زعیم الدین احمد، حیدرآباد
پارلیمنٹ کے خصوصی سیشن کی اصل وجہ خواتین تحفظات بل تھا یا کچھ اور ؟
پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں غیر متوقع طور پر ایک ہنگامی اجلاس رکھا گیا، اجلاس رکھنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی اور نہ ہی کوئی ایجنڈا ترتیب دیا گیا، اگر ایجنڈا ترتیب بھی دیا گیا ہو تو اسے حزب اختلاف کی کسی پارٹی کو بتانا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ سیاسی دانشور اور صحافی بڑی قیاس آرائیاں لگا رہے تھے کہ شاید پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس آخری اجلاس ہو، اس کے بعد پارلیمنٹ تحلیل کر دی جائے گی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سابق میں بھی پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس ہنگامی صورت حال میں ہی رکھے جاتے رہے۔ ملک میں غیر معمولی حالات ہوں یا کسی قسم کی ایمرجنسی ہو تو ہی خصوصی اجلاس رکھا جاتا تھا۔ ماہرین کا خیال تھا کہ اس خصوصی اجلاس میں کوئی غیر معمولی فیصلہ کیا جائے گا، جیسے پارلیمنٹ کی تحلیل اور قبل از وقت انتخابات، یا ملک بھر میں ایک ہی وقت میں انتخابات، یا ملک کے نام کی تبدیلی وغیرہ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اجلاس کے آخر میں بس ایک خواتین تحفظات بل کو منظور کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اجلاس اسی ایک کام کے لیے رکھا گیا تھا یا پھر کسی اور مقصد کے لیے تھا؟ جو بھی ہو لیکن بڑی چالاکی سے خواتین تحفظات بل کو منظوری کے لیے پیش کردیا گیا۔ اگر اجلاس خواتین تحفظات بل کو پاس کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا تو ایک مضحکہ خیز بات ہوگی، کیونکہ اس کا نفاذ 2029 میں ہونے والا ہے اور جس کے نفاذ میں کئی ایک پیچیدگیاں ہیں۔ حکومت کو سب سے پہلے مردم شماری کروانی پڑے گی، مردم شماری کے ریاستوں کی حلقہ بندی کی جائے گی، اس کے مطابق انتخابات ہوں گے، پھر اس اسمبلیوں میں اس قانون کو پاس ہونا پڑے گا۔ اگر ملک کی نصف ریاستیں اس بل کو پاس کریں تب ہی یہ قانون کی حیثیت سے اختیار کیا جاسکے گا۔ جس کے بعد مردم شماری کے تناسب سے تحفظ فراہم کیا جا سکے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے مردم شماری کرائی جاتی، پھر اس کے مطابق اسمبلیوں کی حد بندیاں کی جاتیں، پھر اس کے مطابق انتخابات ہوتے اور اس کے بعد اس بل کو پیش کیا جاتا۔
ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اس بل کے تئیں سنجیدہ نہیں تھی، اگر سنجیدہ ہوتی تو اس کے لیے واجب العمل طریقہ اپناتی، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ ایک اور وجہ اس کے غیر سنجیدہ ہونے کی یہ ہے کہ اسے اس بل کو منظور کروا کر لاگو کر دینا چاہیے تھا، لیکن اس نے اسے 2029 تک ٹال دیا۔ 1973 کی مردم شماری کے مطابق ہی تحفظات فراہم کیے جاتے اور اس میں دیگر کمزور طبقات کو علیحدہ کوٹا مختص کیا جاتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ خواتین تحفظات بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس نہیں ہوا۔ علاقائی پارٹیوں کا مطالبہ تھا کہ بل میں کمزور طبقات کے لیے علیحدہ تحفظات فراہم کیے جائیں اسی لیے دیگر او بی سی لیڈروں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ خواتین تحفظات بل کے بارے میں تفصیلی مضمون لکھا جاسکتا ہے لیکن ہمارا موضوع اس وقت پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس اور اس میں ہونے والی گفتگو تک محدود ہے۔
پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا حاصل بی جے پی کے ارکان کی بداخلاقی و بے ہودگی رہا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ بی جے پی اپنی انتخابی مہم میں حزب اختلاف کے افراد پر ذاتی حملے کرتی رہی ہے اور بد کلامی ہمیشہ سے اس پارٹی کا خاصہ رہا ہے۔ ایک مخصوص طبقے کو گالیاں دینا انہیں ملک کا غدار قرار دینا اس کا خاص وطیرہ رہا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کو گالیاں دینا اس کا مقصد اول ہے، انہیں ملک کا غدار قرار دینا بی جے پی کا پرانا شوق ہے۔ وہ ہمیشہ سے مسلم مخالف تھی اور ہے۔ وہ نہ صرف مسلم مخالف ہے بلکہ وہ دلتوں و قبائلیوں کی بھی شدید مخالف ہے۔ اسی وجہ سے اس کے غنڈے وقتاً فوقتاً ان طبقات پر مظالم ڈھاتے رہتے ہیں اور ان کے لیڈر ان بدمعاشوں کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں۔ بی جے پی کی تاریخ پڑھی جائے تو ان کے لیڈر ہمیشہ سے ماحول میں نفرت گھولتے اور شر انگیزی پھیلاتے رہتے ہیں۔ یہ معاملہ اب تک عوامی جلسوں، گلی کوچوں اور ٹی وی مباحث تک محدود تھا لیکن اب یہ پارلیمنٹ کے اندر داخل ہوگیا ہے۔ اسی طرح کا ایک پراگندہ طبع کا حامل بی جے پی کا ایک رکن پارلیمنٹ جو جنوبی دہلی کی نمائندگی کرتا ہے، اس نے خصوصی اجلاس کے آخری دن ایک مسلم رکن پارلیمنٹ کو گالیاں دیں، انہیں دہشت گرد، ملا دہشت گرد اور نہ جانے کیا کیا کہہ دیا، دراصل بی جے پی کے اس رکن پارلیمنٹ نے جس گندی زبان کا استعمال کیا ہے وہ سابق میں کئی بی جے پی کے لیڈر کرتے رہے ہیں لیکن وہ انتخابی جلسوں میں ریلیوں میں کرتے تھے لیکن اب انہوں نے مغلظات بکنے کے لیے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کو استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اس بدکلامی کو کسی ایک فرد کا ذاتی فعل نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی چال ہے، کیوں کہ جب یہ بدخلق شخص اپنی گندی زبان سے گالیاں بک رہا تھا تو اس کے پہلو میں بی جے پی کے دو بڑے لیڈر جو کبھی مودی وزارت میں شامل تھے، قہقہے لگا رہے تھے، ان کی باچھیں اس طرح کھلی ہوئی تھیں گویا ان کی دلی تمنائیں پوری ہو رہی ہوں۔ اپنے بڑوں کی پشت پناہی اور شہہ کے بغیر دوسرے درجے کا آدمی یہ حرکت کیسے کر سکتا ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان دو بڑے لیڈروں کی اسے پشت پناہی حاصل تھی، تب ہی تو اس نے اس دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا ہے۔
دوسری طرف اسپیکر کی کارروائی بھی قابل غور ہے۔ جب دانش علی نے شکایت کی تو انہوں نے اس کو اپنے کمرے میں بلایا اور کہا کہ اے شریر بچے تو نے شرارت میں کچھ زیادتی کی ہے اس لیے آئندہ خیال رہے ایسی شرارت دوبارہ مت کرنا، پیٹھ تھپتھپائی اور روانہ کردیا۔ واہ رے سرکار کی نصیحت، ایک طرف حزب اختلاف کا کوئی رکن حکومت سے سوال کرتا ہے تو اسے پورے سیزن کے لیے معطل کر دیا جاتا ہے، دوسری طرف برسرِ اقتدار کا ناہنجار مغلظات بکتا ہے تو اس کی پیٹھ تھپتھپا کر آئندہ نہ کرنے کی نصیحت کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے؟ یہ ہے اسپیکر کا انصاف۔ عمارت تو نئی بنادی گئی لیکن دل و دماغ وہی پرانے ہیں کیا کیا جائے؟ ترقی نئی عمارتوں کے بننے کا نام نہیں ہے، ترقی انسانی تہذیب و تمدن کے پروان چڑھانے کا نام ہے۔ ترقی مادی سہولتوں کی فراوانی کا نام نہیں بلکہ ذہن و دل کی پاکیزگی کا نام ہے۔ ترقی آرائش و زیبائش کا نام نہیں ہے بلکہ زبان و گفتگو میں شائستگی کا نام ہے۔ آپ نئی عمارتیں تعمیر کر لیجیے انہیں سجائیے سنواریے لیکن جب تک ذہن و دل نفرت و کدورت سے پاک نہیں ہوں گے اس وقت تک حقیقی ترقی کا منہ بھی نہیں دیکھ سکو گے۔
***
***
واہ رے سرکار کی نصیحت، ایک طرف حزب اختلاف کا کوئی رکن حکومت سے سوال کرتا ہے تو اسے پورے سیزن کے لیے معطل کر دیا جاتا ہے، دوسری طرف برسرِ اقتدار کا ناہنجار مغلظات بکتا ہے تو اس کی پیٹھ تھپتھپا کر آئندہ نہ کرنے کی نصیحت کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے؟ یہ ہے اسپیکر کا انصاف۔ عمارت تو نئی بنادی گئی لیکن دل و دماغ وہی پرانے ہیں کیا کیا جائے؟ ترقی نئی عمارتوں کے بننے کا نام نہیں ہے، ترقی انسانی تہذیب و تمدن کے پروان چڑھانے کا نام ہے۔ ترقی مادی سہولتوں کی فراوانی کا نام نہیں بلکہ ذہن و دل کی پاکیزگی کا نام ہے
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023