نے راجناتھ سنگھ سے ممتا بنرجی کو فون کروا کر کہا کہ وہ غیر کانگریس نائب اسپیکر بنانے کے لیے تیار ہے۔ اس پر ممتا بنرجی نے ایودھیا سے منتخب ہونے والے اودھیش سنگھ پاسی کا نام پیش کرکے نہلے پر ایسا دہلا مارا کہ راجناتھ سنگھ بالکل اناتھ ہوگئے ۔ اس لیے کہ کمنڈل کے مقابلے منڈل کی فتح کے سب سے بڑی علامت اودھیش سنگھ ہیں اور ان کا نائب اسپیکر بننا بی جے پی کو ہمیشہ ایودھیا کی ناکامی یاد دلاتا رہے گا۔ کمنڈل اور منڈل کی یہ لڑائی ہی ملک کی سیاست کا مستقبل طے کرے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024