
نواب میر عثمان علی خان ایک انصاف پسند اور روشن فکر حکم راں
ہندو مندروں اور اچھوتوں کے تعلیمی اداروں کے لیے اراضی کا عطیہ
ڈاکٹر ضیا الحسن، ناندیڑ
گمراہ کن پروپیگنڈے کے باوجود نظام سابع کی فیاضی سے انکار ممکن نہیں
صرف پوسٹ کارڈ پر درخواست دینے پر جاری ہو جاتا تھا تعلیمی وظیفہ
نظام حکومت کے خرچ پر غیر مسلم طلبہ نے بھی بیرون ملک جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کی
30یونانی اور 30آیورویدک دواخانوں کا قیام اہم کارنامہ
ریاست حیدرآباد میں ستمبر کے مہینے کو ’ستم گر‘ کہا جاتا تھا، کیونکہ اس ماہ میں ریاست پر بڑی بڑی مصیبتیں آئی تھیں۔ ان میں موسیٰ ندی کی طغیانی (28 ستمبر 1908) کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے جس نے شہر میں بڑی تباہی مچائی تھی۔ یکم ستمبر 1939 سے دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا جس میں حیدرآباد نے برطانوی حکومت کا ساتھ دیا تھا۔ لیکن سب سے بڑا ستم ’آپریشن پولو‘ کے تحت ریاست حیدرآباد پر انڈین یونین کی فوجی کارروائی (ستمبر 1948) تھا جسے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ’پولیس ایکشن‘ کا بے ضرر نام دیا گیا۔ اس فوجی کارروائی کے نتیجے میں 224 سال پرانی ملک کی سب سے بڑی دیسی ریاست کا خاتمہ ہوگیا۔ 12 ستمبر 1948 کو بھارتی فوجیں بغیر کسی مزاحمت کے ریاست میں داخل ہوئیں۔ 17 ستمبر کو حیدرآبادی افواج نے ہتھیار ڈال دیے اور 19 ستمبر کو ریاستِ حیدرآباد کا انڈین یونین میں انضمام عمل میں آیا۔ حیدرآباد کی سادہ لوح عوام کی یہ منظوم دعا
تا ابد خالقِ عالم یہ ریاست رکھے
تجھ کو عثمان بصد اجلال سلامت رکھے
کام نہیں آسکی۔ اس فوجی کارروائی کے دوران خصوصاً اضلاع کے نہتے مسلمانوں پر جو بے انتہا ظلم ڈھائے گئے وہ ناقابلِ بیان ہیں۔
نواب میر عثمان علی خان بہادر ریاستِ حیدرآباد (جس کا رقبہ 84 ہزار میل تھا) کے علاوہ برار کے حکم راں بھی تھے۔ انہیں ’نظام آف حیدرآباد اینڈ برار‘ کہا جاتا تھا۔ برار کا علاقہ مہاراشٹر کے چار اضلاع امراوتی، اکولہ، ایوت محل اور بلڈانہ پر مشتمل تھا۔ لیکن انگریزوں نے بڑی چالاکی سے اس علاقہ کو ایک طویل مدتی معاہدے کے تحت نظامِ حیدرآباد سے حاصل کرلیا تھا، جس کے عوض انگریز انہیں 25 لاکھ روپے سالانہ دیا کرتے تھے۔ آصف جاہ سابع انتھک کوششوں کے باوجود یہ علاقہ انگریزوں کے چنگل سے آزاد نہیں کراسکے۔ البتہ ولی عہد اعظم جاہ بہادر کو انگریزوں نے (برائے نام) ’پرنس آف برار‘ قرار دیا تھا۔
نواب میر عثمان علی خان (1886 تا 1967) اپنے والد نواب میر محبوب علی خان آصف جاہ سادس کے انتقال کے بعد 1911 میں تخت نشین ہوئے۔ آصف جاہ سادس انتہائی نیک اور فیاض بلکہ دریادل بادشاہ تھے۔ ان کی فیاضیوں سے ریاست کا خزانہ تقریباً خالی ہوچکا تھا۔ لیکن آصف جاہ سابع نے تخت نشینی کے بعد اپنی ذہانت، فراست، تدبر اور سخت محنت سے ریاست کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا، جس کے نتیجے میں ریاستِ حیدرآباد ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ریاست میں تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے حیدرآباد کی ہمہ جہت ترقی کے لیے کئی اہم اقدامات کیے۔ ایک عظیم الشان یونیورسٹی کے علاوہ کئی تعلیمی اور تحقیقاتی ادارے قائم کیے۔ دور دراز کے گاؤں میں تعلیمی سہولتیں بہم پہنچائیں۔ انڈسٹریاں قائم کیں، دواخانے اور بڑے بڑے ڈیم بنوائے، پل اور پختہ سڑکیں تعمیر کیں۔ محکمہ اراضیات، جنگلات، آثارِ قدیمہ، ہوا بازی (دکن ایرویز) اور لاسلکی نشریات جیسے کئی اہم محکمے قائم ہوئے۔ ریلوے جو ایک بیرونی خانگی کمپنی کے تحت تھا، اسے نظام اسٹیٹ ریلویز (NSR) میں تبدیل کیا۔ نواب میر عثمان علی خان انتہائی سادہ زندگی گزارنے والے ایک ایسے حکم راں تھے جن کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ وہ اپنے پیشروؤں کی طرح سیکولر ذہن رکھتے تھے۔ انہوں نے ہر مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ انصاف کیا۔ بعض معاملات میں مسلمانوں کے موقف کی تائید نہیں کی بلکہ اسے عدالت کی صوابدید پر چھوڑ دیا، جہاں فیصلہ مسلمانوں کے خلاف ہوا۔ نظام سابع کی مذہبی رواداری اور انصاف پسندی کے بارے میں کسی شاعر نے خوب کہا تھا؎
مسلکِ صلح کل سے جوڑے ہیں
ایک رشتہ میں سُبْحَہ و زُنَّار
جس سے مضبوط رشتہ اقوام
جس سے مضبوط سلطنت کا حصار
1938 میں حیدرآباد اسٹیٹ کانگریس کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے صدر سوامی رامانند تیرتھ تھے (آنجہانی کے نام سے ناندیڑ میں ایک یونیورسٹی قائم کی گئی جس کا یومِ تاسیس 17 ستمبر 1994 ہے) مگر ریاست میں اسٹیٹ کانگریس کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا اور اسے کسی بھی طرح کی سرگرمی کی اجازت نہیں تھی۔ 1946 میں یہ پابندی اٹھا لی گئی۔ چنانچہ اسٹیٹ کانگریس نے (جس میں مہا سبھائی ذہنیت کے افراد بھی شامل تھے) مختلف مقامات پر ستیہ گرہ کی تحریک شروع کی لیکن ستیہ گرہ میں شریک افراد کی تعداد نہایت کم ہوا کرتی تھی۔ انہیں گرفتار کیا جاتا اور چند گھنٹوں کے بعد ایک گلاس بھر اووالٹین (آج کے بورن ویٹا کی طرح کا ایک صحت بخش مشروب) پلا کر رہا کر دیا جاتا تھا۔
جو حکم راں اپنے کٹر مخالفین یا ملک کے باغیوں کے ساتھ اس طرح کا شریفانہ سلوک کرتا ہو، بھلا وہ اپنی رعایا کے ساتھ ظالمانہ رویہ کیسے اختیار کرسکتا ہے؟ لیکن افسوس کہ ستمبر 1948 کے بعد لکھی جانے والی کتابوں میں متعصب اور جھوٹے مصنفین نے نظام سابع کو ایک ظالم اور جابر حکم راں کے طور پر پیش کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے جس میں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے لیڈر بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
دراصل اسٹیٹ کانگریس کی مکتی سنگرام تحریک صرف سوا سال (11 جون 1947 تا ستمبر 1948) چلی تھی لیکن اس قلیل مدت کے بارے میں نظامِ حیدرآباد اور ان کی حکومت کے ظلم و ستم اور ناانصافیوں کے سیکڑوں جھوٹے افسانے گھڑ لیے گئے جنہیں آج بھی دہرایا جاتا ہے۔ حیدرآباد کے ایک سکھ اسکالر نانک سنگھ نشترؔ (متوفی 2025) جن کا خاندان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں پنجاب سے حیدرآباد منتقل ہوگیا تھا، انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا:
’’ہندوستان کی گزشتہ تین سو سالہ تاریخ میں مجھے نظام سابع میر عثمان علی خان جیسا کوئی سیکولر حکم راں نظر نہیں آتا۔‘‘
آصف جاہ سابع نے ہمیشہ اپنی رعایا کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کیا، چاہے تعلق کسی مذہب یا فرقے سے ہو۔ چنانچہ ان کے دورِ حکومت (1911 تا 1948) میں ہندو مندروں کو نقد معاش کے علاوہ 2,01,957 ایکڑ معاش بصورت اراضی بطور عطیہ دی گئی تھی، جب کہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کے لیے دی گئی زمین 97,886 ایکڑ تھی۔ سرکارِ آصفیہ سے امداد پانے والے غیر مسلم مذہبی اداروں کی تعداد مسلم مذہبی اداروں سے زیادہ یعنی 11,256 تھی۔
ریاست کے سیکڑوں ہندو مندروں مثلاً دیول گوکل ناتھ، دیول ایسری پرشاد، دیول شنکر باغ، دیول بالا جی مادنا پیٹ، دیول اومکار (مسلم جنگ پل) دیول گولی پورہ وغیرہ کو سرکاری امداد ملا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ ریاستِ حیدرآباد کی جاری کردہ ایسی معاشیں بھی تھیں جن کے محلِ شرط ریاست کے باہر یعنی انگریزی علاقوں میں واقع تھے، جیسے دیول بھدرا چلم، دیول ترویلور (مدراس) دیول پنڈھرپور (ضلع شولاپور، مہاراشٹر) دیول بالاجی تروپتی، دیول وینکٹیش بالاجی (دیول گاؤں، برار موجودہ مہاراشٹر) وغیرہ۔ غیر مسلموں کے نام خدماتِ امارتِ شرعیہ اسلامیہ کی 118 معاشیں تھیں۔
ریاستِ حیدرآباد کے اضلاع میں تقریباً 70 اور دارالسلطنت میں 10 چرچ قائم تھے، جیسے حیدرآباد کے پروٹسٹنٹ چرچ، رومن کیتھولک چرچ، میتھوڈسٹ چرچ، انڈین چرچ وغیرہ۔ 16 فروری 1927 کو سیکرڈ ہارٹ چرچ لالہ گوڑہ سکندرآباد کی تعمیر کے لیے سو سال کی لیز پر اراضی دی گئی تھی۔ چرچ کی تعمیری لاگت 5 ہزار روپے تھی جس میں ایک ہزار روپے نظامِ حیدرآباد نے عطیہ کے طور پر دیے تھے (روزنامہ سیاست حیدرآباد مورخہ 4 دسمبر 2024، صفحہ 8) اسی طرح دہلی میں ایک بڑے چرچ کی تعمیر کی اطلاع ملنے پر کسی عرضداشت یا نمائندگی کے بغیر نظام سابع نے ایک فرمان، مورخہ 29 اکتوبر 1933 کے ذریعہ زیرِ تعمیر چرچ کے لیے 15 ہزار روپے کلدار کا عطیہ روانہ کیا تھا۔ حیدرآباد میں عیسائی مشنریز کے تحت چلنے والے دواخانوں اور مدارس کو بھی سرکاری امداد ملا کرتی تھی۔
ناندیڑ کے گردوارہ سچکھنڈ حضور صاحب کے نام جاگیریں تھیں اور وقتاً فوقتاً نقد عطیات بھی دیے جاتے رہے۔ یہ سلسلہ نظام ثامن مکرم جاہ بہادر (متوفی 2023) تک جاری رہا۔ پارسیوں کے آتش کدہ کو بھی سرکاری امداد دی جاتی تھی۔
نواب میر عثمان علی خاں کی علم دوستی سے متاثر ہو کر انہیں ’سلطان العلوم‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی ریاست میں ہر طرح کی تعلیم اور مختلف علوم و فنون کی ترقی و ترویج کے لیے بڑے اقدامات کیے تھے۔ ریاست میں اردو کے علاوہ تلگو، مراٹھی، کنّڑ زبانیں بولی جاتی تھیں۔ چنانچہ طلبہ کو پرائمری تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جاتی تھی۔ آصف جاہ سابع نے اچھوت اقوام کی تعلیم کی طرف بھی خاص توجہ دی۔ انہیں اورنگ آباد (مہاراشٹر) میں کئی ایکڑ قیمتی اراضیات عطیہ کے طور پر دیں جہاں آج دلت اقوام کے تعلیمی ادارے قائم ہیں۔
1931 میں ملک کے اچھوت اقوام نے اپنے حقوق کی تائید اور تصدیق میں جو قراردادیں پاس کی تھیں ان میں ایک قرارداد حکومتِ حیدرآباد کے شکریے کی بھی تھی، جس میں یہ تحریر تھا:
’’یہ جلسہ حضور نظام کی حکومت کا شکر گزار ہے کہ جس نے اچھوتوں کی تعلیمی پستی دور کرنے کے لیے پوری دلچسپی کا اظہار کیا۔ خاص طور پر ایسی درسگاہیں قائم کیں جن کی مثال ہندوستان میں موجود نہیں۔ یہ جلسہ دیگر والیانِ ریاست سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اعلیٰ حضرت کے ان شریفانہ جذبات کی تقلید کریں۔‘‘ (مجلہ یادگار سلور جوبلی، صفحہ 109)
نواب میر عثمان علی خان بہادر کے حکم پر حیدرآباد میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام (1917) عمل میں آیا۔ ملک کی یہ پہلی یونیورسٹی تھی جس کا ذریعہ تعلیم ایک ہندوستانی زبان یعنی اردو تھا۔ اس یونیورسٹی میں ملک اور بیرونِ ملک کے قابل ترین اساتذہ کا تقرر کیا گیا تھا۔ جامعہ عثمانیہ کے طلبہ کو اردو کے علاوہ انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان طلبہ نے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دے کر اپنی مادرِ جامعہ کا نام روشن کیا۔ نظامِ حیدرآباد نے اپنی ریاست کے ذہین طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے سرکاری وظیفے پر بیرونِ ریاست اور بیرونِ ملک بھجوایا۔ ان میں غیر مسلم طلبہ بھی شامل تھے۔
سالانہ صحیفہ 1336 کے مطابق:
تل سکھ رام (تین سال لندن)
یلا ریڈی (طبِ انگریزی سیکھنے کے لیے تین سال لندن)
یس دھر راج (طب انگریزی، دہلی چھ سال)
کرشنا (طب انگریزی، بمبئی چھ سال)
ہریش چندر پردھام (امریکہ میں تین سال الیکٹریکل انجینئرنگ)
اسی طرح بے شمار خواتین نے بھی نظام کے جاری کردہ وظائف سے استفادہ کیا، مثلاً:
مس لیلا منی نائیڈو (بی اے، آکسفورڈ)
مس جیسی نندی (ٹیچرز ڈپلوما، ایم اے آنرز، لندن)
مس میری نندی (بی ایس سی، لندن)
مس دوارا نندی (Froebel Course، لندن)
مس ولنکرد (ڈپلوما، لندن)
مسز سمترا بائی (FRCS، ایڈنبرا)
مہا لکشمی بائی نائیڈو (طب، ایڈنبرا)
سمترا بائی سرکھنڈی (MBBS، بمبئی)
مسز سبائس (BA، LTS مدراس)
بلبلِ ہند سروجنی نائیڈو، جو حیدرآباد میں پیدا ہوئی تھیں، ان کو ریاستِ حیدرآباد کے تعلیمی وظیفے پر کنگز کالج لندن اور کیمبرج بھیجا گیا تھا۔ ان کے والد اگھور ناتھ چٹوپادھیائے نظام کالج حیدرآباد کے پرنسپل تھے۔
آصف جاہ سابع اتنے منصف مزاج تھے کہ انہوں نے علی حیدر طباطبائی کی درخواست کو، جو انہوں نے علی گڑھ میں زیرِ تعلیم اپنے فرزند کے نام تعلیمی وظیفہ جاری کرنے کے لیے دی تھی، مسترد کردیا، کیونکہ درخواست گزار کی ماہانہ آمدنی پانچ سو روپے تھی، یعنی وہ اپنے لڑکے کا تعلیمی خرچ برداشت کرسکتا تھا۔ البتہ ضرورت مند طلبہ کی مالی امداد میں تاخیر نہیں کی جاتی تھی۔
گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن ناندیڑ کے ایک سینئر پروفیسر وی وی گوڈبولے نے بتایا تھا کہ خراب مالی حالات کے باوجود انہوں نے اسکول کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا۔ انہوں نے ایک سادہ پوسٹ کارڈ پر تعلیمی وظیفے کے لیے متعلقہ محکمہ کو درخواست روانہ کی۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے نام وظیفہ جاری ہوگیا۔ کیا آج کے دور میں اس طرح کے عاجلانہ اقدام کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے؟
نواب میر عثمان علی خان نے ملک کے مسلم تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم تعلیمی اداروں کو بھی فیاضانہ عطیات دیے۔ مہاراجا بیکانیر گنگا سنگھ (جو بنارس ہندو یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی تھے) کی درخواست پر یونیورسٹی کے لیے ایک لاکھ روپے کا گراں قدر عطیہ دیا گیا۔ اسی طرح رابندر ناتھ ٹیگور کے قائم کردہ شانتی نکیتن اور آندھرا یونیورسٹی کو بھی ایک ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی حیدرآباد آمد پر شانتی نکیتن کے لیے مزید سوا لاکھ روپے منظور کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ پونا کو گیسٹ ہاؤس کی تعمیر اور مہابھارت کی اشاعت کے لیے دو مرتبہ ایک بڑی رقم منظور کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ یہ تمام ادارے حیدرآباد کے باہر تھے۔ بیرونِ ملک کے تعلیمی ادارے بھی ان کی فیاضی سے محروم نہیں رہے۔ چنانچہ آرمسٹرانگ کالج نیو کیسل، لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز اور ہائیڈن یونیورسٹی (ہالینڈ) کو Bibliography of Indian Archaeology کی تدوین اور اشاعت کے لیے آٹھ سال کی مدت تک مالی امداد جاری کی گئی۔ فلسطین یونیورسٹی کے قیام کے لیے بھی انہوں نے ایک لاکھ روپے کا زرِ عطیہ دیا تھا۔
اسی لیے آصف جاہ سابع کی بے شمار خوبیوں کی حامل شخصیت کے بارے میں ایک شاعر نے ٹھیک ہی کہا تھا؎
اس کے چھینٹوں نے سوادِ قدس اگر سیراب ہو
خاکِ دہلی پر بھی اس کا فیض منڈلایا کرے
گر علی گڑھ اس کی فیاضی سے مالا مال ہو
سر سے لے کر پاؤں تک کاشی کو بھی مایا کرے
شانتی نکیتن پر برسے ہو کے یثرب کی گھٹا
اور مہابھارت سے موتی اپنے رُلوایا کرے
نظام سابع کو اپنی رعایا کی تندرستی اور صحت کا بھی بہت خیال تھا۔ چنانچہ انہوں نے کثیر صرفہ سے شہر حیدرآباد میں عثمانیہ ہسپتال اور صدر شفا خانہ یونانی جیسے دو بڑے دواخانے قائم کیے۔ اضلاع کے مستقر پر انگریزی طریقہ علاج اور چھوٹے مقامات پر ہندوستانی طریقہ علاج کے دواخانے کھولے گئے تھے۔
نظام سابع صاف ذہن کے حکم راں تھے۔ انہوں نے علاقہ مراٹھواڑہ میں 30 یونانی دواخانوں کے ساتھ ساتھ 30 آیورویدک دواخانے بھی قائم کیے تھے، لیکن آزادی کے بعد کئی یونانی دواخانے حکومت کی توجہ کا شکار ہو کر بند ہوگئے یا وہاں آیورویدک ڈاکٹروں کا تقرر کر دیا گیا۔ بعض دواخانے جان بوجھ کر شہر سے دیہاتوں کو منتقل کر دیے گئے۔ یونانی حکما کی کئی جائیدادوں کو ایسی Reserve category میں شامل کردیا گیا جس میں یونانی گریجویٹ نہیں ملتے۔ نتیجتاً کئی جائیدادیں برسہا برس سے خالی ہیں۔ مہاراشٹرا کے دو مسلم وزرائے صحت نے مختلف اوقات میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی، مگر یہ کوشش بے سود ثابت ہوئی۔ البتہ IMPA جیسی یونانی اطبا کی تنظیمیں اس کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
مختصر یہ کہ حیدرآباد ملک کی سب سے بڑی مسلم ریاست ہونے کے باوجود صحیح معنوں میں ایک سیکولر مملکت تھی۔ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یہاں ہر طرح کی آزادی حاصل تھی۔ ہندووں اور دیگر اقوام کے جان و مال اور ان کی عبادت گاہیں نہ صرف پوری طرح محفوظ تھیں بلکہ انہیں سرکاری امداد بھی ملتی تھی۔ غیر مسلموں کو ترقی کے تمام مواقع حاصل تھے اور اچھوتوں کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری تھیں۔
یہ ایک ایسی خوشحال ریاست تھی جہاں ہندو اور مسلمان شیر و شکر کی طرح رہا کرتے تھے۔ ان کا حکم راں صاف ذہن رکھنے والا، انصاف پسند بادشاہ تھا جس نے اپنی رعایا کو ہمیشہ ایک نظر سے دیکھا اور انہیں ہر طرح کی سہولت بہم پہنچائی۔ ملک کے فرقہ پرست سیاست داں اور متعصب مصنفین حیدرآباد کے ایک فقیر منش حکم راں کی شبیہ بگاڑنے کی چاہے لاکھ کوشش کریں، انہیں کامیابی نہیں مل سکتی، کیونکہ نظام سابع میر عثمان علی خاں بہادر کے حقیقی کردار کی تصویر سنجیدہ اور منصف مزاج مصنفین کی کتابوں میں محفوظ ہے۔
حوالہ جات:
سالانہ صحیفہ 1336
مجلہ سلور جوبلی، مرتب محمد فاصل 1345
ریاست حیدرآباد کے آخری حکم راں کی وسیع النظری (2014) ڈاکٹر سید داود اشرف
پولیس ایکشن، ایم اے عزیز انجینئر (2006)
نظام سابع کے فرمانوں کے عکس ڈاکٹر داود اشرف کی کتاب ریاست حیدرآباد کے آخری حکم راں کی وسیع النظری سے لیے گئے ہیں
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2025